انڈیا کا وہ گاؤں جہاں امریکی خلا باز کے لیے دُعائیں مانگی جا رہی ہیں

بی بی سی اردو  |  Sep 21, 2024

Kushal Batungeسُنیتا کے لیے دُعاوں میں مصروف جھلاسن کے لوگ

انڈیا کی ریاست گجرات کے جھلاسن گاؤں کے ایک سکول میں امریکی خلاباز سنیتا ولیمز کی 59 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا جہاں کا ماحول اس نمائش کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔

جھلاسن کے رہنے والوں نے سنیتا ولیمز کی خلا سے بحفاظت زمین پر واپسی کے لیے چراغ بھی جلائے اور اُن کے لیے دعائیں بھی مانگتے رہے۔

لیکن اس گاؤں کے رہنے والوں کو سنیتا سے اس قدر محبت کیوں ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ جھلاسن کسی زمانے میں سُنیتا کے والد اور دادا دادی کا آبائی گاؤں تھا۔ کامیاب خلائی مشن کے بعد سُنیتا دو مرتبہ سنہ 2007 اور سنہ 2013 میں جھلاسن آئیں۔

جھلاسن کے رہنے والے اب ایک مرتبہ پھر یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ سُنیتا اب بھی اپنے کامیاب خلائی مشن کے بعد دوبارہ یہاں آئیں گیں۔

سُنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی خلاباز بیری ولمور پانچ جون کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے آزمائشی مشن پر روانہ ہوئے تھے۔ انھیں آٹھ دن میں واپس آنا تھا تاہم وہ اپنے خلائی جہاز بوئنگ کے سٹار لائنر میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے خلا میں پھنس گئے ہیں۔

ناسا کی جانب سے حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں آئندہ سال فروری میں سپیس ایکس فالکن 9 خلائی جہاز میں خلابازوں کو واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سُنیتا اور ولمور خلا سے اپنی خیریت کے بارے میں سب کو آگاہ رکھنے کے لیے ویڈیو کالز کا سہارا تو لے رہے ہیں مگر ان دونوں کی صحت کے بارے میں سب کو تشویش لاحق ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک مائکرو گریویٹی یا ’وزن میں کمی‘ اور خلا میں تابکاری کی بلند سطح ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

Dinesh Patelسنہ 2007 میں سُنیتا کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب

ان کے کزن نوین پانڈیا کا کہنا ہے کہ انھیں سُنیتا اور اُن کے خلائی مشن کے بارے میں سامنے آنے والی غیر مصدقہ اور متضاد معلومات پریشان کر دیتی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں اور سب اچھا ہو گا مگر کُچھ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شاید ہو زمین پر بحفاظت واپس ہی نہ آ سکیں۔ ہمیں اب تک کسی نے کُچھ بھی نہیں بتایا کہ سُنیتا کیسی ہیں، وہ کب اور کیسے بحفاظت واپس آئیں گی۔‘

جھلاسن جس کی آبادی صرف سات ہزار ہے، قدم قدم پر سُنیتا ولیمز کی یادوں سے بھرا ہوا ہے۔

اسی گاؤں میں اُن کے دادا اور دادی کے ناموں سے منصوب ایک لائبریری بھی ہے اور ان کے والد دیپک پانڈیا کا آبائی گھر بھی اسی گاؤں میں ہے مگر یہ تمام مقامات اب توجہ نہ ملنے کی وجہ سے خستہ حال ہیں۔

زمین سے 400 کلو میٹر کی بلندی پر ایک خلاباز کی زندگی: تین ماہ تک ایک ہی پتلون اور ’خلائی بو‘ کا سامنا’آئی کیوب قمر‘: چاند کے مدار میں پہنچنے والے پاکستانی سیٹلائیٹ سے پہلی تصاویر موصولنجی خلائی مشن کے دوران خلا میں پہلی چہل قدمینوعمری میں سکول چھوڑنے سے خلا میں چہل قدمی تک: 16 سال کی عمر میں کامیاب کمپنی کی بنیاد رکھنے والے جیرڈ آئزک کون ہیں؟

اسی گاؤں میں ایک سکول ایسا بھی ہے کہ جسے سُنیتا ولیمز نے اپنے آخری دورے کے دوران چندہ دیا تھا۔ اس میں ایک دعائیہ ہال بنایا گیا ہے جہاں اُن کے دادا دادی کی تصاویر موجود ہیں۔ سنہ 2007 میں جب سُنیتا ولیمز کو اسی سکول میں اعزاز سے نوازا گیا تو ان کے رشتہ دار کشور پانڈیا کو ان سے ملنے کا موقع ملا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں ان کے پاس گیا اور اپنی محدود انگریزی میں کہا کہ ’میں تمہارا بھائی ہوں۔‘ جس کے جواب میں سُنیتا نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ’اوہ! میرا بھائی!‘ میں اب بھی اس لمحے کو یاد کرتا ہوں۔‘

سُنیتا کے والد دیپک پانڈیا سنہ1957 میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ چلے گئے۔ جہاں اُن کی ملاقات ارسلین بونی سے ہوئی اور دونوں نے بعد میں شادی کر لی۔ سنہ1965 میں دیپک اور بونی کے ہاں سُنیتا کی پیدائش ہوئی۔

سات سال بعد پانڈیا اور ان کی فیملی نے ان کے جانے کے بعد پہلی بار جھلاسن کا دورہ کیا۔ یہ لمحہ اُس گاؤں کے لیے کسی جشن سے کم نہیں تھا۔ امریکہ سے آنے والے اس خاندان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ انھیں ایک جلوس کی صورت میں گاؤں لے جایا گیا۔

Kushal Batunge

68 سالہ بھرت گجر جو کارپینٹر کا کام کیا کرتے تھے اب بھی یادگار اور اپنائیت سے بھرے اُس دن کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے کہ جب ایک نوجوان سنیتا اور دیگر لوگوں نے اونٹوں پر سوار ہو کر پورے گاؤں کا دورہ کیا تھا۔‘

ان مناظر نے جھلاسن کے لوگوں کو دیپک پانڈیا کے نقش قدم پر چلنے اور بیرون ملک ایک بہتر زندگی کے حصول کی ترغیب دی۔

حال ہی میں امریکہ کا دورہ کرنے والی مدھو پٹیل کا کہنا ہے کہ جھولانا ولیمز کی محنت اور لگن اور آگے بڑھنے کے فیصلے کی وجہ سے ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

مدھو پٹیل ان خواتین کے ایک گروپ میں شامل ہیں جو ایک مقامی مندر میں روزانہ پوجا کرتی ہیں جس پر رہائشیوں کا بہت بھروسہ ہے۔

اُن کی سُنیتا کے لیے خلا سے زمین پر بحفاظت واپسی کی دُعائیں کبھی رد نہیں ہوئیں۔ یہاں مندر کے اندر دیوتاؤں کے مجسموں کے ساتھ، خلاباز کی ایک تصویر بھی رکھی گئی ہے۔

مدھو پٹیل کہتی ہیں کہ ’ہمیں ان کی کامیابیوں پر فخر ہے۔ ناسا اور حکومت کو ہماری بیٹی کو بحفاظت واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پانڈیا کی موت کے بعد ان کے خاندان سے رابطہ ختم ہو گیا ہے، لیکن انھیں امید ہے کہ سُنیتا ولیمز کو اس بات کا احساس ہو گا کہ اس گاؤں کے رہنے والے آج بھی اُنھیں یاد کرتے ہیں اور ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔

یہ سب لوگ اُن کی بحفاظت واپسی کے مُنتظر ہیں، اُن کے الفاظ اور اُن کا کام یہاں کے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ منتھن لیوا جو ایک اہم امتحان کی تیاری کر رہے ہیں، سُنیتا ولیمز کی ایک تقریر کو یاد کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے اپنی اس تقریر میں کہا تھا کہ ’آپ اپنا کام دل لگا کر کریں، بس پھر کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔‘

اسی بارے میںبوئنگ سٹار لائنر جس کی واپسی انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پھنسے خلابازوں کے بغیر ہوئیپولارس ڈان: جیرڈ آئزک مین سپیس واک کرنے والے پہلے نجی خلا باز بن گئےوہ دھماکہ جس نے تین خلا بازوں کو زمین سے چار لاکھ کلومیٹر دور دھکیل دیاچندریان تھری کے نیند سے بیدار ہونے کی امید ’ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ کم ہو رہی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More