پنجاب میں بچوں کے لیے مفت دودھ، سکولوں سے پیکٹ چوری ہونے لگے

اردو نیوز  |  Sep 25, 2024

دنیا بھر میں بچوں میں پائی جانے والی غذائی قلت کو ختم یا کم کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں حکومت پنجاب نے 5 ستمبر 2024 کو ڈیرہ غازی خان سے سکول نیوٹریشن پروگرام کے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت پرائمری تک بچوں کو سکول میں مفت دودھ فراہم کیا جائے گا۔

یہ پروگرام اس وقت پنجاب کے تین اضلاع، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور مظفرگڑھ میں شروع کیا گیا ہے۔ بچوں کو دودھ کی فراہمی کے دوران کئی سکولوں میں مختلف قسم کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس پراجیکٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی سکولوں سے دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ ایک سکول میں دودھ کے پیکٹس چوری ہونے کے باعث سکول ٹیچر کو معطل بھی کیا جا چکا ہے۔ 

پانچ ستمبر کو ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول میں وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے سکول نیوٹریشن پروگرام کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے خطاب کیا۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور سے ڈی جی خان جتنا بھی دور ہو میں آپ سے دور نہیں، آپ سب بچوں کے لیے ایسے سوچتی ہوں جیسے ایک ماں سوچتی ہے، یہ بچے میرے لیے وی آئی پیز ہیں۔‘ 

مریم نواز نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان سے سکول نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ’ہم پانچویں کلاس تک کے بچوں کے لیے مفت دودھ کا پروگرام لائے ہیں۔‘ 

پنجاب کی وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ وہ بچوں میں غذائی قلت ختم کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔ 

سکولوں میں دودھ کیسے فراہم کیا جا رہا ہے؟

اس وقت تین اضلاع کے سکولوں میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر بچوں کو مفت دودھ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اردو نیوز نے ان اضلاع کے مختلف سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دودھ کے ڈبے بچوں تک کیسے پہنچائے جا رہے ہیں؟

راجن پور کی تحصیل جام پور میں گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 1 محمد پور کے استاد سلیم اقبال نے بتایا کہ ان کے سکول میں دودھ کی فراہمی 9 ستمبر سے شروع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے اس پورے پراجیکٹ کو عملی شکل دینے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے سکول انتظامیہ سے رابطہ کیا جاتا ہے تاکہ بچوں کی تعداد معلوم کی جا سکے۔ اس کے بعد ہر ہفتے ایک گاڑی آتی ہے اور عملے کی جانب سے بچوں کی تعداد کے مطابق دودھ کے پیکٹس فراہم کر دیے جاتے ہیں۔‘ 

پنجاب کے تین اضلاع میں اس وقت سکولوں میں بچوں کو دودھ فراہم کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: محکمہ تعلیم پنجاب

سلیم اقبال کے مطابق سرکاری عملے کی جانب سے دودھ کے پیکٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر کے سپرد کر دیے جاتے ہیں اور پھر وہ صبح بچوں کو مہیا کر دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ سرکاری عملے کے ہمراہ کوئی فوڈ انسپکٹر موقع پر موجود نہیں ہوتا۔ ان کے بقول ’سرکاری عملہ صرف دودھ کے پیکٹ فراہم کر کے روانہ ہو جاتا ہے اس کے علاوہ فوڈ انسپکٹر موجود نہیں ہوتا۔ البتہ ایک بار ایک ٹیم آئی تھی جس نے صرف یہ جانچ پڑتال کی کہ بچوں کو بروقت دودھ فراہم کیا جا رہا ہے یا نہیں۔‘

گورنمنٹ پرائمری سکول بستی شیخ ابراہیم ڈیرہ غازی خان کی ہیڈ مسٹرس آصفہ ممتاز نے بتایا کہ محکمے کی جانب سے سیل شدہ پیکٹ فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری عملہ ہمیں سیل شدہ ڈبہ فراہم کرتا ہے۔ ایک ڈبے میں 24 دودھ کے پیکٹ ہوتے ہیں۔ ایس او پیز کے مطابق جب بچے دودھ پی لیتے ہیں تو دوسری سپلائی کے وقت خالی پیکٹ سرکاری عملے کو واپس کرنا لازمی ہے۔‘

بچوں کی صحت پر کیا اثر پڑا؟

گورنمنٹ پرائمری سکول مڈ ماچھی مرکز آسنی راجن پور کے ایک استاد وسیم عباس بتاتے ہیں کہ سرکاری عملے کے ہمراہ کوئی فوڈ انسپکٹر نہیں ہوتا تاہم وہ خود چیزوں کو قریب سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’دودھ کے پیکٹ پر ایکسپائری ہم خود دیکھتے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ بچوں کو غیرمعیاری یا ایکسپائر دودھ دیا جائے۔‘ 

ان سے جب دریافت کیا گیا کہ پیکٹ والا دودھ پینے سے بچوں کی صحت پر کیا اثر پڑا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ماحول پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا سکول ایک بستی میں ہے۔ یہاں کے بچے عموماً گائے اور بھینس کا تازہ دودھ پیتے ہیں اور اسی کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے بچوں کے لیے پیکٹ کا دودھ ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘

وسیم عباس کے مطابق جب انہوں نے اپنے سکول میں بچوں کو دودھ پلایا تو کئی بچوں کے معدے خراب ہو گئے۔ ’تین بچے ایسے تھے جن کا نظام انہضام دودھ پینے سے متاثر ہوا تھا اور وہ الٹی کرنے لگ گئے تھے۔ اس لیے بچوں کو پہلے پیکٹ والے دودھ کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں مشکل پیش آئی تھی۔‘

دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کی وارداتیں

اب تک دو سکولوں سے سرکاری دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ سکولوں میں چوکیدار کا نہ ہونا یا سکول کا آبادی سے دور قائم ہونا بتائی جا رہی ہے۔

ڈیرہ غازی خان میں گورنمنٹ پرائمری سکول بستی شیخ ابراہیم کی ہیڈ مسٹرس آصفہ ممتاز نے تھانہ واہوا میں ایک مقدمہ بھی درج کر رکھا ہے۔

سکولوں سے دودھ کے ڈبے چوری ہونے پر مقدمہ بھی درج کیا جا چکا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’ہمارے سکول کو 16 دودھ کے پیکٹ سیل شدہ حالت میں فراہم کیے گئے۔ ہم نے 11 ڈبے بچوں ممیں تقسیم کیے جبکہ 6 پیکٹ باقی رہ گئے۔ یہ پیکٹس سکول کے ایک کمرے میں رکھے گئے اور کمرے کو تالا لگا دیا گیا تاہم 16 ستمبر کو سکول عملہ جب پہنچا تو کمرے کا تالا ٹوٹا ہوا تھا اور وہ پانچ ڈبے غائب تھے۔‘

اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا سکول آبادی سے دور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے سکول میں پہلے بھی چوریاں ہوتی رہی ہیں۔ پانی کی بوتلیں بھی چوری ہوتی رہی ہیں۔ ہفتے اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے جبکہ ہمارے سکول میں کوئی چوکیدار نہیں ہے۔ اس لیے چوری کی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔‘ 

ان کے مطابق مقدمہ درج کرنے کے بعد محکمہ پولیس اور محکمہ تعلیم نے ایکشن لیا۔ ’پولیس نے دو سیل شدہ ڈبے برآمد کیے جبکہ کچھ خالی پیکٹ بھی ملے۔ ہمیں خالی پیکٹ درکار ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے آگے جواب دینا ہوتا ہے۔‘

راجن پور کے سلیم اقبال نے بتایا کہ ان کے سکول میں کوئی چوری نہیں ہوئی تاہم ان کے علاقے میں قائم ایک سکول میں دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کے باعث ایک خاتون ٹیچر کو معطل کیا جا چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین اساتذہ کے لیے سکولوں کی نگرانی کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ سکول کے قریب بھی نہیں رہتیں اس لیے یہ واردات ہو جاتی ہے۔‘

اس حوالے سے راجن پور کے محکمہ تعلیم نے معطلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جس کے مطابق گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول بستی دنوار کی مس شازیہ بی بی اور اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر حاجی پور خرم شاہد کو معطل کرنے کیا گیا ہے۔

سلیم اقبال کا کہنا تھا کہ ’اس سکول میں دودھ کے پیکٹ چوری ہوئے تھے اور غفلت برتنے ہر ایک خاتون ٹیچر سمیت ایک آفیسر کو معطل کیا گیا۔‘

وسیم عباس دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پیکٹ کہیں بھی فروخت نہیں ہو سکتے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ سرکاری دودھ ہے۔

ان کے مطابق ’بعض اوقات ایسے علاقوں میں چوریاں ہونا معمول بن چکا ہے۔ ہمارے سکول سے سولر پلیٹس تک چوری ہوئے تھے۔ یہاں دشمنیاں ہوتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے ایسی چوریاں کرتے ہیں تاکہ ہیڈ ماسٹر کو پریشان کیا جا سکے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More