آئینی ترمیم: سخت ترین سے ’قابل قبول‘ ہونے کا سفر کیسے طے ہوا؟

اردو نیوز  |  Oct 22, 2024

پاکستان کی پارلیمنٹ نے بالاخر آئین میں 26ویں ترمیم منظور کر لی ہے اور اب یہ ملک کے آئین کا حصہ ہے۔ تاہم 15 ستمبر کو جب پہلی مرتبہ حکومت نے اس ترمیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو مولانا فضل الرحمان کی پارٹی جے یو آئی نے حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد ایک طویل مشاورتی سلسلہ شروع ہوا اور بالاخر یہ ترمیم ایک ڈرامائی انداز میں 20 اور 21 اکتوبر کی درمیانی رات دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی۔

جب مولانا فضل الرحمان نے اتوار کی شام بالاخر اس بل کی حمایت کا اعلان کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ترمیم ایک کالے سانپ کی طرح تھی جس کے دانت اور زہر اب نکال دیا گیا ہے۔ اور یہ مسودہ وہ ہے جسے تحریک انصاف نے بھی ’قابل قبول‘ قرار دیا تھا۔‘

ابھی تک یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے پہلے مسودے سے لے کر منظور ہونے والا یہ چوتھا ترمیم شدہ مسودہ ہے جس میں سے ایسی چیزیں نکالی گئی ہیں جو ’ظالم تھیں‘۔

اگر 15 ستمبر کو سامنے آنے والے مسودے اور منظور شدہ مسودے کا موازنہ کریں تو سب سے بڑی تبدیلی جو نظر آتی ہے وہ فیڈرل آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ ہے۔ سپریم کورٹ کے برابر نئی آئینی عدالت بنانے کے لیے اس مسودے کے ذریعے ترامیم کی جانی تھیں۔ اس نئی عدالت کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم اور صدر کے پاس تھا۔

16 اکتوبر کو کراچی میں مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک طویل ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ ایک 26 ویں ترمیم کے مسودے پر دونوں پارٹیوں کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے۔ اس وقت تو کوئی تفصیل سامنے نہیں کہ آخر وہ کیا تبدیلیاں تھیں جو پہلے مسودے میں کی گئیں۔ یہ دوسرا مسودہ تھا جس کی بازگشت سنائی دی۔

تاہم جلد ہی یہ خبریں باہر آ گئیں جن میں کہا گیا کہ آئینی عدالت بنانے کا خیال ہی مسودے سے نکال دیا گیا ہے اور اب اس کی جگہ آئینی بینچ بنیں گے جو سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں کام کریں گے۔ اس مسودے کو جب جے یو آئی نے تحریک انصاف کے ساتھ شیئر کیا تو اس میں مزید کانٹ چھانٹ کی گئی۔ تاہم بنیادی بات یہی رہی کہ نئی عدالت بنانے کا فیصلہ واپس ہو چکا تھا۔

ایک اور بات جو پہلے مسودے میں نظر آئی لیکن فائنل مسودے میں نہیں ہے وہ قومی سلامتی سے متعلق افسران کی عدالتوں میں پیشی کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ شق دوسرے مرحلے پر نکالی گئی یا تیسرے پر۔ اسی طرح ججز کی تعیناتی پارلیمانی کمیٹی جو میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پہلے ڈرافٹ میں نہیں تھی۔ اس میں یہ اختیارات وزیراعظم اور صدر کے پاس تھے۔

ایک اور بڑی تبدیلی جو پہلے اور آخری ڈرافٹ میں نظر آتی ہے وہ کسی بھی ہائی کورٹ سے مقدمہ دوسری کسی ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس شق کو بھی نکال دیا گیا۔ تاہم نئے مسودے میں سپریم کورٹ کسی بھی ہائی کورٹ کا مقدمہ اپنے پاس منگوا سکتی ہے۔

یہ وہ نقطے ہیں جو پہلے اور آخری ڈرافٹ کے موازنے سے نکالے جا سکتے ہیں۔ تاہم مزید چھوٹی بڑی تبدیلیوں کے مسودے پبلک نہیں کیے گئے، اس لیے ابھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ساری تبدیلیاں پہلے کر لی گئی تھیں یا ان کو آہستہ آہستہ عمل میں لایا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More