’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفر

بی بی سی اردو  |  Oct 17, 2024

BBC

سینیگال سے تعلق رکھنے والے کسان محمد اولی نے کبھی سمندر کا رُخ نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ اب ایک پُرخطر سمندری سفر کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس نے بحرِ اوقیانوس کو ایک اجتماعی قبر میں بدل دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کشتی والوں کی کال آ گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں تیار ہو جاؤں۔ آپ لوگ میرے لیے دعا کریں۔ وقت آ گیا ہے۔‘

بی بی سی افریقہ آئی نے تارکین وطن کے لیے یورپ پہنچنے کی ایک خفیہ دنیا تک رسائی حاصل کی ہے جو خطرناک سمندری راستے کے ذریعے مغربی افریقہ سے سپین کے کنیری جزائر جاتے ہیں۔

محمد اولی چاہتے ہیں کہ ان کا شمار کنیری جزائر تک پہنچنے والے تارکین وطن میں ہو جن کی تعداد اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

کنیری جزائر کی مقامی حکومت نے تارکین وطن کو خبردار کیا ہے کہ جزائر کے ساحلوں پر ان کا انتظار ایک ایسا نظام کر رہا ہے جس پر ’بہت زیادہ بوجھ‘ ہے اور جو ’انہدام کے قریب‘ ہے۔ تاہم محمد اولی کے عزم کو اس طرح کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔

مچھلی پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی سے بنی روایتی کشتی پر سوار ڈھیر سارے لوگوں کے ساتھ محمد اولی کے سفر کو کئی دن، بلکہ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس راستے میں وہ دنیا کے سب سے خطرناک سمندروں میں سے ایک کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

سینیگال میں آپ اپنا سفر کہاں سے شروع کرتے ہیں، اس جگہ سے لے کر کنیری جزائر تک کا فاصلہ 1000 کلومیٹر سے لے کر 2000 کلومیٹر کے درمیان ہو سکتا ہے۔ یہ فاصلہ بحیرۂ روم کے ذریعے جانے والے تارکین وطن کے دوسرے راستوں کے مقابلے 10 گنا زیادہ ہے۔

سمندر میں طوفان اور اونچی لہروں سے کشتی میں سوار مسافروں کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہونے لگتی ہے۔ پینے کا پانی بھی ختم ہو جاتا ہے۔ وہ شدید خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

رات کی تاریکی اور سمندر کے سیاہ پانی کے بیچ و بیچ پریشانی اور پیاس مسافروں کو بے چین کر دیتی ہے۔

BBCسنہ 2023 کے آغاز سے ایل یرو پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد جزیرے کی آبادی سے دگنی ہوچکی ہے

ساحل سے دور، سینیگال کے مشرقی علاقے تامباکؤندا میں محمد اولی کے بچے اور رشتہ دار رہتے ہیں۔ وہ محمد اولی کی کھیتی باڑی سے حاصل معمولی آمدن پر انحصار کرتے ہیں۔

40 سالہ محمد اولی ساحل پر یورپ روانگی کے اہم مقام پر رہائش پذیر ہیں اور تقریباً ایک سال سے انھوں نے اپنے پیاروں کو نہیں دیکھا۔

یہاں وہ موٹر سائکل پر لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کر اجرت کماتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے دوستوں سے رقم بھی ادھار لیتے ہیں تاکہ ان کے پاس کسی طرح 1000 ڈالر فیس جمع ہو جائے اور وہ کنیری جزائز جانے والی کسی کشتی پر سوار ہو سکیں۔

جعلسازی کے ڈر سے انھوں نے سمگلرز سے کہا ہے کہ وہ پوری رقم کشتی کے پہنچنے پر ہی ادا کریں گے۔

ساحل پر ایک محفوظ مقام سے وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’اس پانی میں میرے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ سمندر کی بد روح مجھے مار سکتی ہے۔‘

’ہو سکتا ہے کشتی الٹ جائے اور سب مر جائیں۔ اگر آپ پانی میں گر جائیں تو کس چیز کا سہارا لیں گے؟ اس صورت میں موت ہی ایک واحد امکان ہے لیکن آپ کو خطرہ تو مول لینا ہو گا۔‘

ایسی درجنوں کشتیاں غائب ہوئی ہیں جن پر سینکڑوں لوگ سوار تھے۔ سمندر میں راستہ دیکھنے کے لیے ان کشتیوں میں کوئی ٹھوس نظام نہیں ہوتا۔ کئی کشتیاں راستے سے بھٹک جاتی ہیں اور بحیرہ اوقیانوس پار کر کے برازیل کے ساحل پہنچ جاتی ہیں۔

اگر محمد اولی یہ سفر کامیابی سے طے کر لیتے ہیں تو ان کا ارادہ ہے کہ وہ پیسے کما کر اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں گے۔ تاہم فی الوقت انھوں نے اپنے پلان کو ایک راز رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ پریشان ہوں۔

’مرد پہلے مدد کی پیشکش کرتے، پھر مجھ سے اور میری نوعمر بیٹیوں سے جنسی تعلق کا مطالبہ کرتے‘’اپنی جان بچانے آئے تھے مگر یہاں بار بار مر رہے ہیں‘: پاکستان چھوڑ کر نیپال جانے والے احمدی کس حال میں ہیں؟نکبہ: ’قیامت کبریٰ‘ کیا ہے اور فلسطینی اس دن اپنے ہاتھوں میں چابیاں لے کر کیوں نکلتے ہیں؟شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد انڈیا کو ’بہترین کی امید، بدترین کی تیاری‘

ورلڈ بینک کے مطابق سنہ 2010 کے بعد کی دہائی کے دوران سینیگال کی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے تاہم ابھی بھی ملک کی ایک تہائی سے زیادہ عوام غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

محمد اولی نے بتایا کہ ’آپ کوئی بھی نوکری تصور کر لیں، میں نے وہ کی ہوئی ہے۔ لیکن حالات بہتر نہیں ہوئے۔ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو آپ کی کوئی قدر نہیں۔ میں ان (فیملی) کا واحد سہارا ہوں اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘

محمد اولی کی طرح اس راستے سے جانے والے زیادہ تر تارکین وطن صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع افریقی خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غربت، علاقائی تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث فرار چاہتے ہیں۔

یورپ پہنچنے کی امید رکھنے والے پناہ گزینوں اور غیر قانونی طریقوں سے جانے والے تارکین وطن کے لیے کنیری جزائر ایک اہم مقام ہے۔ خاص طور پر اس پس منظر میں جب اٹلی اور یونان جیسے ممالک نے لیبیا اور تیونس سے بحیرۂ روم عبور کرنے والے راستوں کو بند کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔

سنہ 2023 کے دوران 40 ہزار تارکین وطن کنیری جزائر پہنچے۔ یہ تعداد تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ رواں سال ابھی تک 30 ہزار 800 لوگ سیاحتی ساحلوں تک پہنچے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال میں اسی وقت کے مقابلے دگنی سے زیادہ ہے۔

بحرِ اوقیانوس کے موسم میں بہتری کے ساتھ کنیری جزائر کی حکومت کو ’بد ترین حالات‘ کا خدشہ ہے۔

بی بی سی افریقہ آئی کو دیے خصوصی انٹرویو میں کنیری جزائر کے صدر فرنینڈو کلاویو نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے والا نظام ’بے انتہا دباؤ‘ میں ہے اور سمندر سے لوگوں کو بچانے والے ریسکیو ورکرز اور پولیس سے لے کر ریڈ کراس کے رضاکار سب ہی حد سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔

BBCسینیگال سے کنیری جزائر تک پُرخطر سفر

صدر فرنینڈو کلاویو نے کہا کہ ’اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ زیادہ لوگوں کی اموات ہوں گی اور ہم تارکین وطن کی اس طرح مدد نہیں کر پائیں گے جس طرح کی مدد انھیں ملنی چاہیے۔‘

’اس وقت یورپ نے بحیرۂ روم کا راستہ بند کر دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بچ نکلنے کے لیے بحرِ اوقیانوس کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ یہ زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘

بی بی سی نے سپین کی ایمرجنسی سروسز کے ورکرز سے بات کی جنھوں نے اپنی تھکاوٹ کا اظہار کیا۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک ورکر نے کہا کہ ’ورکرز میں اب مزید موت اور تباہی دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔‘

کنیری جزائر میں واقع چھوٹے جزیرے ایل یرو میں 2023 کے آغاز سے آنے والے تارکی وطن کی تعداد مقامی آبادی سے دگنی ہو کر قریب 30 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

کلاویو کہتے ہیں کہ مقامی سرکاری بسیں استعمال نہیں کر پاتے کیونکہ انھیں تارکین وطن کو لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ اس سے سماجی بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔

ڈنکی سے متعلق بی بی سی اردو کی خصوصی دستاویزی فلم’کوئٹہ سے آگے ہم بار بار بِکتے ہیں‘: ڈنکی‘ کیا ہوتا ہے اور پاکستان سے لوگ کس طرح بیرون ملک سمگل ہوتے ہیں؟

وہ کہتے ہیں کہ ’یورپی یونین سے لے کر سپین کی حکومت تک ہم سب کو ذمہ داری لینا ہوگی کیونکہ آپ بحران کا شکار کنیری جزائر کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔‘

حالیہ مہینوں کے دوران سپین میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد پر قومی سطح کی بحث چھڑ گئی ہے کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔ کنیری جزائر کے حکام سپین سے مزید امداد مانگ رہے ہیں تاکہ آنے والوں کی دیکھ بھال کی جاسکے، خاص طور پر بچوں کی۔

سینیگال میں اولی کو سمگلروں نے بالآخر بلا لیا ہے تاکہ وہ دوسرے تارکین وطن کے ساتھ خفیہ مقام پر چھپ جائیں۔ اب ان کی تقدیر انھی سمگلروں کے ہاتھ میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت سارے لوگ ہیں۔ یہ گھر ہم سے بھر چکا ہے۔ مالی اور گنی سے بھی لوگ موجود ہیں۔ وہ ہمیں 10 سے 15 لوگوں کو چھوٹی کشتیوں پر لے جاتے ہیں اور پھر بڑی کشتی روانہ ہوتی ہے۔‘

لمبے سفر میں زندہ رہنے کے لیے اولی نے صرف پانی کی چند بوتلیں اور بسکٹ اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔

ابتدائی دو روز وہ مسلسل بیمار رہے۔ وہ زیادہ تر کھڑے رہتے ہیں کیونکہ وہاں اتنی جگہ نہیں۔ جبکہ وہ اس جگہ سوتے ہیں جہاں سمندری پانی میں ملا ایندھن پڑا ہے۔

ان کا پانی ختم ہوگیا ہے اور انھیں سمندری پانی پینا پڑ رہا ہے۔

کشتی پر کچھ لوگ بے چین ہوجاتے ہیں اور چیخنے لگتے ہیں۔ عملہ مسافروں سے کہتا ہے کہ انھیں پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ سمندر میں نہ گِر جائیں، یا کسی اور کو نہ دھکیل دیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزین کے ذیلی ادارے (آئی او ایم) کے ڈیٹا کے مطابق بحرِ اوقیانوس پناہ گزین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک راستہ بنتا جا رہا ہے۔

سنہ 2024 میں اب تک قریب 807 کی ہلاکت ہوئی ہے یا وہ غائب ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال کے مقابلے یہ تعداد 76 فیصد زیادہ ہے۔

خدشہ ہے کہ اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس راستے پر جان لیوا حادثات بعض اوقات رپورٹ نہیں ہوتے۔

کلاویو نے سپین کی سماجی تنظیم واکنگ بارڈرز کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہر 45 منٹ میں ایک تارکین وطن کی موت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے سمگلروں کے مافیا مزید طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کا اندازہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد اس راستے کے ذریعے سالانہ 15 کروڑ ڈالر کماتے ہیں۔

سمگلروں کے خلاف کارروائی کرنے والی سپین کی سول گارڈ کی ٹیم کے رکن لیفٹیننٹ انٹونیو فیونٹس کہتے ہیں کہ ’اس سفر کے منتظمین کو معلوم ہے کہ یہ منشیات کی سمگلنگ کی طرح ہے جس میں پکڑے جانے کا بہت کم امکان ہے۔‘

’ان کے لیے تارکین وطن محض ایک چیز ہیں۔ وہ لوگوں کو اس طرح لے جاتے ہیں جیسے منشیات یا اسلحہ لے جا رہے ہوں۔ وہ (تارکین وطن) صرف متاثرین ہیں۔‘

جرائم پیشہ نیٹ ورک کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے سینیگال کے ایک سمگلر سے بات کی جو کشتی کے سفر کا انتظام کرتے ہیں۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ 200 سے 300 لوگ لے جانے والی بڑی کشتی استعمال کریں اور ہر شخص قریب 500 ڈالر دے تو اس سے بہت زیادہ آمدن حاصل ہوتی ہے۔‘

BBCاس سفر میں تو اولی زندہ بچ گئے لیکن ان کی صحت کافی خراب ہوچکی ہے

ان سے پوچھا گیا کہ ایک ایسا سفر جس میں انھی کی برادری کے کئی لوگ ہلاک ہوئے تو اس پر بطور سمگلر ان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو انھوں نے بغیر کوئی افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک جرم ہے۔ جو بھی پکڑا جائے اسے جیل میں ڈالیں۔ لیکن اس کا کوئی حل نہیں۔‘

’آپ پانی میں تیرتی ہوئی لاشیں دیکھ سکتے ہیں لیکن کشتی آگے بڑھتی رہتی ہے۔‘

پانچ دنوں سے بی بی سی کو اولی کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ایک شام ان کی کال آئی اور انھوں نے بتایا کہ ’موٹر گرم ہوگئی تھی اور ہوا بہت تیز تھی۔ کچھ ماہی گیروں نے ہمیں مراکش جانے کا کہا۔ لیکن کپتان نے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا اگر ہم آہستہ جاتے ہیں تو صبح چھ بجے سپین پہنچ جائیں گے۔‘

اولی کنیری جزائر پہنچنے سے صرف ایک دن دور تھے جب کشتی کا انجن خراب ہوگیا۔ کئی تارکین وطن کو یہ ڈر تھا کہ تیز ہواؤں سے کشتی بحیرۂ اوقیانوس کی طرف مزید بھٹک جائے گی تو انھوں نے کپتان کے خلاف بغاوت کر دی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سب نے ایک دوسرے سے لڑنا اور تضحیک آمیز باتیں کرنا شروع کر دیا۔ کپتان نے ہار مان لی اور کشتی واپس سینیگال کی طرف موڑ لی۔‘

اولی اس سفر میں بچ نکلے مگر اس دوران انھیں چوٹیں آئیں اور ان کی صحت خراب ہوگئی۔ وہ مسلسل درد میں رہتے ہیں اور آہستہ چل پاتے ہیں۔

اولی نے ایک سال تک اس سفر کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب وہ واپس اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے پاس واپس چلے گئے ہیں مگر ایک نئے سفر کے لیے پیسے جمع کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری خواہش ہے کہ واپس جا کر پھر کوشش کروں۔ خدا کی قسم یہی میرا ایمان ہے۔ یہی میرے لیے بہتر ہے۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی۔‘

اگر اولی یورپ تک پہنچ گئے تو شاید وہ کئی برسوں تک اپنے خاندان کو نہ دیکھ پائیں۔ اگر وہ سمندری سفر کے دوران مر گئے تو وہ اُن سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں گے۔

ڈنکی سے یورپ جانے کا خواب: ’پاکستان میں بھوکے رہ لو، میں بیٹا گنوا بیٹھی ہوں‘ ’اپنی جان بچانے آئے تھے مگر یہاں بار بار مر رہے ہیں‘: پاکستان چھوڑ کر نیپال جانے والے احمدی کس حال میں ہیں؟یونان کشتی حادثہ: پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر گھر میں کہرام ہے مگر پیاروں کے زندہ بچنے کی امید بھی‘’ٹو فنگر ٹیسٹ‘: جب پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی خواتین کو برطانیہ میں داخلے کے لیے کنوار پن ٹیسٹ سے گزرنا پڑانکبہ: ’قیامت کبریٰ‘ کیا ہے اور فلسطینی اس دن اپنے ہاتھوں میں چابیاں لے کر کیوں نکلتے ہیں؟یونان کشتی حادثے کے عینی شاہد: ’پاکستانیوں کو تہہ خانے میں رکھا، وہ ہمیں اٹھنے، بولنے نہیں دیتے تھے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More