Getty Images
برینڈن میکلم نے جب انگلش ٹیسٹ ٹیم کی ہیڈ کوچنگ سنبھالی، تب جو روٹ کی ٹیم انگلش ٹیسٹ تاریخ کے پست ترین اعداد و شمار کما چکی تھی اور اسے کسی جنونی انقلاب کی ضرورت تھی جو اس کا قبلہ درست کر سکے۔
میکلم کے آتے ساتھ ہی بین سٹوکس نے ٹیم کی قیادت سنبھالی اور پھر ٹیسٹ کرکٹ میں جو جارحانہ انقلاب امڈ کر آیا، اس نے حریفوں کی یوں نیندیں اڑا کر رکھ دیں کہ پیٹ کمنز اور نیتھن لائن جیسے مشاق ٹیسٹ کرکٹرز بھی اس ’بیز بال‘ اپروچ کو دردِ سر قرار دینے پر مجبور ہو گئے۔
’بیز بال‘ اپنا کر انگلش ٹیسٹ ٹیم نے کامیابیوں کا وہ سفر شروع کیا جو تاریخ میں خال ہی دکھائی دیتا ہے۔
سٹوکس کی ٹیم نہ صرف اپنے گھر میں ناقابلِ تسخیر ٹھہری بلکہ بیرون ملکی دوروں پر بھی فتوحات سمیٹتے چلی گئی۔ اس کامیابی کا عظیم ترین پیمانہ یہ تھا کہ چھ دہائیوں کی دو طرفہ کرکٹ میں محض دوسری بار انگلش ٹیم پاکستان کو ہوم گراؤنڈز پر ٹیسٹ سیریز ہرانے میں کامیاب ہوئی۔
لیکن بیز بال کا وہ سنہری چہرہ اب وقت کی کڑی دوپہر سے ماند پڑ چکا ہے۔ پچھلے دو سال میں نتائج تسلسل سے خالی رہے ہیں اور فتوحات کا تناسب بہت گھٹ چکا ہے۔
دو دہائیوں سے انگلش بولنگ اٹیک کے سرخیل رہنے والے جیمز اینڈرسن ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس انقلاب کے علمبردار بین سٹوکس اپنی انجریز سے الجھ رہے ہیں اور اینڈرسن کے بعد پچھلے دورۂ پاکستان پر موثر رہنے والے اولی رابنسن بھی دستیاب نہیں۔
انگلش بولنگ اٹیک اپنے پر جوش پیسر مارک ووڈ کی خدمات سے بھی محروم ہے اور سری لنکا کے خلاف آخری ٹیسٹ میچ میں شکست نے بلے بازوں کے اعتماد کو بھی کچھ ٹھیس پہنچائی۔
یہ سبھی عوامل تقاضہ کرتے ہیں کہ بادی النظر میں پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈز پر فیورٹ بن کر ابھرے لیکن پاکستان کے آلام انگلینڈ سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
شان مسعود کی ’سائنس‘ اور بین سٹوکس کا ’میتھ‘بابر اعظم پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے مستعفی: ’بابر کو دوبارہ کپتانی قبول کرنی ہی نہیں چاہیے تھی‘کپتانی کا تنازع، ٹیم میں تقسیم یا اعتماد کا فقدان: ’توقعات کے قیدی‘ بابر اعظم کے زوال کی وجہ کیا ہے؟دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایاGetty Images
تین سال سے کوئی ایک ہوم ٹیسٹ نہ جیت پانا اگر باعثِ فکر ہے تو پچھلے مہینے بنگلہ دیش سے کلین سویپ کہیں زیادہ باعثِ ندامت ہے۔ اگرچہ شان مسعود کو قیادت تھما کر پاکستان اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی احیا چاہتا ہے مگر ابھی تک ان کی قیادت میں کھیلے گئے پانچوں میچز کے نتائج بجائے خود خطرے کی گھنٹی ہیں۔
شاہین آفریدی کی پیس، فارم اور ردھم سب پرانے قصے ہو چکے ہیں۔ نسیم شاہ کی کاٹ ابھی باقی ہے مگر انجری اور سال بھر کے خلا نے ان کی ریڈ بال فارم متاثر کر چھوڑی ہے۔ عامر جمال کی واپسی خوش آئند ہے مگر انجری اور پونے سال کی غیر حاضری ان کی ریڈ بال فارم پر کیا اثر ڈال چکی ہو گی، کوئی نہیں جانتا۔
مگر میر حمزہ کی شکل میں پاکستان کو یہ خوش قسمتی میسر ہے کہ ہر عہد میں پر جوش پیسرز کی شہرت رکھنے والے اس اٹیک کو ایک با ہوش سیمر بھی میسر ہے جو بدلتی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے اور میچ کے مزاج میں ڈھلنے کا ڈسپلن جانتا ہے۔
ملتان کی پچ میں سیمرز کے لیے اگر ابتداً کچھ میسر نہ بھی ہو، آخری ڈھائی دن دلچسپی کا خاصا سامان ہو گا کہ جہاں دھوپ سے شکستہ ہوتی پچ پر پرانی گیند کے ہمراہ ریورس سوئنگ کا جلوہ اٹھے گا اور سیمرز اپنی کہی کہیں گے۔
لیکن ریورس سوئنگ سے فائدہ پانے کو بھی جو ڈسپلن لازم ہے، پاکستانی پیسرز کو اس میں بہت بہتری لانا ہو گی۔
مقابل انگلش اٹیک اگرچہ تجربے میں پاکستان سے پیچھے ہے مگر ڈسپلن کے معاملے میں ان بولرز کے حالیہ معیارات پاکستان سے بہتر رہے ہیں اور جس طور سے پاکستانی مڈل آرڈر کی مدافعت نوآموز بنگلہ دیشی بولرز کے سامنے کھلی، وہ گس ایٹکنسن، برائیڈن کارس اور کرس ووکس کے لیے امید کا سامان ہو گا۔
انگلش کرکٹ اگرچہ فی الوقت اپنی بلند ترین سطح پر نہیں مگر اعتماد سے محروم اور اتفاق کو ترستی شان مسعود کی ٹیم اس کے لیے بہترین ہدف ہو سکتی ہے کہ اس کے خلاف اپنی بے خطر اپروچ برت کر وہ مزید ثمرات بٹور سکے۔
شان مسعود اگرچہ انٹرنیشنل سطح پر نوآموز کپتان ہیں مگر کاؤنٹی سرکٹ میں قیادت کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ گو، بطور قائد، وہ کھیل کی حرکیات کے ادراک میں کوئی کمی نہیں دکھاتے لیکن بسا اوقات اپنے حریف کیمپ کی سٹریٹیجی سے ایک قدم پیچھے رہ جاتے ہیں۔
یہاں لیکن شان کے پاس ایسی کوئی مہلت نہیں ہو گی کہ تین برس سے ہوم گراؤنڈز پر فتح سے محروم ٹیم جو ہزیمت بنگلہ دیش کے ہاتھوں اٹھا چکی، اس کا بوجھ صرف اس انگلش ٹیم کے خلاف فتح سے ہی ہٹ سکتا ہے۔
کپتانی کا تنازع، ٹیم میں تقسیم یا اعتماد کا فقدان: ’توقعات کے قیدی‘ بابر اعظم کے زوال کی وجہ کیا ہے؟شان مسعود کی ’سائنس‘ اور بین سٹوکس کا ’میتھ‘’اس زوال کی کوئی حد بھی ہو گی کیا؟‘پاکستان بنگلہ دیش ٹیسٹ سیریز: اس ٹیم کا ’غنڈہ‘ کون ہےبنگلہ دیش نے پاکستان کو کلین سویپ کر دیا: ’ہم کسی سکول ٹیم سے ہارنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں‘چیمپیئنز کپ: محسن نقوی کا خواب پاکستان کی کرکٹ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟