علی عباس راولپنڈی میں ایک نجی کمپنی کے ملازم ہیں اُنہوں نے اپنا سیلری اکاؤنٹ راولپنڈی شہر میں ہی موجود ایک نجی بینک میں کھلوا رکھا ہے جسے وہ اپنی ماہانہ تنخواہ اور دیگر مالی لین دین کے استعمال کرتے ہیں۔
32 سالہ علی عباس ہر ماہ کے آغاز پر اپنی تنخواہ اکاؤنٹ میں آنے پر نجی بینک کے اے ٹی ایم سے کچھ رقم کیش نکالتے ہیں جس سے وہ گھر کا سودا سلف اور دیگر اخراجات پورا کرتے ہیں۔
علی عباس کو جب اکتوبر کی پہلی تاریخ کو اپنے بنک کی جانب سے تنخواہ اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا پیغام آیا تو اُنہوں نے حسب معمول اپنے بینک کی اے ٹی ایم سے کچھ کیش نکلوانے کا ارادا کیا۔
اُنہوں نے اُس دن دفتر سے جلدی چھٹی لے لی اور پھر اُن کے گھر کے راستے میں ہی آنے والے نجی بینک کے اے ٹی ایم سے کیش نکلوانے کے لیے برانچ کے باہر پہنچ آئے۔
اُنہوں نے اے ٹی ایم سے 30 ہزار روپے نکلوائے جس میں 5 ہزار روپے کے 5 نوٹ موجود تھے۔ وہ کیش نکلوانے کے بعد سیدھے گھر پہنچ گئے اور پھر اپنی فیملی کے ساتھ مصروف ہو گئے۔
علی عباس اگلے روز اپنی بیوی کے ہمراہ قریبی سٹور پر گئے جہاں سے انہوں نے گھر کا سودا سلف خریدا۔ اُنہوں نے کیش کاؤنٹر پر اپنے سودا سلف کے لیے رقم کی ادائیگی کی تو سٹور کے کیشیئر نے اُن کے 5 ہزار کے نوٹوں کی بغور جانچ پڑتال شروع کر دی۔
علی عباس نے سودا سلف کی خریداری پر 5 ہزار کے 4 نوٹ یعنی 20 ہزار روپے کیشیئر کو دیے تھے جس میں سے 5 ہزار کے 2 نوٹوں کو ایک طرف رکھ کر کیشیئر نے اپنے مینیجر کو بلا لیا اور پھر دونوں نے مل دوبارہ اُن نوٹوں کا معائنہ کیا۔
بالآخر سٹور کے مینیجر اور کیشیئر نے علی عباس کو بتا دیا کہ آپ کے 5 ہزار کے 2 نوٹ یعنی 10 ہزار روپے جعلی ہیں۔ یہ بات علی عباس کے لیے باعث حیرت تھی کیونکہ اُنہوں نے یہ رقم تو گزشتہ روز بنک کے اے ٹی ایم سے نکوائی تھی۔
علی عباس کی طرح پاکستان کے کچھ دیگر شہروں سے بھی اسی طرح کے چند کیسز سامنے آئے ہیں جس میں بینک کے اے ٹی ایم سے نکلوائی جانے والے رقم میں سے 5 ہزار کے دو سے تین جعلی نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔
اس بات کی تصدیق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھی ہوئی جہاں سینیٹر منظور کاکڑ نے سٹیٹ بینک حکام اور ایک نجی بینک کے سی ای او سے استفسار کیا تھا کہ اے ٹی ایم سے جعلی نوٹ کیسے برآمد ہو سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے جاننے والے ایک نوجوان کا ذکر کیا جس نے نجی بنک کے اے ٹی ایم سے کیش نکلوائی اور اُسے بعد میں معلوم ہوا کہ پانچ ہزار کے 3 نوٹ جعلی ہیں۔
حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں جعلی کرنسی کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سٹیٹ بینک حکام کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں 5 ہزار کے جعلی نوٹ زیادہ استعمال ہو رہے ہیں۔ جعلی کرنسی کی روک تھام کے لیے سٹیٹ بینک موجودہ کرنسی نوٹوں میں جدید فیچرز کی شمولیت اور پھر پلاسٹک کرنسی کو مارکیٹ میں لانے جیسے اقدامات پر کام کر رہا ہے۔
راولپنڈی میں نجی بینک کے اے ٹی ایم سے 5 ہزار کے 2 جعلی نوٹ نکلنے والے معاملے پر متاثرہ شہری علی عباس نے اٗردو نیوز کو بتایا ہے کہ اُن کے لیے اے ٹی ایم سے جعلی نوٹ نکلنا ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پہلے کبھی اُن کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا نہ ہی اُنہوں نے کسی ایسے واقعے کے بارے میں کچھ سُنا تھا تاہم ساتھ ہی اُنہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ آنے والے پیر کو ہی بینک کی برانچ جائیں گے اور سٹاف کے سامنے سارا معاملہ رکھیں گے۔
علی عباس اگلے سوموار صبح سویرے متعلقہ بینک پہنچ گئے اور برانچ مینیجر کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق آگاہ کیا۔ علی عباس کے مطابق ابتدا میں تو بنک مینیجر نے یہ ماننے سے انکار کیا تاہم میرے اصرار پر اُنہوں نے سی ٹی ٹی وی فوٹیج نکلوائی جس میں مجھے بینک کے اے ٹی ایم سے کیش نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
’اب اُنہیں اس بات کی تو تسلی ہو گئی تھی کہ میں نے اُن کے اے ٹی ایم سے کیش نکلوائی ہے تاہم ابھی بھی میرے پاس کوئی شواہد موجود نہیں تھے کہ 5 ہزار کے جعلی نوٹ وہی ہیں جو میں نے اس سے ٹی ایم سے نکلوائے ہیں۔ اس لیے بینک مینیجر نے مجھے مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کل دوبارہ آنے کی درخواست کی اور بتایا کہ اس دوران ہم معاملے کی اندرون خانہ تحقیقات کریں گے۔
علی عباس جب اگلے دن دوبارہ نجی بنک کی برانچ گئے تو اُنہیں بحث کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ بنک مینیجر اُن کو دس ہزار کے جعلی نوٹوں کے بدلے میں الگ سے 10 ہزار روپے ادا کر دیے۔
اے ٹی ایم سے جعلی کرنسی پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی نوٹس لیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پیبینک کے اے ٹی ایم میں جعلی نوٹ کیسے آ سکتے ہیں؟
اُردو نیوز نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اسلام آباد کے ایک نجی بینک میں بطور مینیجر کام کرنے والے اعجاز احمد سے رابطہ کیا۔ اُنہوں نے بینکوں کے اے ٹی ایم میں ڈالی جانے والی کیش سے متعلق بتایا کہ عام طور پر اے ٹی ایم میں سٹیٹ بینک سے لائی جانے والی کیش یا روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ سے آنے والی کیش ڈالی جاتی ہے۔
اُنہوں نے سٹیٹ بینک سے آنے والی کیش میں تو جعلی کرنسی کے امکانات کو بہت کم قرار دیا ہے تاہم اُن کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ سے آنے والی کیش میں جعلی نوٹ شامل ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اے ٹی ایم سے نکلنے والے جعلی نوٹ بھی مارکیٹ سے آنے والے کیش ہو گی۔
کیا اے ٹی ایم میں کیش ڈالنے سے قبل کرنسی کے اصل یا جعلی ہونے کی تسلی نہیں کی جاتی؟
اعجاز احمد نے اُردو نیوز کے اس سوال پر کہ کیا اے ٹی ایم میں کیش ڈالنے سے قبل کرنسی کی اصل یا جعلی ہونے کی تسلی نہیں کی جاتی کے جواب میں واضح کیا کہ کسی بھی بینک میں آنے والی رقم کو مشین اور انسانی ہاتھ دونوں طریقوں سے چیک کیا جاتا ہے کہ کہیں کوئی نوٹ جعلی نہ نکلے۔
اسی طرح بنک کے اے ٹی ایم میں بھی کیش ڈالنے سے قبل عمومی طور پر بنک کے کیشیئر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اّس کرنسی کا تسلی سے معائنہ کرے۔ تاہم انسانی غلطی کی وجہ سے یا بعض اوقات مشین بھی ایک بار چیک کرنے سے جعلی کرنسی کی نشاہدہی کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی اور یوں جعلی نوٹ بھی اے ٹی ایم مشین تک جا سکتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو سٹیٹ بینک حکام اور متعلقہ نجی بینک کے سی ای او نے بریفنگ میں بتایا تھا کہ اے ٹی ایم میں سے جعلی نوٹ نکلنے کے معاملے پر سخت اقدامات اٹھائیں گے تا کہ اے ٹی ایم سمیت بینکوں میں جعلی کرنسی کے داخلے کاکوئی راستہ نہ بچے۔