ٹائٹن کے ملبے کی زیرِ سمندر ویڈیوز دیکھ کر حادثے کی وجہ کیسے جانی جا سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 20, 2024

یہ ویڈیو ایک اہم نیا ثبوت ہے جو اوشن گیٹ کی ٹائٹن نامی آبدوز کے تباہ ہونے کے بعد شروع ہونے والی تحقیقات میں مددگار ثابت ہو گی۔

گذشتہ برس جون میں روبوٹس کی مدد سے بنائی گئی اس ویڈیو میں تباہ شدہ آبدوز کے ٹکڑوں کو بحیرہ اوقیانوس میں سمندر کی تہہ میں 3800 میٹر گہرائی میں بکھرا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں ٹائٹن کا پچھلا حصہ سمندر کی تہہ میں بکھرا نظر آ رہا ہے۔ اس ویڈیو میں ٹائٹینیم سے بنائے گئے اس کے پچھلے گنبد نما حصے کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے گذشتہ برس غرقاب ہونے والے سمندری جہاز ٹائیٹینک کی طرف سفر کرنے والی ٹائیٹن نامی آبدوز سمندری دباؤ کے سبب پھٹ گئی تھی۔ اس حادثے میں دو پاکستانیوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے رواں ہفتے جاری کی گئی ایک اور ویڈیو میں سمندر کی تہہ میں موجود ٹائٹن کے کون نما پچھلے حصے کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں الیکٹرانک آلات نصب ہوتے ہیں۔

ٹائٹن کا یہ حصہ پوری طرح تباہ نہیں ہوا کیونکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ آبدوز کے اس حصے نے سمندر کی گہرائی میں اُترتے وقت سمندری دباؤ کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔

ٹائٹن کا ملبہ گذشتہ برس ہی سمندر سے باہر نکالا گیا تھا اور فارنزک ماہرین اس کا معائنہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سفر کے دوران ٹائٹن کے کون سے حصے میں خرابی آئی تھی۔

اس حادثے کے بعد شروع ہونے والی عوامی سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا تھا کہ اوشن گیٹ نے ٹائٹن کے ڈیزائن کے حوالے سے متعدد وارننگز کو نظرانداز کیا تھا۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مرین بورڈ آف انویسٹیگیشن کی جانب سے منعقد کی گئی سماعت کے دوران گواہان نے 18 ستمبر کو اس حوالے سے متعدد ثبوت بھی پیش کیے تھے۔

سماعت کے دوران ٹائٹن کے ڈیزائن اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ماہرین نہ صرف اپنے بیان ریکارڈ کروائیں گے بلکہ یہ بھی بتائیں گے کہ کن عوامل کے سبب آبدوز حادثے کا شکار ہوئی۔

ٹائٹن آبدوز کے تباہ ہونے سے پہلے موصول ہونے والا آخری پیغام: ’یہاں سب ٹھیک ہے‘ ٹائٹن حادثے کے ایک برس بعد امریکی ارب پتی شخصیت نے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے مشن کا اعلان کیوں کیا؟سمندر کی گہرائی میں ٹائٹن کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟شہزادہ داؤد، سلیمان اور ’مسٹر ٹائٹینک‘: بدقسمت ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافر کون تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More