علیمہ خان کی جانب سے فائنل کال کا اعلان: کیا عمران خان نے پارٹی رہنماؤں پر عدم اعتماد کر دیا؟

اردو نیوز  |  Nov 13, 2024

ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی قیادت اپنے ہی کارکنان کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی کے لیے تحریک چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں، عمران خان کی جانب سے میں حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کی حتمی کال دے دی گئی۔ تاہم یہ اعلان پارٹی کی سینیئر رہنماؤں کے بجائے عمران کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کیا ہے۔

کارکنان کی جانب سے تنقید کے ساتھ ساتھ بعض پارٹی رہنماؤں کی آپس میں چپقلش کی خبریں بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

بدھ کو اڈیالہ جیل میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کی سماعت  اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی۔ سماعت میں شرکت کے لیے عمران خان کی بہنیں اڈیالہ جیل پہنچیں۔ سماعت اگرچہ بغیر کارروائی کے ملتوی ہو گئی لیکن اس موقع پر عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے اسلام آباد کی جانب مارچ کی حتمی کال دینے کا اعلان کر دیا۔

علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان نے فائنل کال دے دی ہے اور ایک ایک کارکن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں نکلنا ہے۔

احتجاج کی تفصیلات بتاتے ہوئے عمران خان کے وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ ’عمران خان نے اسلام آباد مارچ کے لیے کمیٹی قائم کردی ہے تاہم انہوں نے کمیٹی کے ممبران کے نام منظر عام پر لانے سے انکار کیا ہے، بانی نے کہا کہ نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ پھر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں 24  نومبر کو احتجاج کا مرکز اسلام آباد ہوگا۔ احتجاج تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے۔

عمران خان نے واضح کیا ہے کہ احتجاج کی یہ فائنل کال ہے۔ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم واپس لی جائے اور ہمارامینڈیٹ واپس کیا جائے، بغیر ٹرائل گرفتار پارٹی قیادت، رہنماؤں اور کارکنان کو رہا کیا جائے۔ احتجاج ختم کرنے کا اختیار ایک کمیٹی کو ہوگا۔‘

بعض حلقوں کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنماؤں پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کی زبان بولتے ہیں۔ ایسے میں علیمہ خان سے فائنل کال کا اعلان کتنی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے پارٹی کے اندرونی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے واضح کیا ہے کہ احتجاج کی یہ فائنل کال ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے عملی طور پر اپنی جماعت کی دستیاب قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے تاہم علیمہ خان کے ذریعے اعلان کرکے ان کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

اردو نیوز سے گفتگو میں تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’بنیادی طور پر تو شک تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کمپرومائزڈ ہے اور دونوں طرف سے کھیل رہی ہے۔ عمران خان نے علیمہ خان کے ذریعے فائنل کال کا اعلان کروا کر اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے کہ پارٹی کے اندر مسائل موجود ہیں۔ انھوں نے پارٹی رہنماؤں کے بجائے اپنی بہن پر اعتماد کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ عمران خان نے احتجاج کے لیے کمیٹی قائم کی ہے جو فیصلے کرے گی لیکن اس کمیٹی کی اصل سربراہ بھی علیمہ خان ہی ہوں گی کیونکہ اب عمران خان اپنی پارٹی کی قیادت کی جانب سے بداعتمادی یا خدشات کا اظہار کر چکے ہیں اور مزید ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔‘

تجزیہ کار اور سابق نگراں وزیراعلیٰ حسن عسکری نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج کو لے کر پارٹی کے اندر بہت سی مشکلات اور مسائل موجود ہیں لیکن اگر کوئی احتجاج ہوا تو وہ موجودہ پارٹی قیادت ہی کرے گی اور وہی احتجاج کی قیادت کرتے نظر آئیں گے اور علیمہ خان بطور لیڈر سامنے نہیں آئیں گی۔‘

’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علیمہ خان ابھی اس قدر سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہیں کہ وہ اتنی بھاری ذمہ داری اٹھا سکیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی درست ہے کہ علیمہ خان سے احتجاج کا اعلان کروا کر عمران خان نے پارٹی کے اندرونی مسائل کو سنجیدہ لیا ہے اور تسلیم بھی کر لیا ہے کہ قیادت میں مسائل موجود ہیں۔‘

اس صورت حال میں جب تحریک انصاف کی دستیاب قیادت پر عمران خان بھی بداعتمادی کا اظہار کر چکے ہیں، پارٹی کے اندر اختلافات اور مسائل بھی موجود ہیں تو کیا احتجاج کی حتمی کال کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے؟

حسن عسکری کے مطابق علیمہ خان سے احتجاج کا اعلان کروا کر عمران خان نے پارٹی کے اندرونی مسائل کو سنجیدہ لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ نے تو واضح کیا ہے کہ اب کی بار اس وقت تک احتجاج ختم نہیں ہوگا جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے لیکن رسول بخش رئیس ماضی قریب کے تحریک انصاف کے احتجاج کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک لاکھوں لوگ نہیں نکلیں گے حکومت پر اس احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

’بظاہر اب کی بار بھی جلسہ یا احتجاج ہوگا اور ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں لوگ بھی نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ لوگوں نے ووٹ دے کر اپنا فرض پورا کر دیا تھا منتخب لوگ ووٹرز کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے اس لیے وہ ان سے مایوس ہیں۔‘

حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ’اگر تو اس احتجاج کا مقصد حکومت کو گھر بھیجنا ہے تو وہ تو ایک جماعت کے احتجاج سے گھر نہیں جا سکتی۔ البتہ احتجاج کے نتیجے میں اگر تحریک انصاف دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہو جائے تو عدالتوں کے ذریعے عمران خان کو ریلیف مل سکتا ہے جس کے لیے احتجاج بھی اتنا زور دار تو ہونا چاہیے کہ حکومت دباؤ محسوس کرے۔ یہ احتجاج رہائی کا وسیلہ تو بن سکتا ہے لیکن اس احتجاج کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی بڑی وجہ بھی پارٹی کے اندرونی مسائل ہی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More