جب انڈین سپریم کورٹ نے ایک دلت طالب علم کے یونیورسٹی میں داخلے کا خواب ٹوٹنے سے بچایا

بی بی سی اردو  |  Oct 05, 2024

ہر سال انڈیا میں لاکھوں طالبعلم انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں داخلے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔

ملک بھر میں آئی آئی ٹی کے 23 کالجز قائم ہیں جہاں داخلہ پانا بے شمار انڈین سٹوڈنٹ کا خواب ہوتا ہے۔ اس کے لیے لاکھوں طالبعلم مہینوں پہلے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ہر طالبعلم کے پاس آئی آئی ٹی کا داخلہ ٹیسٹ دینے کے صرف دو مواقع ہوتے ہیں۔

اس سال جب مظفرنگر سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ اتُل کمار نے آئی آئی ٹی کا داخلہ امتحان دیا تو یہ ان کا دوسرا اور آخری موقع تھا۔ داخلہ امتحان کی تیاری کے لیے انھوں نے قریبی شہر میں پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے قائم ایک مفت کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیا۔

جون میں جب انھیں پتہ چلا کہ انھوں نے ٹیسٹ کلیئر کر لیا ہے اور وہ آئی آئی ٹی دھنباد میں داخلے کے اہل ہیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

ممبئی سے برطانیہ: کوڑا اٹھانے سے پی ایچ ڈی تک کا سفرکراؤڈ فنڈنگ کیا ہے اور اس کے ذریعے پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے رقم کیسے اکھٹی کر سکتے ہیں؟کیا برطانوی راج سے قبل ہندوستان کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ تھے؟سکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘

لیکن ان کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، یہ تو محض آغاز تھا۔ اگلا چیلنج تھا آن لائن داخلہ فیس جمع کروانا۔

کمار فیملی کا تعلق دلت برادری سے ہے جو انڈیا کے ذات پات کے درجہ بندی میں سب سے نیچے ہے اور ملک کے سب سے پسماندہ طبقوں میں سے ایک ہے۔

ان کے گھر والوں کے لیے 17,500 انڈین روپے ایک بڑی رقم تھی۔ اتُل کے والد راجیندر کمار ایک مزدور ہیں جن کی ایک دن کمائی ساڑھے چار سو انڈین روپے ہے جبکہ ان کی والدہ گھر میں چارپائیاں بنتی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود راجیندر نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ ان کے لیے اپنے بچوں کی پڑھائی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس سے قبل وہ اپنے بڑے بیٹے کی پڑھائی کی خاطر اپنا گھر بھی بیچ چکے ہیں۔ اتُل کے دو بڑے بھائی معروف کالجوں سے انجینیئرنگ کی پڑھائی کر رہے ہیں جب کہ تیسرے بھائی مظفرنگر کے ایک کالج سے بیچلر کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔

راجیندر کہتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑتی تو وہ دوبارہ اپنا گھر بیچنے سے نہیں ہچکچاتے۔

BBCاتُل کے والد راجیندر کمار ایک دیہاڑی مزدور ہیں جن کی ایک دن کمائی ساڑھے چار سو انڈین روپے ہیں جبکہ ان کی والدہ گھر میں چاپائی بنتی ہیں۔

جب اتُل نے امتحان پاس کیا تو ان کے والد نے ایک مقامی ساہوکار سے مدد مانگی۔ لیکن فیس جمع کروانے کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے محض دو گھنٹے قبل اس شخص نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد راجیندر نے اپنے دوستوں سے رجوع کرنا شروع کیا جنھوں نے فوراً 14000 روپے جمع کر کے دے دیے۔ بقیہ 3,500 روپے راجیندر نے اپنی جمع پونجی سے نکال کر پورے کیے۔

انھوں نے جلدی سے وہ رقم اپنے بڑے بیٹے کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروادی، جب کہ اتُل نے داخلہ کی کارروائی پورا کرنے کے لیے کالج کے آن لائن پورٹل پر لاگ ان کیا۔

اب ان کا مقابلہ وقت سے تھا کیونکہ اب ایڈمیشن کنفرم کرنے کے لیے تین منٹ سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔

راجیندر کہتے ہیں کہ انھوں نے کئی منٹوں کا کام تین منٹ میں مکمل کرنے کی کوشش کی۔

مگر ان کے بقول آخری وقت میں پورٹل نے کام کرنا بند کر دیا اور اتل کی ڈیڈلائن مس ہو گئی۔

اس بات سے ان سب کو اتنا صدمہ پہنچا کہ پورے گھر والوں نے 24 گھنٹے تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔

اتُل نے جس کوچنگ سینٹرمیں داخلہ امتحان کی تیاری کی تھی انھوں نے آئی آئی ٹی دھنباد سے رجوع کیا۔ لیکن اتل کا دعویٰ ہے کہ کالج نے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کی۔ اس کے بعد کمار خاندان نے متعدد حکام کو ای میلز لکھیں، عدالت سے بھی رجوع کیا لیکن کہیں بات نہیں بنی۔

اب ان کی آخری امید انڈین سپریم کورٹ سے تھی۔ 2021 میں انڈین عدالتِ عظمیٰ آئی آئی ٹی بمبئی کو ایک ایسے دلت طالب علم کو داخلہ دینے کا حکم دیا تھا جو مالی اور تکنیکی مشکلات کی وجہ سے وقت پر اپنی داخلہ فیس ادا نہیں کر سکا تھا۔

اتُل اور ان کے والد نے اس طالب علم سے رابطہ کیا جس نے ان کا رابطہ اس وکیل سے کروا دیا جس نے ان کا مقدمہ لڑا تھا۔

دورانِ سماعت آئی آئی ٹی دھنباد نے سپریم کورٹ میں دلیل دی کہ اتل نے 3 بجے ادائیگی کے پورٹل پر لاگ ان کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے آخری وقت پر فیس ادا کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا یاد دہانیوں کے لیے اتل کو متعدد بار ٹیکسٹ پیغامات بھی بھیجے گئے تھے۔

عدالت نے آئی آئی ٹی سے استفسار کیا کہ وہ اتُل کو داخلے دینے کے اتنے مخالف کیوں ہیں۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا بظاہر ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ اگر درخواست گزار کے پاس وسائل ہوتے تو وہ وقت رقم ادا نہ کرتے۔

بالآخر عدالت نے آئی آئی ٹی دھنباد کو موجودہ بیچ میں اتُل کے لیے ایک اضافی سیٹ نکالنے کا حکم دیا۔

انڈیا کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اتل کی تعلیم کے لیے نیک تمناؤں اظہار کیا۔

’آل دا بیسٹ، محنت کرنا!‘

جرمن یہودی ’میم صاحب‘ جو برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی ’آپا جان‘ بنیںدنیا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے 10 بہترین شہر کون سے ہیں؟ایم آئی ٹی سے تعلیم یافتہ دو بھائیوں نے 12 سیکنڈ میں ڈھائی کروڑ ڈالر کیسے چُرائے؟کم عمری میں اعلیٰ تعلیم کے ورلڈ ریکارڈز بنانے اور 22 سال کی عمر میں آئی آئی ٹی کا پروفیسر بننے والا نوجوان آج بے روز گار کیوں؟بچوں کو کس عمر میں سکول داخل کروانا چاہیےاعلیٰ تعلیم کے لیے فری سوشل میڈیا پلیٹ فارم کتنا مددگار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More