کراچی کے علاقے پیر الٰہی بخش کالونی (پی آئی بی کالونی) میں افغان کھانوں کے مشہور ہوٹل کی انتظامیہ پریشان ہے۔ دوپہر سے شام ہو گئی ہے، سورج ڈھل چکا ہے اور چاند کی کرنیں ہر سو پھیل گئی ہیں۔شہر کے دور دراز علاقوں سے کھانے کے شوقین پی آئی بی کالونی کے اس مشہور ہوٹل کا رُخ کر رہے ہیں، کسی کو افغان پلاؤ کھانا ہے تو کوئی نمکین روش اور سیخ بوٹی کھانے کے لیے بے تاب ہے۔ ہوٹل کے تقریباً تمام ہی ٹیبلز پر شہریوں کا رش ہے اور آرڈر دینے کے لیے ویٹرز کو آوازیں لگائی جا رہی ہیں۔ہوٹل کے کاؤنٹر پر موجود شخص مسلسل اپنے موبائل فون سے کسی کو کال ملانے کی کوشش کر رہا ہے مگر دوسری جانب رابطہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے وہ پریشان ہے۔
ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ معمول کے کھانے تیار کر لیے جائیں لیکن کچھ خاص پکوان ہیں جو اب تک تیار نہیں ہو سکے کیوںکہ انہیں تیار کرنے والا شیف ہوٹل نہیں پہنچ سکا۔
کچھ ہی دیر میں ہوٹل انتظامیہ نے ویٹرز کو یہ ہدایات جاری کر دیں کہ آج منیو میں افغان کھانے شامل نہیں کیے گئے۔ چناںچہ ان کھانوں کا آرڈر نہ لیا جائے۔ویٹرز نے ہوٹل میں موجود افراد کو بتایا کہ آج ہوٹل میں افغان کھانے دستیاب نہیں ہوں گے اس لیے ان سے ہٹ کر ہی اشیا کا آرڈر دیا جائے۔ہوٹل پر موجود بیشتر افراد کچھ کھائے بنا ہی چلے گئے۔ ابھی ہوٹل میں چند افراد موجود تھے کہ اسی اثنا میں ہوٹل کے کاؤنٹر پر موجود شخص کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ یہ اس ہوٹل اور سوشل میڈیا پر مقبول افغان شیف مقصود کی کال تھی۔انہوں نے ہوٹل انتظامیہ کو بتایا کہ ’ان کے ساتھ گذشتہ رات ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے، رات گئے جب وہ ہوٹل سے اپنا کام ختم کر کے گھر جا رہے تھے تو ہوٹل سے کچھ فاصلے پر پولیس کا ناکہ لگا ہوا تھا جس پر اہل کاروں نے انہیں روکا اور ان کے لہجے کو دیکھتے ہوئے ان سے پوچھ گچھ کی۔ سوال جواب میں پولیس کو انہوں نے بتایا کہ وہ مشہور شیف ہیں جو افغان کھانے بنانے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے افغان کا لفظ سن کر انہیں روک لیا، اور ان سے شناختی دستاویزات سمیت دیگر کاغذات کا مطالبہ کیا۔‘مقصود خیبر کے مطابق انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ یہیں قریب ہی ایک ہوٹل پر کام کرتے ہیں اور ان کا گھر بھی کچھ فاصلے پر ہی ہے۔ ہوٹل پر کام ختم کرنے میں اکثر تاخیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ وہ دیر سے گھر جا رہے ہیں۔افغان شیف نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس نے مبینہ طور پر ان کی بات سننے سے انکار کرتے ہوئے ان سے پیسوں کا تقاضا کیا، اور ہوٹل سے ملنے والی اجرت ان سے زبردستی لے لی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس اہلکاروں نے اس دوران ان پر تشدد بھی کیا۔‘اس واقعے کے بعد مسعود خیبر کی اہلیہ رابعہ بی بی کی جانب سے کراچی پی آئی بی پولیس سٹیشن میں اس واقعہ کے خلاف درخواست دی گئی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ گذشتہ 20 سال سے اپنے شوہر کے ہمراہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔انہوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’ان کے شوہر مقصود خیبر 12 نومبر کی رات اپنے ہوٹل سے موٹر سائیکل پر گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ مین یونیورسٹی روڈ پر نیو ٹاؤن تھانے کے قریب پولیس کی جانب سے انہیں روکا گیا، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا اور ان سے پیسے بھی چھین لیے گئے۔‘رابعہ بی بی نے اپنی درخواست میں تین پولیس اہلکاروں کو نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔پولیس کے اعلٰی افسروں کو جب اس واقعے کے بارے میں علم ہوا تو ان کی جانب سے خاتون کی درخواست پر فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے۔پی آئی بی پولیس نے خاتون کی نشاندہی پر تین پولیس اہلکاروں عبدالرحمٰن، شاہ محمد اور ایان اقبال کو حراست میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف ایس ایچ او تھانہ پی آئی پی کالونی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔