یہ کہانی فرزانہ نامی ایک لڑکی کی ہے جو میرٹھ کے ایک قصبے کُتانہ سے چھ سال کی عمر میں بے گھر ہو کر رقاصہ بنیں۔ سنہ 1765 میں جب 15 سالہ فرازانہ نے دِلیّ کے چاوڑی بازار میں خانم جان کا کوٹھا چھوڑا تو انھیں ہرگز یہ خیال نہیں ہوگا کہ کچھ سال بعد وہ سردھنہ کی پہلی خاتون حکمران اور مغل بادشاہ سے بھی بااثر شخصیت بن جائیں گی۔
مرکزی ہندوستان کے لوگ کہتے تھے کہ یہ ’گردی کا وقت‘ تھا، یعنی ’مصیبت کا دور‘۔ لیکن بھلا کیوں؟
اس کا جواب ارچنا گاروڈیا گپتا اپنی کتاب ’دی ویمن ہُو رولڈ انڈیا‘ میں یوں دیتی ہیں کہ ’مغل سلطنت، 1707 میں شہنشاہ اورنگزیب کی موت کے بعد برسوں کی اندرونی جنگوں اور نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے بیرونی حملہ آوروں کی لوٹ مار کی وجہ سے کمزور پڑ چکی تھی۔‘
’کوئی مضبوط مرکز تو تھا نہیں، سو سابق مغل گورنر اپنے اپنے صوبوں کے حاکم بن رہے تھے اور مقامی گروہ، جیسے راجپوت، مراٹھا اور سکھ، اپنی اپنی سلطنتیں بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
لکھاری اور صحافی رضا علی عابدی اس دور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’کہاں چھ شہنشاہوں نے ہندوستان کے تخت پر دو صدیاں گزاریں، کہاں اگلی آدھی صدی میں اس تخت پر کم سے کم دس شہزادے کٹھ پتلی بن کر بیٹھے اور حکمرانی مذاق بن کر رہ گئی۔‘
’صبح کسی کی حکومت، شام میں کسی اور کی۔ تاج و تخت کے لالچ اور امرا کی سازشوں کی نذر ہو کر شاہزادے مرتے جاتے اور ہمایوں کے مقبرے میں دفنا دیے جاتے۔ فرمانوں پر مہر لگنے کی حد تک ان کی حکمرانی قائم تھی۔‘
بگڑتی بنتی حکومتوں کے اس دور میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی چاندی ہونے والی تھی۔
کرائے کے فوجی
عابدی کا اپنی کتاب ’بیگم سمرو‘ میں بیان ہے کہ ’ہندوستانیوں پر فرنگی سپاہیوں کا رعب تھا کہ وہ تربیت یافتہ ہیں اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یورپ میں یہ ہوا پھیل گئی کہ ہندوستان میں راجے مہاراجے بے پناہ دولت کے مالک ہیں اور انھیں تربیت یافتہ فوجی درکار ہیں۔‘
اور یوں مختلف علاقوں سے فوجی ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور جو زیادہ بولی لگاتا اسی کے لیے لڑنے لگ جاتے۔
جرمنی کے والٹر رائن ہارٹ فرانسیسی فوج میں تھے۔ وہاں سے بنگال کے نواب میر قاسم کی سرپرستی میں چلے گئے۔ یہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنگی قیدیوں کی جان لی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک فوجی مہم جُو جیمز سکنر، جو بعد میں ’سکندر صاحب‘ کے نام سے مشہور ہوئے، کے مطابق 1760 میں، پٹنہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بنگال کے نواب میر قاسم کو والٹر رائن ہارٹ نے اپنی خدمات پیش کیں اور ان کی فوج نے تقریباً 150 انگریزوں کا قتل عام کیا۔ اس وجہ سے انھیں ’پٹنے کا قصائی‘ پکارا جانے لگا۔
برجیندر ناتھ بینرجی نے اپنی کتاب ’بیگم سمرو‘ میں یہ تعداد 51 لکھی ہے۔
رائن ہارٹ سنکی اور بدمزاج تھے۔ دوستوں نے انھیں ’سومبر‘ کہنا شروع کر دیا۔ ہندوستانیوں کو سومبر کی نسبت سمروکہنا آسان لگا، سو یہی ان کا نام بن گیا اور ’سمرو صاحب‘ کہلانے لگے۔
شاہ عالم ثانی: منھ بولے بیٹے کے ہاتھوں اندھے ہونے والے ہندوستانی بادشاہ جن کے دور میں مغل حکمرانی دلی تک محدود ہو گئیآسائی کی جنگ: جب انگریزوں نے پانچ گنا بڑی مرہٹہ فوج کو شکست دے کر ہندوستان کی تاریخ بدل دیخلیفہ ہارون الرشید کے یورپی حکمران شارلیمین کو دیے وہ تحائف جن کا صدیوں تک چرچا رہاعبد المجید دوم: آخری عثمانی خلیفہ جن کی تدفین مرنے کے 10 سال بعد پاکستان کے گورنر جنرل کی سفارش پر ہوئی
بینرجی نے اپنی کتاب ’بیگم سمرو‘ میں لکھا ہے کہ ’ہندوستان میں رائن ہارٹ کا صرف نام ہی نہیں بدلا بلکہ شخصیت بھی بدل گئی۔‘
میجر پولیئر کے ایشیاٹک اینول رجسٹر کے حوالے سے بینرجی لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے اس ملک کے رسم ورواج اپنا لیے۔ مغل لباس پہنتے، فارسی اور مُورِش (اردو) روانی سے اور بہت حد تک درست بولتے اور ان کا ایک زنانہ (حرم) بھی تھا۔‘
اسی حرم میں اپنے اگلے آقا بھرت پور کے جاٹ راجا جواہر سنگھ کے دلی کے ناکام محاصرے کے دوران سمرو نے 45 سال کی عمر میں بوٹے سے قد، کشمیری ناک نقشے اور گوری رنگت والی فرزانہ کو شامل کیا تھا۔ اب وہ بیگم سمرو تھیں۔
بیگم سمرو
تاریخ دان منو ایس پلے کا کہنا ہے کہ ایک ہندوستانی بیوی کے پہلے سے موجود ہونے کے باوجود یہ نوجوان لڑکی سمرو کی ساتھی اور ان کی متعدد مہم جوئیوں میں شریک رہی۔
عابدی کے مطابق ’کُل ساڑھے چار فٹ قد تھا۔ سر پر صافہ باندھتی تھی۔ کبھی گھوڑے پر اور اکثر ڈولے میں بیٹھ کر میدان جنگ میں اپنی فوجوں کو حکم دیا کرتی تھی۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ یہ کوئی جادوگرنی ہے جو دشمن کی طرف اپنی اوڑھنی پھینکتی ہے جس کے ساتھ ہی دشمن فنا ہو جاتا ہے۔‘
ارچنا گپتا لکھتی ہیں کہ ’سنہ 1773 میں مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے وزیر نجف خان کے ماتحت مغل افواج نے جاٹوں کو آگرے سے نکال باہر کیا۔ نجف خان سمرو کی جنگی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھیں مغل فوج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ سمرو پہلے ہی 14 آقا بدل چکے تھے سو وہ اور ان کے فوجی بخوشی مغلوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔‘
بینرجی نے مغل سرکاری دستاویزات میں بادشاہ کے ماہانہ اخراجات میں ’سمروفرنگی: 30,000 روپے‘ لکھا دیکھا ہے۔
Getty Imagesمغل بادشاہ کی سرپرستی میں
’سنہ1776 میں انھیں شاہ عالم ثانی کی شاہی سند کے ساتھ، سردھنہ کی امیر جاگیر کے حقوق بھی مل گئے، جس سے سالانہ تقریباً 6 لاکھ روپے (آج کے تقریباً 30 کروڑ انڈین روپے یا ایک ارب پاکستانی روپے)آمدن ہوتی تھی۔ اور یوں وہ کرائے پر لڑنے والے ایک ملازم سے راتوں رات حکمران بن گئے۔ سمرو کو آگرے کا سول اور ملٹری گورنر بھی بنا دیا گیا۔‘
لیکن سمرو صرف دو سال بعد 1778 میں وفات پا گئے۔
بیگم سمرو سے سمرو کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ عام حالات میں سمرو کے بڑی بی بی سے بیٹے، ظفریاب خان، کو جاگیر کا وارث ہونا تھا۔
لیکن بیگم سمرو فوج کی حمایت اور اپنے اثرورسوخ سے سردھنہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور ضعیف الطبع سمجھے گئے ظفریاب بیگم سمرو کے خرچ پر دلی میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے۔
فوج کی کمان
بیگم سمرو نے سمرو کی موت کے بعد فوج کی کمان نہایت منظم طریقے سے سنبھال لی اور بادشاہ شاہ عالم نے انھیں فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا۔
بیگم سمرو 100 سے زائد یورپی افسران اور سپاہیوں سمیت تقریباً 4,000 فوجیوں کی سپریم کمانڈر بنیں۔ گپتا کے مطابق ’مغل فوج بھی تب تک لاکھوں سے سمٹ کر شاہ عالم ثانی کے دور میں مشکل سے 5000 رہ گئی تھی۔‘
پونڈیچیری ریکارڈز میں لکھا ہے کہ ’پالی نام کے ایک جرمن سمرو فوج کی کمان کر رہے تھے۔ انھوں نے سازشیں کیں تو بیگم سمرو نے ان کا سر قلم کروا دیا۔‘
’سومبر(سمرو) کی بیوہ کو بہت امیر جانتے ہوئے، مونٹگنی ان سے شادی اور ان کی فوج کی کمان کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پالی کے قتل اور ان کی بیوہ کی جائیداد ضبط ہوتے دیکھ کر انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔‘
مردانہ پگڑی پہنے اور حقہ پیتے سردھنہ میں دربار لگاتیں، پینٹنگز میں نقاب کے بغیر بھی دکھائی دیتیں، ہاتھ میں حقے کی نےَ ہوتی۔
سنہ 1781 میں انھوں نے ’جوانا‘ اور ان کے سوتیلے بیٹے نے لوئی بلتھازار رائن ہارٹ کے نام کے ساتھ کیتھولک مسیحی مسلک اختیار کر لیا۔ لیکن بیگم سمرو نےمغل لباس اور آداب کو برقرار رکھا۔
بادشاہ کی محافظ اور سفیر
جب مغل شہنشاہ کو خطرہ لاحق ہوا تو نہ صرف ان کے بلکہ ان کے دارالحکومت کے دفاع کے لیے سمرو بیگم ایک سے زیادہ بار گئیں۔
اسی وجہ سے بادشاہ شاہ عالم بیگم سمرو کو ’پیاری بیٹی‘ کہتے اور انھوں نے انھیں ’زیب النسا‘ اور ’عمدۃ الاراکن‘ کے القاب تک دیے۔ وہ ایک ہنر مند سفارت کار بھی تھیں جنھوں نے شہنشاہ کے لیے کئی معاہدے کیے۔
سنہ1783 میں سکھ جنرل بگھیل سنگھ نے دلی آ کر 30,000 سکھ سپاہیوں کے ساتھ ایک ایسے علاقے میں ڈیرے ڈالے جو اس کے بعد ’تیس ہزاری‘ کہلانے لگا۔
خوف زدہ شاہ عالم ثانی کو لگا کہ وہ اپنا تخت کھو دیں گے۔ انھوں نے بیگم سمرو سے بات چیت کرنے کو کہا۔ وہ دلی میں آٹھ گرودواروں کی تعمیر کے حق اور صرف اس سال کی آمدنی کے کچھ حصے کے بدلے ان سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گئیں۔
پھر جب روہیلا سردار غلام قادر نے 1788 میں دلی پر قبضہ کیا اور شہنشاہ کی آنکھیں نکال کر انھیں اندھا کر دیا تو ایک بار پھر بیگم سمرو شہنشاہ کے بچاؤ کے لیے آئیں۔
عابدی لکھتے ہیں کہ ’غلام قادر بیگم کے اثرورسوخ اور ان کی فوج کی طاقت سے واقف تھے، فوراً بیگم کے پاس پہنچ کر مصالحت کے داؤ پیچ آزمانے لگے۔‘
بیگم نے، سکنر کے الفاظ میں، ’اس طاقتور بدمعاش (غلام قادر) کی شادی اور اقتدار میں برابری کی پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔‘
عابدی کے مطابق ’بیگم نے بھی مصلحت کوشی کے ساتھ انھیں ان کی فوج سمیت دریا پار پہنچا کر واپسی کے راستے مسدود کر دیے۔ مغلیہ سلطنت کی تاریخ میں بیگم سمرو کا یہ کردار یادگار ثابت ہوا۔ روہیلوں کا ساتھ دیتیں تو بے شمار دولت ہاتھ لگتی لیکن بادشاہ کے ساتھ ان کی وفاداری غیر مشروط تھی۔‘
بعد میں شہنشاہ کے حکم پر غلام قادر کی پرتشدد موت ہوئی۔
’بادشاہ کے لیے وہ مختلف مواقع پر اپنی منظم فوج کے ساتھ سینہ سپر رہیں۔ راجپوتانہ کے نجف قلی خاں کی سرکشی کا بھی انہوں نے ایسی ہی جرات کے ساتھ خاتمہ کیا اور پھر ان کی شکست فاش اور اعترافِ ندامت کے بعد بادشاہ سے معافی نامہ بھی بیگم ہی کی کوششوںسے حاصل ہوا۔‘
جب بیگم سمرو کو دل کا کہا ماننا مہنگا پڑا
نوجوان خوبرو اور تعلیم یافتہ فرانسیسی کمانڈر لاوسو ان کی زندگی میں داخل ہوئے۔ بیگم انھیں چاہنے لگیں۔
ان سے پہلے ایک آئرش ڈاک ورکر جارج تھامس 1787 میں ان کی فوج میں شامل ہوئے تھے۔ وہ ایک دلیر لڑاکا اور ان کے دستوں کے سربراہ تھے۔ بہت سے حوالوں میں بتایا گیا کہ وہ بھی بیگم سمرو کو چاہتے تھے اور بیگم اور تھامس نے مل کر کئی جنگیں جیتیں۔
بیگم کی ان سے انسیت تو رہی لیکن معاملہ اس سے آگے نہیں بڑھا۔
جب لاوسو بیگم کی زندگی میں آئے تو تھامس نے ناراض ہو کر ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ 1793 میں بیگم نے لاوسو سے خاموشی سے شادی کرلیاور اپنے نام میں نوبِلِس کا اضافہ کیا۔
عابدی لکھتے ہیں کہ اس شادی سے بیگم سمرو کی فوج بد دل ہو گئی اور عوام نے بھی اس عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور یوں سوتیلے بیٹے نے حاکمیت سنبھال لی۔
’بیگم اور لاوسو کو رات کے اندھیرے میں بھاگنا پڑا۔ ان کی اپنی فوج ان کے تعاقب میں تھی۔ گرفتاری سے پہلے لاوسو نے خودکشی کرلی اور بیگم زخمی حالت میں گرفتار ہو گئیں۔‘
مَنُو ایس پِلےّ کی تحقیق ہے کہ 1795 کے موسم گرما میں ایکہفتہ وہ سردھنہ میں ایک توپ کے ساتھبندھی رہیں۔
عابدی کے مطابق ولایتی افسروں کی مداخلت سے انھیں رہائی تو مل گئی لیکن وہ بے یارومددگار ہو کر رہ گئیں۔
ارچنا گپتا نے لکھا ہے کہ ’جارج تھامس نے بغاوت کا سنا تو جلدی سے بیگم کو بچانے آئے۔ تھامس نے انھیں اقتدار پر بحال کر دیا۔ اس کے بعد بیگم سمرو نے اپنے سوتیلے بیٹے کو دلی میں نظر بند کر دیا جہاں وہ دس سال بعد 1803 میں اپنی موت تک شاعری کرتے رہے۔‘
جارج تھامس دوبارہ اپنی مہمات پر چلے گئے۔ 1798 سے 1801تک ’جہازی صاحب‘ کہلاتے تھامس نے مختصر عرصہ جدید ہریانہ میں ہانسی کی چھوٹی ریاست پر حکومت کی۔ انھوں نے حصار میں جہاز کوٹھی بنوائی جو ابھی تک قائم ہے۔ بیگم سمرو نے ان کے مرنے کے بعد ان کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کی۔
بینرجی لکھتے ہیں کہ بیگم سمرو نے جارج تھامس کے بیٹے جان کو اپنا لے پالک بیٹا بنا کر ان کی شادی اپنے ایک آرمینیائی درباری کی بیٹی سے کی اور اپنی وصیت میں 44,000 روپے جارج تھامس کے خاندان کے لیے رکھے۔
ہاں پھر کبھی اپنے دل کو اپنے دماغپر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی۔
BBCدلی کے چاندنی چوک میں بیگم سمرو کی حویلی اب بھی موجود ہے برطانوی اتحادی
انیسویں صدی کے اوائل تک، ادھیڑ عمر بیگم سمرو برطانوی اتحادی بن چکی تھیں۔ برِج راج سنگھ کے مطابق اب وہ ’یورپی لوگوں اور چیزوں کو ہندوستانی لوگوں اور چیزوں پر ترجیح دینے لگیں۔‘
عابدی نے لکھا ہے کہ بیگم سمرو اپنی دوراندیشی کی وجہ سے انگریزوں سے بنا کر رکھ رہی تھیں۔
’مرہٹوں کی جنگ میں انگریزوں کی ہدایت کے مطابق بیگم کی فوج غیر جانبدار رہی۔ انگریزوں کی فتح کے بعد بیگم نے حکومت برطانیہ سے اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا۔‘
’انگریزوں کی نظر بیگم کی جاگیر پر تھی کیونکہ یہ علاقہ نہایت زرخیز تھا۔ اپنے علاقے کی مانند بیگم کا ذہن بھی بہت زرخیز تھا اور سیاسی پینترے میں وہ ماہر تھیں۔ ان کی دلیری کے آگے انگریز کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور سردھنہ کا پرگنہ بیگم کے پاس ہی رہا۔‘
دونوں کے مابین یہ معاہدہ ہوا کہ بیگم کی جائیداد زندگی بھر ان ہی کی ملکیت رہے گی اور وہ اور ان کی فوج ایسٹ انڈیا کمپنی کی خدمات کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔
’اب بیگم نے ساری توجہ اپنے علاقے کو ترقی دینے پر مرکوز کر دی۔ انھوں نے عوامی فلاح و بہبود کے بے شمار کام انجام دیے۔‘
’مسیحی مذہب کی ترویج کے ذیل میں انھوں نے سردھنہ میں شاندار رومن کیتھولک چرچ اور میرٹھ شہر میں پروٹسٹنٹ مسلک کے لئے کلیسا بنوایا۔ اپنے املاک کے تعلق سے وصیت رجسٹرڈ کرائی جس کے مطابق بیگم کے ذاتی املاک کا وارث ان کا گود لیا بیٹا ڈیوڈ قرار پایا۔‘
’بعد ازاں ریاست کی ساری ذمہ داریاں بیٹے کو سونپ کر خود کو مذہبی امور اور کارِخیر میں مشغول کرلیا۔ پاپائے روم، آرچ بشپ کنٹربری، سردھنہ، میرٹھ کے چرچ اور دیگر رفاہی اداروں کو لاکھوں روپے ارسال کیے تاکہ ضرورت مندوں کی امداد کی جائے۔ مسیحی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لیے بھی وہ کشادہ دلی سے خیرات کرتیں۔‘
معمولی بخار سے وہ بیمار پڑیں اور 27 جنوری 183 کو وفات پا گئیں۔ جنازہ اٹھا تو انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
سردھنہ کے ریکارڈ میں لکھا ہے کہ جب ’ہر ہائینس جوانا زیب النسا‘ کا انتقال ہوا، تو ’ان کے ہزاروں عقیدت مندوں کی طرف سے تعظیم اور غم کا اظہار کیا گیا۔‘
بیگم سمرو مغلیہ سلطنت کا اہم حصہ رہیں اور جب انگریز حکمراں بنے تو انھیں بھی ان ہی کی مدد لینا پڑی۔
وہ ہندوستان کی امیر ترین خواتین میں سے ایک تھیں اور مظفر نگر سے علی گڑھ تک پھیلی چھوٹی سی ریاست کی 30 سال تک تنہا مالک رہیں۔
کُتانہ کا پرگنا بھی ان کی ملکیت میں شامل تھا۔ وہی کُتانہ جہاں سے وہ چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کے ساتھ بے سروسامان نکلی تھیں۔
ٹیپو سلطان: جب میر صادق اور فوج کی غداری کی مدد سے انگریزوں نے سرنگاپٹنم فتح کیاقلعہ مبارک نام کا لال قلعہ جو مغلوں کے لیے مبارک ثابت نہ ہواانگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟ایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ایک خطے پر راج کیاآسائی کی جنگ: جب انگریزوں نے پانچ گنا بڑی مرہٹہ فوج کو شکست دے کر ہندوستان کی تاریخ بدل دیخسرو: اپنے والد کے خلاف ناکام بغاوت کرنے والا شہزادہ جسے موت کے بعد ’شہید درویش‘ کا لقب دیا گیا