پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی تشویش بڑھتی ہی جا رہی ہے اور پہلی مرتبہ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئیر حکومتی اہلکار نے باضابطہ طور پر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے ایک ایسی ’کارآمد میزائل ٹیکنالوجی‘ تیار کر لی ہے جو اسے امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بنائے گی۔‘
امریکی تھنک ٹینگ کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لیے ہیں جو ’اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا سے باہر بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت آ جائے گی، اس میں امریکہ بھی شامل ہے اور اس چیز سے پاکستان کے ارادوں پر حقیقی سوالات اُٹھتے ہیں۔‘
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دو دن پہلے ہی بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چار اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، ان میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) بھی شامل ہے۔
امریکہ کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے جان فائنر کا کہنا تھا کہ ’ایسے ممالک کی فہرست چھوٹی ہے جو جوہری ہتھیار بھی رکھتے ہوں اور ان کے پاس براہِ راست امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہو اور وہ امریکہ کے مخالفین ہیں روس، شمالی کوریا اور چین۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے لیے یہ مشکل ہو گا کہ ہم پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے خطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں۔ مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینیئر رہنماؤں نے متعدد مرتبہ ان خدشات کا اظہار پاکستان کے سینیئر حکام کے سامنے کیا ہے۔‘
قومی سلامتی کے نائب مشیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکہ کا پارٹنر رہا ہے اور وہ مشترکہ مفادات پر پاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کر رہا ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہو سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان ہمارے اور بین الااقوامی برادری کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہوا ہے۔‘
صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کے بیان کے بعد بی بی سی نے ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کو یہ تشویش کیوں ہے کہ پاکستان ایسے میزائل تیار کر رہا ہے جو امریکہ میں اہداف کو نشانہ بنا سکیں گے؟ اس وقت اس تشویش کی وجہ کیا ہے اور کیا پاکستان واقعی ایسے میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائیں؟
اس کے علاوہ اس مضمون میں ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جو حالیہ امریکی پابندیوں کا نشانہ بن رہا ہے،وہ کیا ہے؟ اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اور امریکہ کو ان سے کیا خدشات ہیں؟ اس تحریر میں ہم نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی کے مطابق پاکستان پر امریکی حکام کا حالیہ الزام تکنیکی حقائق کے خلاف ہے۔
ان کے مطابق پہلی وجہ تکنیکی ہے، دوسرا تزویراتی یا سٹریٹیجیکل اور تیسری وجہ معاشی یا پولیٹیکل ہے۔
تکنیکی طور پر ایسا کیوں ممکن نہیں ہے؟
سید محمد علی کا دعویٰ ہے کہ 'پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں میں جدت لانے کا مقصد انڈیا کے علاوہ کسی دور دراز کے ملک کو نشانہ بنانا نہیں بللکہ انڈیا کے تیزی سے ترقی پذیر میزائل ڈیفینس نظام کا سدباب کرنا یا ناکام بنانا ہے۔'
اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن جتنا بھی جدید ڈیفینس سسٹم بنا لے، آپ کا بیلیسٹک یا کروز میزائل اسے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کا رینج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ اسرائیل کے پانچ تہوں پر مشتمل ڈیفینس سسٹم کی مثال دیتے ہیں جس میں ایرو اور آئرن ڈومسے لے کر ڈیوڈز سلنگ، انٹرسیپٹر اور اینٹی ائیر کرافٹ گنز بھی شامل ہیں ’اگر کوئی میزائل پانچ تہوں سے نکل کر اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر اسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا ایم آئی آر ویز سے لیس ہونا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ پاکستانی میزائل ابابیل ہے۔‘
سید محمد علی کے مطابق ایم آئی آر ویز کا مطلب ایک ایسا میزائل ہے جو بیک وقت کئی وار ہیڈز لیجا سکتا ہے جو آزادانہ طور پر پروگرامڈ ہوتے ہیں اور ان وار ہیڈز کی تعداد تین سے آٹھ اور اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور روس کے کیس میں 12 تک بھی ہے۔ یہ میزائل آزادانہ طور پر اپنے اپنے ہدف کی جانب جاتے ہیں اور ہر ایک کا ہدف کی جانب سفر کا راستہ مختلف ہوتا ہے۔اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آپ ایک میزائل کے ذریعے سے جب اسے لانچ کرتے ہیں اور جب اس کی ری انٹری وہیکل دوبارہ فضا میں داخل ہوتی ہیں تو وہ (ری انٹری وہیکل) مختلف سمتوں میں پھیل کر اپنے اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہیں۔
وہ اس کی مثال فائٹر طیاروں کی فارمیشن سے دیتے ہیں جو ہدف پر پہنچنے سے پہلے، وہاں پہنچ کر، حملے کے دوران اور بعد میں مختلف ہوتی ہے۔۔ فائٹر طیارے کسی ٹارگٹ پر پہنچ کر سرفیس تو ائیر میزائل اور اینٹی ائیر کرافٹ گن سے بچنے کے لیے اس انداز میں ادھر ادھر پھیل جاتے ہیں کہ وہ سب دشمن کی فائرنگ کی زد میں آئے بغیر مختلف سمتوں سے ٹارگٹ کو نشانہ بنا سکیں۔
سید محمد علی کے مطابق امریکہ کے پاس ایسا میزائل Minuteman III ہے اور انڈیا نے حال ہی میں اس ٹیکنالوجی میں جدت لانی شروع کی ہے۔
سید محمد علی کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان اگر اسی کو بہتر بنا رہا ہےتو اس کا مقصد انڈیا کے علاوہ کسی اور ملک کو ہدف بنانا نہیں مگر انڈیا کے سسٹم میں آنے والی جدت (چاہے وہ ایس 400 کے حوالے سے یا کسی اور سے) کو ناکام بنا کر ان کی ٹارگٹ تک پہنچنے کی صلاحیتوں کا سدباب ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کسی ایسی ٹیکنالوجی پر کام نہیں کر رہا جو پہلے سے انڈیا کے پاس نہیں ہے اور انڈیا نہ صرف آئی سی بی ایم (بین البراعظمی بیلسٹک میزائل) بنا رہا ہے بلکہ انھیں ٹیسٹ بھی کر چکا ہے جن کی رینج 5000 کلومیٹر سے زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹارگٹ پاکستان یا چین نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان نے اس رینج کے کسی میزائل کا آج تک تجربہ نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پر یہ الزام تکنیکی حقائق کے خلاف ہے۔
اس حوالے سےآسٹریلیا کے شہر کینبرا کی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اور ڈیفینس سٹڈیز کے استاد ڈاکٹر منصور احمد کہتے ہیں کہ ’جب تک ایک سسٹم (میزائل) ایک رینج پر ٹیسٹ نہیں ہو جاتا تب تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ملک نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے اور پاکستان نے اب تک ایسا کوئی میزائل ٹیسٹ نہیں کیا جس کی رینج انڈیا سے باہر ہو۔‘
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ انڈیا ایس ایس بی این(نیوکلیئرڈ پاورڈ بیلسٹک میزائل سب میرین) یا بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میزائلوں کی بحث میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کو تو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے مگر سمندر کی سطح کے نیچے یا جوہری آبدوزیں رکھنے والے صلاحیتوں کے حامل ممالک سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے جن میں رینج کا چکر ہی نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی ملک کے قریب آبدوز لے جا کر وہاں سے یہ میزائل فائر کیے جا سکتے ہیں۔‘
اس کی مثال انڈیا کی 'اریہنت' اور 'اریگاتھ‘ ایٹمی آبدوزیں ہیں جو اب انڈیا کے بحرے بیڑے کا حصہ ہیں۔
یاد رہے امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کی پاس بھی ایٹمی اسلحے سے لیس آبدوزیں موجود ہیں یعنی یہ پانچ ممالک دنیا کے کسی بھی ملک پر جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ دو ایٹمی آبدوزوں کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کرنے کے بعد انڈیا نے بھی یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے یعنی وہ ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک پر ایٹمی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف زمین کی سطح سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں پر بحث انتہائی اہم تزویراتی حقائق سے پہلو تہی ہے۔
سید محمد علی کا ماننا ہے کہ ’پاکستان امریکہ کو نشانہ بنانے کا سوچے، معاشی اور سیاسی حوالے سے یہ ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ (تقریباً چھ ارب ڈالر) امریکہ ہے اور وہاں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعدادملک میں رقوم بھیجتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل (آئی ایم ایف) کے لیے امریکہ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات برقرار رکھنا اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کا اہم ہدف سمجھتا ہے۔‘
اب امریکی تشویش کی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر منصور احمد کا کہنا ہے کہ ’ایسا ممکن ہے کہ پاکستان (این ڈی سی) ابابیل میزائل سسٹم کا زیادہ جدت والا ورژن تیار کر رہا ہو جو کسی بھی انڈین بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دے سکتا ہے اور ایک سے زیادہ وار ہیڈز کا بھاری پے لوڈ لے جا سکتا ہو۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے زیادہ طاقتور راکٹوں کی ضرورت ہو گی اور امریکی حکام این ڈی سی پر اسی کی تیاری کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ انڈیا کے لیے بنائے گئے مخصوص میزائل سسٹم کو آئی سی بی ایم(بین البراعظمی بیلسٹک میزائل) میں تبدیل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے بالکل نیا میزائل سسٹم چاہیے ہو گا۔‘
ٹائمنگ کے حوالے سے سید محمد علی اور ڈاکٹر منصور دونوں ہی اس کا الزام بائیڈن انتظامیہ کو ٹھہراتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انتظامیہ بہت زیادہ حد تک انڈیا کے زیرِاثر ہے۔ سید محمد علی کہتے ہیں کہ یہ 'امریکہ کے پالیس ساز حلقوں میں انڈیا کے بڑھتے اثرورسوخ کا نتیجہ ہے اور پاکستانی کی دفاعی صلاحیتوں میں کمی لانے کے لیے انڈیا اب امریکہ کا کندھا اور دباؤ استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر تنقید اور شکوک و شبہات کا اظہار کرنا اس بات کا ثبوت ہے واشنگٹن میں انڈین لابی بائیڈن کے آخری دنوں میں ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘
سید محمد علی کا ماننا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے ’کیونکہ پاکستان کا میزائل و ایٹامک پروگرام انڈیا کے لیے مخصوص ہے پاکستان کسی قسم کی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔
Getty Images’ابابیل (رینج 2200 کلومیٹر) صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن امریکہ کو 2021 سے جس میزائل پر تشویش ہو رہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج 2740 کلومیٹر ہے‘پاکستان کا میزائل پروگرام اور امریکی پابندیاں
پاکستان کے بیلسٹکمیزائل پروگرام سے متعلقہ اداروں اور سپلائزر پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا اور 2024 میں تیسری مرتبہ بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی معاونت کے الزام میں مزید چار اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندیاں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) سمیت تین فرموں پر عائد کی جا رہی ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے لیے آلات کی ترسیل میں ملوث ہیں۔
جن چار اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) کے علاوہ اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، فیلیئٹس انٹرنیشنل اور راک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔
بیان کے مطابق ’ان میں سے اسلام آباد میں واقع نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی تیاری کے لیے مختلف آلات حاصل کیے ہیں جن میں خاص قسم کے وہیکل چیسیز شامل ہیں جو میزائل لانچنگ کے معاون آلات اور ٹیسٹنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
امریکہ کا الزام ہے کہ این ڈی سی شاہین سیریز کے میزائلوں سمیت پاکستان کے دیگر بیلسٹک میزائیلوں کی تیاری میں ملوث ہے۔
بیان کے مطابق کراچی میں واقع اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ نے این ڈی سی کے لیے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے مختلف آلات فراہم کیے ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی میں واقع فیلیئٹس انٹرنیشنل پر الزام ہے کہ اس نے بیلسٹک میزائل پرورگرام میں مدد کی غرض سے این ڈی سی اور دیگر اداروں کے لیے میزائل سازی میں مطلوب سامان کی خریداری میں سہولت کاری کی ہے۔
یاد رہے اس سے قبل رواں سال ستمبر میں امریکہ نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں تھیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
اس کے علاوہ اسی برس اپریل میں چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023 میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مذید کمپنیوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کے علاوہ دسمبر 2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ امریکی پابندیوں کا مقصد خطے میں عسکری عدم توازن کو بڑھاوا دینا ہے۔
پاکستان کا ردِعمل
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکہ کے اس اقدام کو بدقسمتی اور تعصب پر مبنی قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سٹریٹیجک صلاحیتوں کا مقصد ملک کی خود مختاری کا دفاع اور جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ امریکی پابندیوں کا مقصد خطے میں فوجی عدم تعاون کو بڑھاوا دینا ہے جس سے امن اور سلامتی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ نجی کاروباری اداروں پر اس طرح کی پابندیاں مایوس کن ہیں۔
دفترِ خارجہ کا کہنا تھا ماضی میں ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے دعووں کے باوجود دوسرے ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے درکار لائسنس کی شرط ختم کی گئی اورایسے دوہرے معیار اور امتیازی سلوک سے نا صرف عدم پھیلاؤ کے مقصد کو ٹھیس پہنچے گی بلکہ خطے اور عالمی امن و سلامتی کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
Getty Imagesرواں برس 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر پہلی مرتبہ ابابیل میزائل کی نمائش کی گئی۔ دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یا اس سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہےامریکی پابندیوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا میزائل پروگرام کیا ہے؟
پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ ستمبر 2024 میں امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیا گیا تھا اس میں میڈیم رینج یا درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری (رینج 2750 کلومیٹر) اور ابابیل ( رینج 2200 کلومیٹر) شامل ہیں جو ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان نے 2017 میں ابابیل میزائل کا پہلا تجربہ کرنے کے بعد گذشتہ برس 18 اکتوبر 2023 کو بھی زمین سے زمین پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد رواں برس 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر پہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
کینبرا کی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اور ڈیفینس سٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر منصور احمد کے مطابق یہ جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر منصور احمد کے مطابق دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یا اس سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایم آر وی میزائل سسٹم ہے جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ابابیل میزائل میں موجود ہر وار ہیڈ ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر منصور کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ ابابیل ایسے ہائی ویلیو اہداف، جو بیلسٹک میزائل ڈیفنس (بی ایم ڈی) شیلڈ سے محفوظ بنائے گئے ہوں، کے خلاف پہلی یا دوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی بتاتے ہیں کہ ایم آر وی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہاگر ہدف کے قریب پہنچنے پر ان کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈ یا بیلسٹک میزائل سسٹم موجود ہو تو وہ انھیں کنفیوژ کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالر گیند کو سوئنگ کرتا ہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کو توڑنے کے لیے اپنی رفتار کے ساتھ سوئنگ اور سیم پر بھی انحصار کرتا ہے۔‘
سید محمد علی بتاتے ہیں کہ ’ایم آئی آر ویز میزائل میں کئی وار ہیڈز ہوتے ہیں جو آزادانہ طور پر پروگرامڈ ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر ہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اور ہر ایک کا فلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر منصور کے مطابق ’انڈیا تقریباً ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پر کام کر رہا ہے اور وہ ناصرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پر اس کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔‘
انڈیا نے حال ہی میں پہلے ایم آر وی میزائل اگنی فائیو کا ایک سے زائد وار ہیڈز کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔ یہ انٹرکونٹینینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم از کم 5000-8000 کلومیٹر ہے اس کے مقابلے میں ابابیل کی رینجمحض 2200 کلومیٹر ہے اور یہ پوری دنیا میں سب سے کم رینجتک مار کرنے والا ایم آر وی ہے۔
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ انڈیا کا ’اگنی پی‘ بھی ایم آر وی ہے جس کی رینج 2000 کلومیٹر تک ہے۔
Getty Imagesشاہین تھری کے تجربے کے وقت لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نے ایک بیان میں کہا تھا ’یہ میزائل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ انڈیا کو چپھنے کے لیے کوئی جگہ نہ مل سکے‘پاکستان کا شاہین تھری میزائل کیا ہے؟
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ ’ابابیل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن امریکہ کو 2021 سے جس میزائل پر تشویش ہو رہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج 2740 کلومیٹر ہے۔‘
دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’یہ میزائل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کا مقصد انڈیا میں اہم سٹریٹجک اہداف (خاص طور پر انڈمان اور نیکوبار جزیروں اور مشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیر سب میرین بیسز تعمیر کی جا رہی ہیں) کو نشانہ بنانا ہے تاکہ انڈیا کو چپھنے کے لیے کوئی جگہ نہ مل سکے اور یہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کاؤنٹر یا پہلی سٹرائیک کے لیے اپنے سسٹمز چھپا سکتے ہیں اور پاکستان ان مقامات کو نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘
ڈاکٹر منصور کے مطابق انڈیا کے وزیر دفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدار کئی مواقع پر ایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ ’انڈیا نے ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں جو اسے پاکستان کے خلاف قبل از وقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں۔‘
وہ سپرسونک براہموس میزائل کی مثال دیتے ہیں جو روایتی کے ساتھ نیوکلئیر ہتھیار بھی ہے اور اس کے علاوہ انڈیا بہت سے ایسے سسٹمز بنا رہا ہے جو پہلی سٹرائیک کے لیے زمین، فضا اور سمندر سے بھی لانچ ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے سنہ 2022 میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں آ گرا تھا جس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کی حدود میں گرنے والا براہموس میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا۔
ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ ’انڈیا براہموس کو پاکستانی سٹریٹجک فورسز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے خلاف روایتی کاؤنٹر فورس (پہلی) سٹرائیک کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور پھر انڈیا یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہم نے تو محض روایتی حملہ کیا ہے لیکن اس طرح کی روایتی سٹرائیک کو پاکستان کی طرف سے پہلا جوہری حملہ تصور کیا جائے گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’یہ وہ ساری صورتحال ہیں جن میں کسی بھی حملے کو روکنے کے لیے پاکستان کو تیار رہنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر پاکستان دشمن کو دکھانے کے لیے اپنی صلاحتیوں کا اظہار کرتا رہے۔ اور اسی مقصد سے پاکستان نے شاہین تھری اور ابابیل جیسے نیوکلئیر وار ہیڈز بنائے ہیں اور ان کی نمائش کی ہے۔‘
امریکہ کو کیا تشویش ہے؟
اب بات کرتے ہیں کہ امریکہ کو ان میزائلوں پر کیا تشویش ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’آر آئی اے ایم بی نےشاہین تھری اور ابابیل میزائل سسٹمز اور ’ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑے سسٹمز‘ کے لیے ڈائیامیٹر راکٹ موٹرز کے ٹیسٹ اور آلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کیا ہے۔‘
’ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑے سسٹمز ‘کے متعلق ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسی میزائل کی اگلی جنریشن پر کام ہو رہا ہے۔
ابابیل کا پہلا ٹیسٹ جنوری 2017 میں ہوا تھا اور اس کے بعد ابابیل کا دوسرا تجربہ چھ سال بعد گذشتہ برس اکتوبر 2023 میں ہوا۔ اور ان چھ سالوں کے دوران این ڈی سی میں اس ٹیکنالوجی پر مسلسل کام ہوتا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’شاہین تھری تو پہلے سے آپریشنل تھا لیکن ابابیل کے دوسرے تجربے کے بعد جب مارچ میں اسے پریڈ میں دکھایا گیا تو اس کے بعد شاہین تھری اور ابابیل زیادہ نظروں میں آئے کیونکہ اس نمائش کا مطلب تھا کہ پاکستان اس مرحلے تک پہنچ چکا ہے جہاں اس پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ مکمل ہو چکی ہے اور ابابیل اب آپریشنل ہے۔‘
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ ’یہ امریکی تشویش کی اصل وجہ ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پر کام کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’امریکی تشویش کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمز ہیں اور موبائل لانچر والا سسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائز حملے کی صورت میں یہ سسٹم ناصرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پر کیموفلاج کیے جا سکتے ہیں بلکہ انھیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایا جا سکتا ہے جہاں دشمن کو ان کا پتا نہ چلا سکے۔‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی تھری سٹیج میزائل سسٹم، زیادہ رینج والے سسٹم کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے ’ابابیل کے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ کے بیچ چھ سال کا وقفہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب مقامی طور پر اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چین سے ہی ساری ٹیکنالوجی لے رہے ہوتے تو چھ سال کا انتظار کیوں کرتے؟‘
تاہم ان کا ماننا ہے کہ یقیناً اس سسٹم میں کوئی ایسی نئی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے جس نے امریکی تشویش میں اضافہ کیا ہے کہ شاید پاکستان مزید صلاحیتیں حاصل کر رہا ہے اور مستقبل میں اننیوکلئیر صلاحتیوں والے میزائلوں کے بہتر ورژن زیادہ بڑے وار ہیڈز لے جا سکتے ہیں اور ابابیل شاید تین سے زیادہ وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت حاصل کر لے۔
یاد رہے اپریل میں ان سسٹمز کے موبائل لانچرز پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں کہا گیا تھا کہ بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کو بیلسٹِک میزائل پروگرام کے لیے خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں۔
سپیس پروگرام کا خدشہ؟
امریکی پابندیوں میں پاورفل راکٹ موٹرز کا بھی تذکرہ ہے۔ ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ کو ابابیل کی طویل رینج کے علاوہ پاکستان کے سپیس پروگرام پر بھی تشویش ہے۔
یاد رہے اپریل کی فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کے ساتھ مل کر راکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے۔ اور مزید یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ یہی کمپنی پاکستان کو بڑی راکٹ موٹرز آزمانے کے لیے پرزے فراہم کرتی رہی ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو فکر ہے کہ پاکستان اپنا مقامی سپیس لانچ وہیکل نہ بنا لے‘ اور پاکستان پہلے سے 2047 سپیس پروگرام کا وژن رکھتا ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ نیوکلئیر ڈیٹیرنس کے لیے سپیس پروگرام میں صلاحیتیں حاصل کرنا بہت اہم ہیں جو آپ کو ہدف کو درست نشانہ بنانے اور دفاعی نگرانی وغیرہ کے قابل بناتا ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ پاکستان فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے اپنا سپیس وہیکل لانچ کر سکتا ہے جس سے اس کے پاس انٹرکونٹینٹل بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت آ جائے گی۔
Getty Imagesپاکستان اور چین دونوں نے ایم ٹی سی آر پر دستخط نہیں کیے مگر اس کے بغیر بھی چین اور پاکستان دونوں اس کا پاس کرتے ہیںیہ پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں؟
امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کا آغاز 70 کی دہائی میں ہوا۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں حالیہ پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 70 کی دہائی سے جاری ہے جب انڈیا کے میزائل پروگرام (جس کے لیے وہ روسی اور کئی دوسرے ذرائع سے مدد حاصل کر رہا تھا) کے جواب میں پاکستان نے اپنا میزائل پروگرام شروع کیا اور ہمیشہ سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے۔
وہ کہتے ہیں چین اور پاکستان کی کمپنیوں اور افراد پر لگائی گئی ان پابندیوں کا دونوں ملکوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس (این ڈی سی) پر پابندیوں کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ ادارہ میزائل ٹیکنالوجیز کے لیے مغرب پر انحصار نہیں کرتا لہذا اس پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ شمالی کوریا کی مثال دیتے ہیں جس پر کتنی پابندیاں لگیں مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس حوالے سے دفاعی و میزائل تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا میزائل پروگرام مکمل طور پر مقامی ہے، اس کا انحصار مقامی وسائل اور مہارت پر ہے اور یہ امریکی پابندیوں سے متاثر نہیں ہو گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدامات افسوسناک ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ علاقائی تزویراتی حقائق سے جدا ہیں جیسے کہ ملک کی حفاظت و سکیورٹی اور انڈین میزائلوں کی بڑھتی ہوئی بین البراعظمی حدود جو علاقائی اور عالمی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔
امریکہ کے نزدیک انڈیا کواڈ کا سب سے اہم رکن ہے
امریکی محمکہ خارجہ کے بیان میں ایم ٹی سی آر (میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم) کا بھی ذکر ہے یہ میزائل ٹیکنالوجی کی برآمد پر کنٹرول رکھنے والے ممالک کا گروپ ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں نے ایم ٹی سی آر پر دستخط نہیں کیے مگر اس کے بغیر بھی چین اور پاکستان دونوں اس کا پاس کرتے ہیں اور کوئی ایسا سسٹم برآمد نہیں کیا گیا جس کی رینج 300 کلومیٹر سے زیادہ ہو مگر اس اقدام کی تعریف کرنے کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین آپس میں تعاون کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہے تو دوسری طرف انڈیا کا سارا میزائل پروگرام روس کے تعاون اور مدد سے بنا ہے۔
اس کی مثال انڈیا کا براہموس میزائل ہے، جب ابتدا میں روس سے یہ ٹیکنالوجی لی گئی تو اس کی رینج 290 کلومیٹر تھی مگر اب انڈیا اسے 800 کلومیٹر تک لے جا چکا ہے اور اس کے ہائپر سانک ورژن پر بھی کام ہو رہا ہے مگر یہاں ایم ٹی سی آر کی بات نہیں کی جاتی۔
یاد رہے ایم ٹی سی آر میں 300 کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائل کی برآمد پر پابندی ہے اور 500 کلو سے زیادہ کے وار ہیڈز کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ڈاکٹر منصور انڈیا کے اگنی فائیو کی مثال بھی دیتے ہیں جس کی رینج 5000-8000 کلومیٹر ہے اور یہ تین سے پانچ اور شاید اس سے بھی زیادہ وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور انڈیا ایٹمی آبدوزوں پر لگانے کے لیے بھی اس کے ورژن تیار کر رہا ہے۔
Getty Imagesانڈیا کا سپرسونک براہموس میزائل روایتی کے ساتھ نیوکلئیر ہتھیار بھی ہے اور اس کے علاوہ انڈیا بہت سے ایسے سسٹمز بنا رہا ہے جو پہلی سٹرائیک کے لیے زمین، فضا اور سمندر سے بھی لانچ ہو سکتے ہیں
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ پاکستان کے پاس تو کوئی ایٹمی آبدوز نہیں ہے ’پاکستان کے تحمل کی تعریف تو نہیں کی جاتی‘ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی کوششیں جنوبی ایشیا میں سٹریٹیجک استحکام برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔
انڈیا کے جواب میں تیار کی گئیں ٹیکنالوجیز سے مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے تاہم ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک انڈیا کواڈ کا سب سے اہم رکن ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کی سافٹ پاور، معاشی طاقت پاکستان سے بہت زیادہ اور مغربی ممالک کے ہر تھنک ٹینک میں انڈینز کا غلبہ ہے جو عوام اور حکومتوں کی رائے عامہ بنانے پر بہت اثر رکھتے ہیں۔
یاد رہے کواڈ چار ممالک کا گروپ ہے جس میں انڈیا، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ کی مختلف بین الاقوامی مقامات پر جیو سٹریٹیجک دلچسپیاں ہیں جیسے یوکرین روس، مشرقِ وسطیٰ اور تائیوان چین وغیرہ کی صورتحال ہے اور اسی باعث اس نے مختلف جگہوں پر ان ملکوں سے مختلف وعدے کر رکھے ہیں اور جنوبی ایشیا کے خطے میں چین کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے کواڈ بنایا ہے۔
اور چین کے ساتھ کشیدگی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے سید محمد علی کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کا محور بنیادی طور پر پاکستان کے بجائے چینی کمپنیاں ہیں، تاکہ بیجنگ کو مجبور کرکے اس پر معاشی دباؤ ڈالا جائے۔