ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھے رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 21, 2024

’لوگوں کو جو مولوی اکسا رہا تھا اس کے پاس ڈاکٹر شاہنواز نے قرآن پڑھنا سیکھا تھا۔ اس کو شاہنواز کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی علم تھا لیکن وہ باز نہیں آیا۔‘

یہ ڈاکٹر شاہنواز کی ایک قریبی رشتہ دار کے الفاظ ہیں جنھوں نے بی بی سی سے ڈاکٹر شاہنواز کی موت اور انھیں دفنانے کی تگ و دو کے دوران پیش آنے والے واقعات سے متعلق بات کی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’وکیل کی مشاورت سے ڈاکٹر شاہنواز کی گرفتاری پیش کی گئی تھی اور رات کو ہم کھانا کھا کر بے فکر ہو کر سو گئے تھے کہ پولیس کے ہاتھوں میں وہ محفوظ ہے۔‘

’رات کو میڈیا پر خبریں آئیں کہ اس کو مار دیا گیا۔ ہمارے ساتھ اتنا بڑا ظلم اور دھوکہ کیا گیا۔‘

صوبہ سندھ کے شہرعمرکوٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی تدفین کی کوشش کی تاہم مشتعل مظاہرین نے ان کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

شاہنواز کنبہار کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی تاہم 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی۔

ان کی ہلاکت سے قبل 17 اور 18 ستمبر کو عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج بھی ہوا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

شاہنواز کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے‘۔

مبینہ پولیس مقابلے سے متعلق کھڑے ہونے والے تنازعے کے بعد ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی اور ایس ایس پی اسد چوہدری کی معطلی کے نوٹیفیکیشن جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس سے قبل ڈی آئی جیز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کرنی ہیں۔

حکومتِ سندھ کے زیر انتظام سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

کمیشن کے چیئرمین اقبال ڈیتھو نے عمر کوٹ میں متاثرہ خاندان، ایس ایس پی، ڈی سی اور سول سوسائٹی کے بیانات لیے جبکہ ممبر جوڈیشل جسٹس ریٹائرڈ ارشد نور نے ایس ایس پی میرپور خاص اور ایس ایچ او سمیت دیگر کے بیان قلمبند کیے اور مبینہ جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔

اقبال ڈیتھو نے بتایا کہ وہ اپنی رپورٹس اور سفارشات چیف سیکریٹری کو دیں گے۔

’خواتین ننگے سر اور پاؤں لاش لینے کے لیے دوڑتی رہیں‘

مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز کی کزن نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ کس طرح ان کے گھر کی خواتین گھنٹوں میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے تگ و دو کرتی رہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم خواتین بے پردہ گھر کی چار دیواری سے کبھی نہیں نکلیں لیکن لاش لینے لیکن آخری بار میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے صحرا میں ننگے سر اور ننگے پاؤں دوڑتی رہیں۔‘

ڈاکٹر شاہنواز کی کزن نے بتایا کہ انھیں پتہ چلا کہ لاش کو گاؤں کے اندر نہیں آنے دیا جا رہا، تو وہ اور گھر کی دیگر خواتین بنا چپلیں پہنے اور ننگے سر وہاں دوڑیں۔

’پہلے ہم گاؤں کے وڈیرے کے گھر گئیں تاکہ ان کی مدد لے سکیں لیکن انھوں نے دورازے نہیں کھولے، اس کے بعد مساجد کے خطیبوں کے گھروں پر گئے انھوں نے بھی دروازے نہیں کھولے۔ اس کے بعد ہم ایمبولینس کی طرف گئے لیکن ہمارے ماموں کار میں لاش لے گئے اور ہم واپس آ گئے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب وہ گھر واپس آئے تو انھیں پتہ چلا کہ لاش کی بے حرمتی کر رہے ہیں اس کے بعد خواتین دوبارہ اس طرف زمین کی طرف دوڑیں جہاں لاش لے کر گئے تھے۔‘

’خاندان والے ابھی راستے میں تھے تو لوگ وہاں بھی پہنچ چکے تھے، جن کے پاس اسلحہ، پیٹرول، کلہاڑیاں تھیں اور وہاں انھوں نے لاش جلا دی تھی۔ اس دوران وہ جلتی لاش کے شعلے دیکھے رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے۔‘

’ماموں نے پانی ڈال کر آگ بجھائی اور وہ ہاتھوں میں لاش لے کر کبھی اس طرف جا رہے تھے، کبھی اس طرف۔ ہمیں چہرہ بھی نہیں دیکھنے دیا گیا۔ ہم کزنز اور دیگر خواتین روتے پیٹتے واپس آ گئیں۔‘

یہ بھی پڑھیےاسلام آباد: مسیحی خاتون کو سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے پر سزائے موت سنا دی گئی ورثا کا توہین رسالت کے ملزم کے قاتل پولیس کانسٹیبل کو معاف کرنے کا اعلان: ’قبیلے نے معاف کیا ہے ریاست نے نہیں‘سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟لاش دفنانے پر تنازع کیوں بنا؟

ڈاکٹر شاہنواز کے ایک قریبی رشتہ دار نے گذشتہ روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب انھیں کسی مقامی قبرستان میں ڈاکٹر شاہنواز کی تدفین کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے لاش کو اپنی ملکیتی زمین پر دفنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صبح چار بجے کے قریب شاہنواز کے والد ایمبولینس میں لاش لے کر آئے لیکن مشتعل لوگوں نے ایمبولینس کو گاؤں میں آنے نہیں دیا۔ جس کے بعد ایمبولینس ڈرائیور نے لاش اتارنے کو کہا۔ ہم نے لاش ایک کار میں ڈالی جس کی کھڑکی سے اُس کے پاؤں بھی باہر تھے۔

ان کے مطابق ورثا میت کو تدفین کے لیے جہانرو لے گئے جو عمرکوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن مذہبی جماعتوں کے کارکن اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بھی پہنچ گئی۔

کسی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم میت کو صحرائی علاقے میں اپنی زمین پر لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کی لیکن وہاں بھی مشتعل لوگ آ گئے اور دھمکیاں دیں۔ لوگوں نے لاش چھین کر اس کو آگ لگا دی جس سے وہ پچاس فیصد جھلس گئی۔‘

ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’لاش پولیس تحویل میں تھی اور علاقے میں صورتحال خراب تھی جس وجہ سے شاہنواز کی تدفین ان کی خاندانی زمین پر کی گئی۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ ’اگر قبرستان میں تدفین ہوتی تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ بعد میں لاش کو نکال کر اس کی بےحرمتی کی جاتی۔‘

عمر کوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو نذرِ آتش کیا گیا تاہم ایس ایس پی عمر کوٹ کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود اس واقعے کی ویڈیوز ایڈٹ کی گئی ہیں اور تدفین پولیس کی موجودگی میں کر دی گئی تھی۔

ڈاکٹر شاہنواز کے رشتہ دار کے مطابق پولیس مشتعل ہجوم کی جانب سے لاش کو آگ لگانے کے بعد بہت دیر سے آئی اور پولیس کے آنے کے بعد ہی ان کے خاندان کے لوگ جمع ہوئے اور تدفین کی گئی۔

ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا الزام کیوں لگا؟

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ مذکورہ فیس بک آئی ڈی بہت پرانی ہے، جو وہ اب استعمال نہیں کرتے۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’انھوں نے تو فیس بک استعمال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔‘

انھوں نے اپنے پیغام میں لوگوں سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ ’پولیس، ایف آئی اے یا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں، ہر چیز واضح ہوجائے گی۔‘

جس روز ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اس روز پیغمبرِ اسلام کی ولادت کا دن تھا اور اس سلسلے میں عمرکوٹ میں نکالے جانے والے جلوس نے ڈاکٹر شاہنواز کے خلافپرتشدد احتجاج کی شکل اختیار کر لی تھی اور مشتعل ہجوم نے اس دوران ایک پولیس موبائل کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔

Getty Imagesپولیس مقابلے کی اصلیت پر شکوک

ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ جس مقابلے میں شاہنوازمارے گئے وہ سندھڑی کے مقام پر ہوا اور فائرنگ کے تبادلے کے دوران ملزم ہلاک ہوا۔

ان کے بقول ’اس وقت وہاں پولیس موبائل گشت کر رہی تھی، جب شاہنواز کنبہار نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی تاہم اس دوران وہ اپنے ساتھی کی گولی لگنے سے ان کی ہلاکت ہوئی۔‘

بی بی سی نے جب عمر کوٹ پولیس سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ توہین مذہب کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزم کی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آ سکی تھی تو ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کا کہنا تھا کہ پولیس کوشش کر رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’ملزم کی نشاندہی کراچی میں ہوئی تھی لیکن پھر وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔‘

دوسری جانب شاہنواز کے قریبی رشتے دار کا دعویٰ ہے کہ ’خاندان والوں نے خود رضاکارانہ طور پر ڈاکٹر شاہنواز کو کراچی میں پولیس کے حوالے کیا اور کہا کہ سکیورٹی اب پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود شاہنواز کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔‘

انھوں نے دعوی کیا کہ ’شاہنواز کے والد پولیس حراست میں تھے اور ان کی رہائی بیٹے کی گرفتاری سے مشروط کی گئی تھی۔‘

تاہم ایس ایچ او سندھڑی نے ان الزامات کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ ایسا نہیں کہ ڈاکٹر شاہنواز کو حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’ان کے علاقے میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں اسی لیے وہ وہاں چیکنگ کے لیے موجود تھے۔‘

جمعرات کے روز وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے ڈاکٹر شاہنواز کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو غیرجانبدارانہ انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں۔

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ’تحقیق، چھان بین اور تفتیش کو غیرجانبدار بناتے ہوئے ہر ممکن قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔‘

ڈاکٹر شاہنواز ’ذہنی مریض‘ تھے

شاہنواز کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دنوں ان کا سڑک پر حادثہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی ادویات بند کر دیں۔ ادویات بند ہونے کی وجہ سے وہ ہائپر (جلدی غصے میں آ جانا) ہو جاتے اور گھر سے نکل جاتے تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شاہنواز کا میڈیکل ریکارڈ بھی شیئر کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ زیرِ علاج تھے۔

ایچ آر سی پی کی مذمت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں توہین مذہب کے الزام میں کوئٹہ اور عمرکوٹ میں دو افراد کے ’ماروائے عدالت قتل‘ پر گہری تشویش ہے۔

جمعے کو جاری ایک بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مبینہ طور پر ملوث ہونا ایک پریشان کُن رجحان ہے۔

ایچ آر سی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائیں اور عمرکوٹ میں ڈاکٹر کی موت کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے مزید کہا ہے کہ ریاست کو بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو روکنے کے لیے اقدامات لینے چاہییں۔

ورثا کا توہین رسالت کے ملزم کے قاتل پولیس کانسٹیبل کو معاف کرنے کا اعلان: ’قبیلے نے معاف کیا ہے ریاست نے نہیں‘لاہور میں خاتون کے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: ’اگر چیخ کر ہجوم کو قائل نہ کرتی تو حالات بدتر ہوتے‘سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟سوات میں توہینِ قرآن کے الزام میں سیاح کی ہلاکت: ’ہجوم ملزم پر تشدد کرتے ہوئے اسے تھانے سے باہر لے آیا اور قتل کر دیا‘کیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More