نو سال جھوٹی محبت کا شکار رہنے والی خاتون: ’میں اتنی احمق کیسے ہو سکتی تھی؟‘

بی بی سی اردو  |  Oct 21, 2024

اس کہانی کا آغاز سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر کِرت اسّی نامی صارف کو موصول ہوئی ایک فرینڈ ریکوئیسٹ سے ہوا۔

2009 میں جب ’بوبی‘ نامی ایک صارف نے ان سے آن لائن رابطہ کیا تو کِرت کو لگا کے ان کے نصیب کھل گئے ہیں۔ بوبی ایک خوش شکل امراض قلب کے ڈاکٹر تھے۔

ان کے لیے بوبی مکمل اجنبی نہیں تھے۔ ان دونوں کا تعلق لندن کی سِکھ برادری سے تھا۔ بوبی کی پروفائل میں کِرت کو کچھ مشترکہ دوست بھی نظر آئے۔

یہ دیکھتے ہوئے کِرت نے ان کی فرینڈ ریکوئیسٹ قبول کر لی۔

اس کے بعد دوںوں میں بات چیت شروع ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کے زندگی کا حصہ بن گئے اور ہلکی پھلکی باتوں سے شروع ہونے والے تعلق نے کب محبت کا روپ اختیار کر لیا کِرت کو معلوم ہی نہیں ہوا۔

تاہم برسوں سے آن لائن ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے باوجود کِرت کی بوبی سے کبھی حقیقت میں ملاقات نہیں ہوئی۔

جب بھی کِرت بوبی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتیں تو بوبی کِرت سے نہ مل پانے کی ایسی وجوہات بتاتے کہ کِرت ان سے دوبارہ سوال ہی نہیں کرتیں۔

ایک بار بوبی نے کہا کہ ان کے دماغ میں ٹیومر کی تشخیص ہوئی ہے، جس کے بعد انھوں نے کہا ایک انھیں دماغی دورہ پڑا ہے۔ ایک بار انھوں نے کہا کہ انھیں گولی لگی ہے۔ پھر کہا کہ انھیں کسی کیس میں بطور گواہ حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے۔

بوبی کے کوئی نہ کوئی قریبی جاننے والے ان کی کِرت سے ملاقات نہ کرنے کی وجہ کی تصدیق کرتے اور کِرت ان سب لوگوں اور کہانیوں کو سچ سمجھتی رہیں۔

تاہم ماجرہ کچھ اور تھا۔

درحقیقت کِرت ایک انتہائی وسیع اور تکلیف دہ کیٹ فشنگ سکیم کا شکار تھیں۔ واضح رہے کہ کیٹ فشنک سکیم میں کوئی شخص انٹرنیٹ یا آن لائن کسی کے ساتھ تعلق بنانے کے لیے کسی شخص کی جھوٹی یا جعلی شناخت اپنا لیتا ہے۔

نو سال بعد جب بوبی کے بہانے کم پڑنے لگے تو آخر کار کرت اور بوبی کا آمنا سامنا ہوا۔ لیکن کِرت اپنے سامنے کھڑے شخص کو پہچان نہیں سکیں۔

جس شخص سے کِرت رابطے میں تھیں وہ بوبی نہیں بلکہ کِرت کی اپنی کزن سِمرن تھیں۔ دراصل سِمرن نے کِرت کو اس جھوٹی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔

ماضی کی طرف دیکھتے ہوئے کِرت خود سے پوچھتی ہیں ’میں اتنی احمق کیسے ہو سکتی تھی؟‘

حال میں نیٹ فلکس نے کِرت اسّی کی کہانی پر ایک دستاویزی فلم ریلیز کی ہے۔ فلم میں کِرت بتاتی ہیں کہ جب ان کی کہانی لوگوں کے سامنے آئی تو انھوں نے بھی یہی سوال کیا کہ ’کوئی کیسے ایسی باتوں پر اعتبار کر سکتا ہے؟‘

ان کی کہانی کے بارے میں جان کر کچھ لوگوں نے کِرت کو ٹرول بھی کیا۔

کِرت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ لوگ جو مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں ۔۔۔ ٹھیک ہے۔ آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ لوگوں کو قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہیے ہیں۔ اپنی کہانی دنیا کے سامنے لانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ان لوگوں کی قیاس آرائیوں کا جواب دینا چاہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں احمق نہیں ہوں۔ میں بیوقوف نہیں ہوں۔ میں نے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں (اپنی کہانی) سب کو بتاؤں یہ جانتے ہوئے کہ میں تنقید کا نشانہ بنوں گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میری طرح اور بھی لوگ سامنے آئیں گے۔‘

وہ کیا وجوہات تھیں کہ اس قسم کا سنگین دھوکا کھا کر کِرت نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں میں لائیں گی؟ جبکہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔

آن لائن محبت: جب ایک شخص نے چار عورتوں کو پیار کا جھانسہ دے کر دو کروڑ 80 لاکھ کا فراڈ کیا’پیار میں دھوکہ ہو سکتا ہے مگر میں نے اپنے آپ کو محبت کی کہانی میں بہک جانے دیا‘رومانس فراڈ: گھر بسانے کا جھانسہ دے کر خاتون سے تین لاکھ پاؤنڈ کیسے بٹورے گئے؟ہنی ٹریپ: وہ ’دلفریب‘ جال جس میں پھنس کر لوگ خود کچے کے ڈاکوؤں تک پہنچ جاتے ہیں

کِرت کا تعلق ایک پنجابی خاندان سے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے لیے اس بارے میں بات کرنا اس لیے اہم تھا کیوںکہجنوبی ایشیائی کمیونٹی کے لوگ ابھی بھی شادی سے پہلے محبت اور رومانوی تعلقات کو معیوب سمجھتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’ہم ان مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ باقی معاشرہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔ اس وجہ سے لوگ یہ تکلیف خاموشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کی کہانی پران کے والد کا ردعمل ایک اچھی مثال ہے۔

’انھیں معلوم ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے۔ کیونکہ اگرانھیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑے اور انھیں پتہ چلے کے یہ حقیقت کتنی دردناک ہے تو انھیں بہت تکلیف پہنچے گی۔‘

کِرت نے کہاکہ ’میں اپنے والد سے بہت محبت کرتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی پرورش مختلف اقدار کے ساتھ ہوئی تھی۔‘

کِرت نے بتایا کہ اس بارے میں ان کی براہ راست ’اصل بوبی‘ سے ابھی بات نہیں ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں بھی کوئی اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔

ان کا خیال ہے کہ اگر وہ کسی اور کمیونٹی سے تعلق رکھتیں تو شاید محبت میں کم از کم اس طرح کا دھوکا نہ کھاتیں۔

’میرے فیصلے مختلف ہوتے۔ براداری کی جانب ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ آپ پر فیملی کر طرف سے (شادی کا) دباؤ ہوتا ہے۔‘

’میں خود کو کمزور نہیں سمجھتی‘

جب نیٹ فلکس پر ان کی دستاویزی فلم رلیز ہوئی تو کچھ لوگوں کا منفی رد عمل سامنے آیا۔ تاہم کِرت نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں لوگ براہ راست ان سے آ کر بات کریں۔

’اگر آپ کو میں کہیں دکھ جاؤں تو میرے پاس آئیں۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اگر آپ کچھ ایسا کہنا چاہتے ہیں جو شاید مجھے متنازع لگے گا تب بھی کوئی بات نہیں۔ ہم اس پر تفصیل سے بات کر سکتے ہیں۔‘

جب کِرت سے پوچھا گیا کہ ایک پوڈکاسٹ اور نیٹ فلکس پر اپنی روداد سنا کر انھیں سکون ملا تو انھوں نے کہا کہ کچھ خاص نہیں۔

نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم میں اپنے کردار کی عکاسی کے لیے جب سِمرن سے پوچھا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کردار کسی اور اداکارہ نے نبھایا ہے۔

کرت نے اپنی کزن سمرن کے خلاف کیس فائل کیا تھا۔ کیس کے آخر میں کرت سے سمرن نے معافی مانگی اور انھیں کچھ معاوضہ بھی ادا کیا۔

نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم میں سمرن کی جانب سے دیا گیا ایک بیان شامل کیا ہے۔

بیان میں لکھا ہے کہ ’اس معاملے میں ایسے واقعات شامل ہیں جو اس وقت شروع ہوئے جب وہ ایک سکول کی طالبہ تھیں۔ وہ اسے ایک نجی معاملہ سمجھتی ہے اور اُن باتوں پر سخت اعتراض کرتی ہیں جو ان کی نظر میں محض بے بنیاد اور نقصان دہ الزامات ہیں۔‘

کِرت کہتی ہیں کہ سمرن پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ سمرن کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

انھوں نے کہاکہ ’مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ وہ شخص آزاد ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں ابھی تک سمجھ نہیں آتا کہ سمرن نے ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا نہ ہی انھیں لگتا ہے کہ وہ کمیونٹی میں اپنے خلاف مہم کی اصل وجہ کبھی جان پائیں گی۔

’مجھے لگتا ہے میں بہت پہلے ہار مان چکی تھی۔ وہ شخص جس حد تک گیا آپ اس کی کوئی بھی دلیل نہیں دے سکتے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ کسی کی تکلیف کا مزاق اڑا کر کسی کو کیسے مزا آ سکتا ہے۔

لیکن ان سوالات کے جوابات نہ ملنے کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ زندگی کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔

’میں انتھک کوشش کر رہی ہوں کے میری زندگی اور کیریر دوبارہ بن جائے۔‘

اںھوں نے کہا کہ اگر ان کے ساتھ یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو شاید عمر کے اس حصے میں اںھیں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی جتنی اب کرنی پڑ رہی ہے۔

لیکن انھوں نے کہا کہ وہ بیچاری نہیں ہیں۔

’میں ایسی سوچ نہیں رکھتی کہ میں کمزور ہوں۔ میں ایسا شخص نہیں بننا چاہتی۔ میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتی رہوں گی۔‘

’پیار میں دھوکہ ہو سکتا ہے مگر میں نے اپنے آپ کو محبت کی کہانی میں بہک جانے دیا‘رومانوی فراڈ سے کیسا بچا جائے؟ ’میں نے اس کی مدد کے لیے اپنی جمع پونجی کے علاوہ قرض بھی لیا‘’چالیس ہزار پاؤنڈ اس شخص کو دے دیے جس سے کبھی نہیں ملی‘’کبھی کبھی ذاتی تصاویر بھی بھیجتی تھی‘: فرضی خاتون کی محبت جو بزرگ شخص کو سڑک پر لے آئی’پگ بچرنگ‘ کا آن لائن فراڈ جہاں جعلساز سرمائے کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں‘پاکستانی خواتین کو رشتہ ایپس پر مردوں کے دھوکے کا سامنا: ’خود کو کنوارہ ظاہر کرنے والے شخص کی اپنی 17 سال کی بیٹی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More