میلکم ایکس کے قتل میں سی آئی اے ملوث، 10 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر

اردو نیوز  |  Nov 16, 2024

امریکی سیاہ فام رہنما میلکم ایکس کی تین بیٹیوں نے والد کے قتل میں کردار ادا کرنے پر خفیہ ایجنسی سی آئی اے، تفتیشی ادارے ایف بی آئی اور نیویارک پولیس ڈیپارمنٹ سمیت دیگر پر دس کروڑ ڈالر کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق نیویارک میں مین ہیٹن کی وفاقی عدالت میں دائر مقدمے کی درخواست میں بیٹیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایجنسیاں میلکم ایکس کے قتل کی منصوبہ بندی سے نہ صرف آگاہ تھیں بلکہ اس میں ملوث بھی تھیں اور قتل کے اقدام کو روکنے میں ناکام رہیں۔

اٹارنی بین کرمپس نے میلکم ایکس کے اہل خانہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں امید کا اظہار کیا کہ وفاقی اور مقامی عہدیدار اس درخواست کو پڑھیں گے اور تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔

کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی میلکم ایکس کے 21 فروری 1965 کو ہونے والے قتل سے متعلق کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا بلکہ متعدد سوالوں نے جنم لیا ہے۔

میلکم ایکس کو نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں 39 سال کی عمر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا جب وہ کئی سینکڑوں کے مجمے سے خطاب کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ میلکم ایکس نے بعد میں اپنا نام تبدیل کر کے الحاج ملک الشہباز رکھ لیا تھا۔

سال 2021 میں میلکم ایکس کے قتل کے جرم میں تین افراد کو سزا سنائی گئی تھی جبکہ دو کو بری کر دیا گیا تھا۔

عدالت میں دائر درخواست میں اہل خانہ نے کہا ہے کہ پراسیکیوشن ٹیم نے قتل میں حکومت کے کردار کو دبانے کی کوشش کی ہے۔

درخواست میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں اور قاتلوں کے درمیان ’کرپٹ، غیرقانونی اور غیر آئینی تعلق موجود تھا‘ جو جان بوجھ کر کئی سال تک چھپایا گیا اور اس میں حکومتی ایجنسیوں نے سہولت کاری بھی کی۔

اہل خانہ نے درخواست میں مزید کہا ہے کہ قتل سے کئی دن پہلے نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر میلکم ایکس کو ملنے والی سکیورٹی ہٹا دی تھی اور قتل والے دن بھی ہال سے سکیورٹی اہلکاروں کو جان بوجھ کر نکال دیا تھا۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہال میں وفاقی ایجنسیوں کے اہلکار اور انڈر کور ایجنٹس موجود تھے لکین میلکم ایکس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More