پارسی ہونے کے باوجود رتن ٹاٹا کی میت کو جلایا کیوں گیا؟ بھارت کی رئیس ترین شخصیت کی تدفین سے متعلق چند حقائق

ہماری ویب  |  Oct 12, 2024

بھارتی صنعتکار رتن ٹاٹا 9 اکتوبر کو 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پارسی رسم و رواج کے برعکس، ان کی آخری رسومات روایتی طریقے سے نہ کروا کر جلانے کے ذریعے ادا کی گئیں۔

پارسیوں کی انوکھی رسم: 'ٹاور آف سائلنس' کی روایت

پارسی کمیونٹی میں عام طور پر 'دوخمیناشینی' کا طریقہ اپنایا جاتا ہے، جسے 'اسکائی بریئل' بھی کہا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت میت کو 'ٹاور آف سائلنس' یا 'دخما' پر چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں گدھ جیسے مردار خور پرندے باقیات کو کھا جاتے ہیں۔ یہ روایت تقریباً 3000 سال پرانی ہے۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں گدھوں کی تعداد میں شدید کمی نے اس عمل کو مشکل بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں پارسی کمیونٹی متبادل رسومات، جیسے تدفین یا جلانے، کی طرف مائل ہو رہی ہے۔

گدھوں کی کمی اور بدلتی رسومات

ممبئی کی پارسی برادری کے لیے گدھوں کی گھٹتی آبادی نے روایت میں تبدیلی کی راہیں کھول دیں۔ آج ممبئی کے پارسیوں کے پاس تین آپشنز ہیں: دوخمیناشینی، تدفین، یا جلانا۔ تاہم، جلانے کے عمل کو برادری کے قدامت پسند طبقے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

وورلی شمشان گھاٹ: تبدیلی کی ابتدا

رتن ٹاٹا کی آخری رسومات وورلی شمشان گھاٹ میں الیکٹرانک طریقے سے جلانے کے ذریعے ادا کی گئیں، جو کہ صنعتکار سائرس مستری کی مثال کی پیروی ہے، جن کی آخری رسومات بھی اسی طرح انجام پائیں۔ وورلی میں شمشان گھاٹ کے قیام کی بنیاد 1980 کی دہائی میں جے آر ڈی ٹاٹا کی کوششوں سے رکھی گئی تھی، جب انہوں نے اپنے بھائی کی آخری رسومات کے دوران ممبئی میں بہتر شمشان گھاٹوں کی ضرورت محسوس کی۔

قدامت پسندوں کی مزاحمت اور نئی روایات

ممبئی کے پارسیوں میں آخری رسومات کے متبادل طریقوں کو اپنانے کے باوجود، قدامت پسند دھڑے ابھی بھی دوخمیناشینی کو ترجیح دیتے ہیں اور تدفین یا جلانے کا انتخاب کرنے والوں کو بعض روایتی رسومات تک رسائی دینے سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم، 2015 میں وورلی شمشان گھاٹ کے قیام نے ممبئی میں پارسی کمیونٹی کے لیے آخری رسومات کے نئے طریقے اپنانے کی راہ ہموار کی ہے۔

رتن ٹاٹا کی یادگار زندگی اور متبادل رسومات کا رجحان

رتن ٹاٹا کی آخری رسومات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جہاں قدیم رسومات کے مقابلے میں جدید طریقوں کو ترجیح دینے کی روایت بڑھتی جا رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More