Getty Imagesروتھ بیل ول اپنا آفیشل ٹائم سرٹیفکیٹ حاصل کر رہی ہیں
یہ اُس دور کی بات ہے جب اگرچہ گھڑی تو ایجاد ہو چکی تھی تاہم اس میں ٹائم کیا ہو رہا ہے یہ معلوم کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں تھا۔ صحیح وقت صرف لندن میں واقع ’رائل آبزرویٹری آف گرینچ‘ نامی رصدگاہ سے پتا کیا جا سکتا تھا جہاں ’اعلیٰ درجے‘ کے ماہر فلکیات اور سائنسدان کام کرتے تھے۔
یہ آبزرویٹری زمین کے اُس مقام پر واقع ہے جہاں سے دنیا مغربی اور مشرقی نصف کرہ میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس مقام کو زمین کا مرکز بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کیا وقت ہو رہا ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے رائل آبزرویٹری گرینچسے رابطہ کیا جاتا تھا۔
البتہ ہر کسی کی رائل آبزرویٹری گرینچ تک رسائی نہیں تھی۔ اس پس منظر میں برطانیہ کے معروف گھڑی ساز جیسے آرنلڈ اینڈ ولیامی سمیت حکومتی ادارے اور انتظامیہ (جن کے لیے درست وقت جاننا انتہائی اہمیت کا حامل تھا) ٹائم معلوم کرنے کے لیے اپنے ملازمین کو رائل آبزرویٹری بھیجتے تھے۔ اس کام میں اُن کا کافی وقت ضائع ہوتا تھا۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے تک بیل ول خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد ہفتے میں کم از کم تین بار گرینچ میں رائل آبزرویٹری کا دورہ کرتا تھا۔ وہ ایک گھڑی پر وقت طے کرتا اور پورے لندن میں اس معلومات کو اپنے گاہکوں کو فروخت کرنے کے لیے چل پڑتا۔
جب وقت بتا کر پیسے کمانے والے بیل ول خاندان، جنھوں نے 1836 سے وقت کی معلومات دوسروں تک پہنچائی تھیں، کی آخری فرد روتھ بیل ول نے یہ کام شروع کیا تو اُن کے مقابل سینٹ جان وائن نے اپنے کاروباری مفاد کے لیے اُن کی کمپنی بند کروانے کی کوشش کی۔
لیکن اُن کی یہ کوشش انھیں مہنگی پڑ گئی کیونکہ اُن کے ایسا کرنے سے بیل ول خاندان کے کاروبار کو مزید ترقی ملی۔
جان وائن نے گاہکوں کو اپنی خود ساختہ گھڑی کے وقت کو بیچنے کی کوشش کی اور بعدازاں ’ٹائمز‘ اخبار میں شائع ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ بیل ول خاندان کی جانب سے بتایا جانے والا ’وقت‘ مضحکہ خیز حد تک پُرانا تھا یعنی درست نہیں تھا۔
انھوں نے روتھ بیل ول پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے عورت ہونے کا فائدہ اٹھاتی تھیں۔
عام لوگوں کو صحیح وقت بتانے کا کاروبار کیسے شروع ہوا؟Getty Imagesگھڑی ساز جان آرنلڈ اور اُن کے اہلخانہ
رائل آبزرویٹری کے جان ہنری بیل وِل نامی ملازم نے سنہ 1836 میں وقت بتانے کا اپنا نجی کاروبار شروع کیا۔ وہ درست وقت بتانے کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔
وہ ایک فرانسیسی پناہ گزین کے بیٹے تھے جو انقلابِ فرانس کے دوران ملک بدر ہوئے تھے۔ بعدازاں وہ شاہی ماہر فلکیات کے شاگرد بن گئے تھے۔
19ویں صدی کے اوائل میںوہ کاروبار جو درست وقت کا تعین چاہتے تھے، جیسا کہ گھڑی ساز، بینک اور بڑی کمپنیاں عام طور پر اپنے ملازمین کو رائل آبزرویٹری میں جا کر صیح وقت معلوم کر کے آنے کا کہتے تھے۔
رائل آبزرویٹری گرینچ میں جب تک شاہی ماہر فلکیات جان پونڈ تعینات تھے تب تک نظام اُسی طرح چلتا رہا۔ تاہم 1835 میں جان پونڈ کی جگہ جورج ایئری آ گئے جو لوگوں کے بار بار آبزرویٹری کے دروازے پر دستک دینے سے عاجز آ گئے تھے۔
اُن کا ماننا تھا کہ لوگوں کو درست وقت بتانے میں کافی وقت برباد ہو رہا ہے چنانچہ ایسی درخواستوں کو نمٹانے کے لیے انھوں نے پیر کا دن مقرر کر دیا۔
تاہم گھڑی سازوں اور حکومتی اداروں کے لیے ہفتے میں صرف ایک دن وقت معلوم کرنے کی سہولت ناکافی تھی۔ اس وجہ سے دیگر معاملات جن میں وقت کی پابندی اہم تھی ان پر منفی اثر بھی پڑ رہا تھا۔
جان پونڈ کے سابق اسسٹنٹ کے طور پر جان ہنری بیل وِل کو گرینچ آبزرویٹری تک رسائی حاصل تھی۔ وہ ہر صبح وہاں کا دورہ کرتے اور سب سے پہلے اپنی جیب کا کرونومیٹر سیٹ کرتے۔ اس کے بعد وہ اپنی چھوٹی سی بگھی میں اپنے اُن کلائنٹس کے پاس جاتے تو انھیں درست وقت بتانے کے لیے فیس ادا کرتے تھے۔
سنہ 1856 میں جب اُن کی موت ہوئی تو اُس وقت اُن کے 200 سے زیادہ گاہک تھے۔ اُن کی موت کے بعد اُن کی بیوہ ماریا نے یہ کام سنبھال لیا۔ اور جب ماریا کی بھی موت ہو گئی توان کی بیٹی روتھ بیل ول نے یہ کام سنبھال لیا جنھیں ’دی ٹائم سیلر‘ بھی کہا جاتا تھا۔
’وقت قیمتی ہے‘
بیل ویل خاندان میں ایک ہی قابل اعتماد جان آرنلڈ کمپنی کی گھڑی کا استعمال کیا گیا۔ (اصل میں اس گھڑی کو ڈیوک آف سسیکس کے لیے بنایا گیا تھا جنھوں نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھاکہ یہ ’بیڈ پین‘ کی طرح دکھتی ہے۔)
وقت بیچنے کا بزنس حیرت انگیز طور پر ایک سادہ سا خیال تھا، اتنا سادہ کہ بہت سے تکنیکی ماہر نے اس کی پیچھے کارفرما ذہانت کو کمتر تصور کرتے تھے۔
جان وائن جو ’سٹینڈرڈ ٹائم کمپنی‘ کے ڈائریکٹر تھے نے لندن کے شہر کے کونسلروں اور عمائدین کے ایک گروپ سے خطاب کیا تاکہ بیل ول کے طریقہ کار میں غلطیوں کے امکان کی نشاندہی کی جا سکے۔
جان وائن نے اپنے لیکچر کے دوران شرکا کو بتایا کہ ’لندن کی عوامی گھڑیوں پر وقت کی بے قاعدگیاں براہ راست بہت زیادہ مالی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔‘
انھوں نے بیل ول کے نظام کی ’خامی‘ کو بیان کیا اور ’موجودہ عدم استحکام‘اور ’حکومت، لندن کاؤنٹی کونسل، سٹی کارپوریشن اور عوام کی طرف سے ظاہر کی گئی بے حسی‘ کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہشرکا کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہو سکتا ہے کہ گرنچ مین ٹائم کو گھڑی کی تجارت کے لیے کیسے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک عورت جس کے پاس کرونومیٹر تھا اس نے اُس وقت کے ماہر فلکیات سے اجازت حاصل کی کہ وہ جتنی بار چاہے آبزرویٹری جا سکے اور وقت درست کر سکے (شاید کوئی بھی آدمی ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔)‘
’میرے خیال میں یہ کاروبار آج تک ایسے ہی اس کی ایک جانشین چلا رہی ہیں جو خود بھی ایک عورت ہے۔‘
جان وائن نے اپنے خطاب میں تقریباً ہر ایک کی توہین کی۔ پھر انھوں نے لندن کا موازنہ پیرس، برلن اور ’دیگر براعظمی شہروں‘ سے کیا۔ اس سے پہلے کہ نجی گھڑیوں کے مالکان کو ’اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے میں ناکامی‘ پر افسوس کا اظہار کیا۔
وہ اپنی کمپنی کو فروغ دینے کے خواہاں تھے۔
ٹائمز میں ’جھوٹی گھڑیوں‘ کے بارے میں ایک اداریے نے اس بحث کو کافی ہوا دی۔
اپر نورووڈ سے تعلق رکھنے والے جان کاک برن نے ’لندن کی گلیوں میں نصب گھڑیالوں کی سینسر شپ کرنے کی‘ تجویز کی۔
’سو گز کے فاصلے پر نصب گھڑیوں میں تین یا چار منٹوں کا فرق ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انفرادیت بہترین چیز ہے تاہم گھڑی جو ٹائم بتاتی ہے اس میں انفرادیت کی کوئی جگہ نہیں۔‘
’ایک جھوٹے ٹائم کیپر کو کسی بھی قیمت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘
اخبار میں ایک اور تحریر چھپی جس میں مصنف نے لکھا کہ ’میں نے کئی غیر ملکیوں سے سُنا ہے ہے‘ کہ وہ حیران ہیں کہ لندن کے کئی گھڑیال غلط وقت بتاتے ہیں۔
ایک تحریر کے مصنف اتنے ناراض تھے کہ انھوں نے کہا برصغیر میں بھی ٹیلی گرام وقت پر پہنچ جاتا ہے۔ ’لندن میں ’جھوٹی گھڑیوں‘ کی موجودگی پر شرم آنی چاہیے۔ اس وجہ سے لوگوں کو کتنے مالی نقصانات کا سامنا ہے۔‘
’اس بارے میں میونسپل اور دیگر انتظامیہ کی قیادت کے ساتھ عوام کی مایوس کُن بے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انھیں انگریزی کہاوت ’ٹائم از منی‘ (وقت قیمتی ہے) کی سنجیدگی سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘
Getty Imagesروتھ بیل ول وقت بیچنے کا بزنس کرتے ہوئے
تاہم یہ تمام ناراض مرد جو اخبار میں ’جھوٹی گھڑیوں‘ کے بارے میں لکھ رہے تھے ان کی وجہ سے روتھ بیل ول کے بزنس کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ملی۔
جن لوگوں کو روتھ بیل ول کے صحیح وقت بتانے کے بزنس کا معلوم نہیں تھا انھوں نے بھی اُن کی خدمات حاصل کیں۔
یہ ایک سٹیٹس سمبل بن گیا کہ لوگوں کو ہفتے میں تین مرتبہ صحیح وقت معلوم کرنے کی ذاتی سہولت میسر تھی۔
میڈیا میں روتھ بیل ول کا نام مشہور ہونے لگا جنھوں نے ان کو ’گرینچ ٹائم لیڈی‘ کہنا شروع کر دیا۔
روتھ بیل ول نے اپنے بیان میں کہا کہ جان وائن کی وجہ سے ان کے کاروبار کی بہت تشہیر ہوئی۔
ریٹائر ہونے سے ایک سال قبل سنہ 1939 میں انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کس طرح 9 بجنے سے پہلے وہ رائل آبزرویٹری پہنچ جایا کرتی تھیں تاکہ انھیں تصدیق شدہ صحیح وقت کے بارے میں معلوم ہو جائے اور اسے ثابت کرنے کے لیے انھیں سرٹیفیکیٹ مل جائے۔
انٹرویو میں بتایا گیا کہ وہ اپنی گھڑی کو ’آرنلڈ‘ کے نام سے پکارتی تھیں جیسا کہ وہ ان کے کوئی قریبی دوست ہو۔
آبزرویٹری پہنچ کر ’وہ کہتی تھیں صبح بخیر! آج آرنلڈ چار سیکنڈ آگے ہے۔‘
’پھر ان کی گھڑی کا معائنہ کیا جاتا تھا۔ گھڑی میں وقت درست کر کے انھیں گھڑی واپس دے دی جاتی تھی جس کے بعد وہ اپنے گاہکوں کا رُخ کرتی تھیں۔‘
روتھ بیل ول کا ٹائم بیچنے کا بزنس 1940 تک اچھا چل رہا تھا تاہم دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہونے تک اُن کے لیے گلیوں میں پھرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر بھی 86 برس ہو گئی تھی۔
تین سال بعد اُن کی موت واقع ہو گئی۔ آرنلڈ کو وہ کلاک میکرز کمپنی کے عجائب گھر کو تحفہ دے کر گئیں۔
جب دنیا میں ان کا وقت ختم ہو گیا تو ان کی موت کے ساتھ ساتھ بیل ول خاندان کی یہ روایت بھی ختم ہو گئی۔
ہماری گھڑیوں پر نظر آنے والا وقت ’حقیقی‘ کیوں نہیں ہے؟کسٹمائیزڈ یا نایاب گھڑیاں کیوں بنتی ہیں اور کیا ان کو دوبارہ بیچنا آسان ہوتا ہے؟خواتین کو ترقی کے لیے مردوں سے زیادہ محنت کیوں کرنی پڑتی ہے؟وہ خصوصیت جو خواتین کے کیریئر کی راہ میں حائل ہو سکتی ہےکیا ’ٹائم ٹریول‘ واقعی ممکن ہے اور اس پر علم طبیعات کیا کہتی ہے؟عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟