کیا پنجابی زبان کو اب ریاستی سرپرستی حاصل ہونے لگی ہے؟ 

اردو نیوز  |  Nov 18, 2024

پاکستان میں پنجابی زبان کے چاہنے والوں کا یہ شکوہ رہا ہے کہ منظم طریقے سے ان کی زبان کو پنپنے سے روکا گیا ہے۔ خاص طور پر ’ایلیٹ سکولوں‘ میں تو پنجابی بولنے پر باقاعدہ پابندی ہے۔ تاہم پچھلے کچھ برسوں میں پنجابی زبان کی ترویج کے لیے کام کرنے والوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ ان کوششوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونے کی بھی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ 

صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت میں پنجابی کلچر ڈے کا باقاعدہ آغاز ہوا جو اب تسلسل سے ہر سال منعقد ہو رہا ہے۔

پنجاب اسمبلی نے حال ہی میں ایم پی ایز کو پنجابی میں تقاریر کرنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ سکولوں میں پنجابی زبان کو لازمی قرار دینے کی ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی ہے۔

دوسری جناب پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز پنجابی کلچر اور زبان کی ترویج کے لیے اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

پنجابی پرچار نامی ایک تنظیم جو پچھلے کئی برس سے سالانہ بین الاقوامی پنجابی کانفرنس منعقد کروا رہی ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کانفرنس میں نکھار آتا جا رہا ہے اور دنیا بھر سے پنجابی بولنے والے اکھٹے ہو کر مزید مؤثر کام کرنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ 

لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں ان دنوں بھی بین الاقوامی پنجابی کانفرنس جاری ہے۔ 

اس تین روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان نے 37 انڈین مندوبین کو ویزے جاری کیے ہیں۔ اس کانفرنس کے لیے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سے بھی درجنوں شرکاء لاہور پہنچ چکے ہیں۔ 

ساتویں مرتبہ انڈیا سے پاکستان آنے والے سہاج پریت مانگٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’اتنے سالوں سے پاکستان آ رہا ہوں اور میں نے بتدریج دیکھا ہے کہ پنجابی پر کام پہلے سے زیادہ ہو رہا ہے۔ لیکن جتنا بڑا نقصان پاکستانی پنجاب کی زبان اور شہ مکھی رسم الخط سے ایک پوری قوم کو انجان بنانے کا ہوا ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ویسے میرا خیال ہے گلوبل سطح پر پنجابی زبان کو اٹھان ملی ہے۔ جس میں بڑا کردار انڈین پنجاب کے سینما اور گلوکاروں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پنجابی مین سٹریم ہو رہی ہے۔ اور پاکستان میں جو شرم اس زبان کے ساتھ اٹیچ کی گئی تھی، وہ آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ایکٹیوسٹس بھی ان دنوں پنجابی کی ترویج کے لیے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں ان دنوں بھی بین الاقوامی پنجابی کانفرنس جاری ہے (فوٹو: اردو نیوز)

پنجابی شاعر افضل ساحر جو بین الاقوامی پنجابی کانفرنس میں شریک ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’پنجابی کے حوالے سے ریاستی پالیسی ابھی مبہم ہے۔ سوشل میڈیا پر پنجابی بولنے والوں نے اپنی پہچان خود پیدا کی ہے تو اب ریاست کو بھی کچھ ہوش آ تو رہا ہے۔ لیکن ان کی زیادہ دلچسپی انڈیا کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے میں ہے۔ اس لیے ہنس کے سکھ برادری کو ویزے جاری کرتے ہیں، یہ پنجابی سے محبت میں ویزے جاری نہیں ہوتے بلکہ اس کا پس منظر سیاسی ہے۔‘

پنجابی پرچار کے سربراہ احمد رضا پنجابی کہتے ہیں کہ ’ہماری خواہش تو بہت ہے کہ ہمیں بھی ویسے ہی سہولت پنجابی کو پھیلانے میں ملے جیسے دوسرے صوبوں میں دوسری زبانوں کو حاصل ہے۔ سندھ میں تو ایف آئی آر بھی سندھی میں لکھی جاتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ریاست اب شاید پنجابی پر مہربان ہوئی ہے لیکن اس کانفرنس میں ہم نے حکومت کے ساتھ ایک درجن میٹنگز کیں لیکن آخر میں ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ہی سارے انتظامات کرنا پڑے۔‘

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت سات ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ پنجابی بولنے والوں کی تعداد 13 کروڑ سے زائد ہے اور یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More