امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی پر اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی ادارے غیریقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں برائے صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے لیے فنڈنگ روک دی تھی جبکہ ثقافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں سے امریکہ کی رکنیت ختم کر دی تھی۔ٹرمپ نے عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹو او) کے قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے چین اور اپنے اتحادی ممالک پر عائد ٹیرفز میں اضافہ کر دیا تھا۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک امریکہ ہے جو اس کے بجٹ کا 22 فیصد ادا کرتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے عہدے کے لیے ریپبلکن رکن کانگرس الیز سٹیفنک کو منتخب کیا ہے جو بین الاقوامی ادارے کو دی جانے والی امریکی فنڈنگ کے ’مکمل جائزے‘ کا مطالبہ کر چکی ہیں۔الیز سٹیفنک اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین کے لیے بھی امریکی حمایت روکنے کا کہہ چکی ہیں۔امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ڈائریکٹر رچرڈ گووان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر نہیں دیکھیں گے جہاں سنجیدہ سیاسی معاملات پر بات چیت ہو سکے بلکہ اپنے قدامت پسندانہ عالمی ایجنڈے کے لیے اس کا غلط استعمال کریں گے۔ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں امریکہ کو 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدوں سے نکال لیا تھا اور صدر بائیڈن کے شمولیت اختیار کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہی توقع کی جا رہی ہے کہ ریپبلکن صدر دوبارہ علیحدگی اختیار کریں گے۔ٹرمپ نے پہلی مدت میں چند یو این ایجنسیوں کے لیے فنڈنگ روک دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پیٹرمپ نے امریکہ کو اقوام متحدہ کی ثقافتی اور تعلیمی ایجنسی سمیت انسانی حقوق کی کونسل سے بھی یہ کہتے ہوئے علیحدہ کر دیا تھا کہ یہ اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتی ہیں۔ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے ادراہ برائے پاپولیشن فنڈ کو دی جانے والی فنڈنگ اس دعوے پر بند کر دی تھی کہ ادارہ استقاط حمل کے لیے بھی فنڈ فراہم کرتا ہے۔ تاہم ادارے نے وضاحتی بیان جاری کیا تھا کہ استقاط حمل کے حوالے سے کوئی پوزیشن نہیں رکھتے جس کے بعد امریکہ نے دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔سال 2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ’امریکہ سب سے پہلے‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے صدر کا منصب سنبھالا تو دنیا کے حالات قدرے مختلف تھے جبکہ مشرق وسطیٰ، یوکرین اور سوڈان میں جنگیں پھوٹنے کے باعث نئے چیلنجز جنم لے چکے ہیں۔اس دوران شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ ہوا اور ایران کی ایٹمی پروگرام کے حصول کے لیے کوششیں مزید تیز ہو گئیں۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے درمیان تقسیم مزید واضح ہو گئی ہے اور نہ ہی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ان ممالک کی جانب سے کسی قسم کی پیش رفت ہوئی ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔وائٹ ہاؤس کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا ہے کہ دنیا سرد جنگ کے دنوں میں واپس چلی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران جیسے ممالک جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو ہوا دی اور شمالی کوریا جس نے یوکرین جنگ میں روس کی مدد کی، کو روس اور چین ’فلائنگ کور‘ فراہم کرتا آیا ہے۔جان بولٹن کے خیال میں متعدد چیلنجز کی وجہ سے نامزد امریکی سفیر الیز سٹیفنک کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ’مشکل‘ صورتحال کا سامنا رہے گا۔