گیس بلوں میں کونیکل بیفل چارجز اوگرا کی منظوری سے شامل کئے ،سوئی سدرن

ہم نیوز  |  Oct 17, 2024

سوئی سدرن کمپنی نے گیس بلوں میں کونیکل بیفل چارجزسے متعلق وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان سلمان احمد صدیقی کے مطابق 5 جنوری 2023 کو وزیرِ اعظم کی زیر صدارت توانائی کے تحفظ کے اقدامات کی پیش رفت پر ہونے والے اجلاس میں گیزر میں کونیکل بیفل کی تنصیب کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے ،سپریم کوٹ میں آئینی بنچ بنانے کی تجویز

اپنے گیزر میں کونیکل بیفل کی تنصیب سے صارفین گیس بل میں 25 فیصد تک بچت کر سکتے ہیں،اس کے استعمال سے 45 فیصد تک قدرتی گیس کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔

حکومت پاکستان اور وزارت توانائی نے سوئی سدرن اور ناردرن کو ہدایت دی کہ وہ تمام صارفین کےگھروں میں موجود گیزر میں کونیکل بیفل کی تنصیب لازمی کروائیں۔

کونیکل بیفل کی لازمی تنصیب کے لیے گھریلو اور کمرشل صارفین کے معاہدے میں ترمیم کے لیے اوگرا کو درخواست دائر کی گئی ہے۔

ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ:پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست

اوگرا نے عوامی مشاورت کے بعد گھریلو اور تجارتی صارفین کو گیس کی فراہمی کے معاہدوں میں ترمیم کی منظوری دی۔کونیکل بیفل کی تنصیب سے متعلق چارجز اوگرا کی منظوری کے بعد گیس بلوں میں صارفین کو چارج کیے گئے ہیں.

سوئی سدرن نے اپنے صارفین کو پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اور اپنے کسٹمر فیسلیٹیشن سینٹرز میں اسٹینڈیز آویزاں کر کے صارفین کو کونیکل بیفل کی تنصیب کے فیصلے کے حوالے سے آگاہ کیا۔

اس بیفل کی تنصیب کے لیے سوئی سدرن نے کنٹریکٹرز کو نامزد کیاجو مختلف علاقوں میں جا کر اس کی تنصیب کر رہے ہیں۔ایسے تمام صارفین جنہیں کونیکل بیفل کے چارجز سے متعلق مزید معلومات درکار ہوں وہ اپنے قریبی کسٹمر فیسلٹیشن سینٹر سے رجوع کر سکتے ہیں۔

لاہور بورڈ کے تحت جمعہ کو ہونے والے تمام پیپرزمنسوخ

صارفین کے گیزرز میں کونیکل بیفل کی تنصیب کا عمل سوئی ناردرن پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں کامیابی سے کر رہی ہے،اسی تناظر میں سوئی سدرن گیس کمپنی سندھ اور بلوچستان میں اپنے تمام صارفین سے درخواست کرتی ہے کہ وہ توانائی کے تحفظ سے متعلق وزیر اعظم کے اس احسن اقدام کو کامیاب بنانے میں ادارے کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More