علیزہ حیات ایک نوجوان انٹر پرینیور اور فری لانسر ہیں جو اسلام آباد سے اپنا ایک آن لائن کاروبار چلا رہی ہیں۔ علیزہ اپنے آن لائن پلیٹ فارم پر خواتین کو خریداری کے لیے مختلف ملبوسات کی پیشکش کرتی ہیں۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے ملبوسات منگوا کر اُنہیں اسلام آباد میں آن لائن فروخت کرتی ہیں۔
حالیہ عرصہ کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل پیدا ہونے کی وجہ سے علیزہ کا کاروبار متاثر ہونا شروع ہوا۔ پھر اُنہیں اپنی ایک سہیلی نے سست انٹرنیٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وی پی این کے استعمال کا مشورہ دیا۔
وی پی این کے استعمال کے بعد جہاں اُن کے لیے ویب سائٹ کا استعمال آسان ہوا تو وہیں آئے دن کی انٹرنیٹ مسائل سے بھی اُنہیں وقتی ریلیف مل گیا۔
اتوار کو جب پاکستان میں وی پی اینز نے کام کرنا چھوڑ دیا تو علیزہ کی کاروباری سرگرمیاں بھی عارضی طور رُک گئیں اور اُنہیں اپنا آن لائن کاروبار چلانے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو اُن کے لیے خاصی پریشانی کا سبب بنا۔
علیزہ حیات کو بھی سینکڑوں پاکستانیوں کی طرح اب اس بات پر تشویش ہے کہ کیا اب صرف رجسٹرڈ وی پی این ہی چل سکیں گے اور اس صورتحال میں اُن کے کاروبار کا مستقبل کیا ہو گا؟
اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک ڈائریکٹر نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ اتوار کو فائر وال یعنی ویب مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے آزمائشی بنیادوں پر غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بند کیا گیا تھا۔
اُنہوں نے وی پی این کی رجسٹریشن کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ویب مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کے ساتھ ہی سال 2020 سے ہی وی پی اینز کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تھا۔
اُنہوں نے وی پی اینز کی رجسٹریشن سے متعلق اعداد و شمار پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اب تک 20 ہزار کے لگ بھگ وی پی اینز کی رجسٹریشن مکمل کر چکُی ہے۔
’وی پی اینز کی رجسٹریشن کمپنیوں کی جانب سے بھی کروائی جا رہی ہے جبکہ عام شہری بھی اگر گھر سے آن لائن کام کرتے ہیں تو وہ خود بھی اپنے زیر استعمال وی پی اینز رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔ پی ٹی اے کے مطابق اس وقت 1422 سے زائد ایسی کمپنیاں ہیں جو اپنے زیرِاستعمال وی پی اینز کو رجسٹرڈ کروا چکی ہیں۔‘
اسلام آباد میں ہی مقیم ویڈیو ایڈیٹنگ کی خدمات فراہم کرنے والے نوجوان حذیفہ احمد بھی انٹرنیٹ کے ذریعے فری لانسگ کرتے ہیں۔ حذیفہ بھی انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے وی پی این کا سہار لے کر اپنے صارف کو آن لائن خدمات فراہم کرتے ہیں۔
تاہم جب اُن کے زیر استعمال وی پی این نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تو اُن کا کام بھی خاصا متاثر ہوا کیونکہ صارف تک پہچنے میں دُشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
حذیفہ احمد بھی اس حوالے سے فکرمند ہیں انٹرنیٹ سست روی اور وی پی اینز کی رجسٹریشن کی صورتحال کے دوران اُن کے کاروبار کا مستقبل کیا ہو گا؟
اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے حکام نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ وہ آن لائن کاروبار کرنے والے شہریوں یا کمپنیوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر وی پی اینز کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔
آئی ٹی ماہرین کے مطابق تغیر پذیری کی وجہ سے ٹیکنالوجی کو مستقل بند نہیں کیا جا سکتا۔ فائل فوٹو: اے ایف پیون ونڈو رجسٹریشن کے تحت وی وی پی اینز کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے: پی ٹی اے
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے وی پی اینز کی رجسٹریشن کے حوالے سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں بتایا ہے کہ کمپنیاں یا عام شہری پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی ویب سائٹ پر ون ونڈو آپریشن کے تحت وی پی این رجسٹر کروا سکتی ہیں۔
پی ٹی اے کے مطابق ویب سائٹ پر وی پی این اور آئی پی ایڈریس کی رجسٹریشن کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ شہری ویب سائٹ پر موجود ’آئی پی اور وی پی این رجسٹریشن‘ کے ٹیب پر کلک کرنے کے بعد اپنا اکاؤنٹ بنا کر وی پی این رجسٹریشن کا عمل شروع کر سکتے ہیں جس کے دوران اپنے وی پی این اور آن لائن کاروبار کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرنا ضروری ہوتی ہیں۔
’وی پی اینز کی رجسٹریشن اور اُنہیں بلاک کا کوئی مستقل حل نہیں‘
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر روحان ذکی سمجھتے ہیں کہ وی پی این کی رجسٹریشن اور غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کرنے کے لیے دور رس بنیادوں پر کوئی حل نہیں۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’وی پی اینز کی ٹیکنالوجی کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں اگر یہ حکومت کے بس میں ہوتا تو وہ سارے وی پی اینز بلاک کر چُکی ہوتی۔‘
روحان ذکی کے مطابق حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں وی پی اینز بلاک کر سکے اگر حکومت ایسا کرتی بھی ہے تو آئی ٹی ایکسپرٹ آدھے گھنٹے میں اپنا ایک نیا وی پی این تیار کر سکتے ہیں۔
’ٹیکنالوجی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘
حکومت کی جناب سے غیر رجسٹرڈ وی پی این کو بلاک کرنے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر روحان ذکی کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر 6 ماہ بعد اپنے اندر جدت لے آتی ہے۔اگر ابھی کسی ٹیکنالوجی پر تھوڑے وقت کے لیے پابندی لگا لی بھی جائے تو چھ ماہ بعد اُسی طرز پر ایک نئی ٹیکنالوجی سامنے آ جائے گی۔
اُنہوں نے حکومت کی جانب سے وی پی این کو رجسٹر کرنے کے معاملے پر اپنے تجزیے میں بتایا کہ ’ہو سکتا ہے حکومت اس وقت استعمال ہونے والے وی پی این کو اپنی کتاب میں نوٹ ڈاؤن کر رہی ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر اُنہیں سست کیا جا سکے جس کو وی پی این کی رجسٹریشن کا نام دیا گیا ہے۔‘
’اگر وی پی این نہیں چلتے تو صارف ڈارک ویب کی طرف جا سکتے ہیں‘
روحان ذکی کے خیال میں اگر حکومت وی پی این پر مکمل پابندی لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو صارف ’ٹار‘ کے استعمال کو ترجیح دینے لگیں گے ’جو آپ کو ڈارک ویب تک رسائی دے سکتے ہیں جو یقینی طور پر عام صارف کے لیے سائبر سکیورٹی رسک تصور ہو گا۔‘