پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں ایک خاتون کی چہلم پر ایک پرتعیش دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تقریباً 13 ہزار سے زائد لوگوں کو کھانا کھلایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس تقریب کی ویڈیو شیئر کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس تقریب کا اہتمام گوجرانوالہ کے ایک بھکاری خاندان کی طرف سے کیا گیا تھا۔
دراصل گوجرانوالہ میں کینگرے برادری کے چھ بھائیوں کی دادی 120 سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، جن کی چالیسویں پر کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پرتعیش تقریب کی حقیقت
کینگرے برادری کے محمد امجد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی برادری پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور برادری کے افراد ملک بھر میں مختلف کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔
’ہماری برادری کی جانب سے ٹبہ نگر محمد، راہوالی ریلوے سٹیشن گوجرانوالہ کے قریب چالیسویں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہماری دادی 120 سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔ وہ غریبوں کی خدمت پر خوش ہوتی تھیں اور ان کی وصیت تھی کہ ان کے انتقال کے بعد دعوت عام کا اہتمام کیا جائے۔ ہم نے ان کی وصیت پر عمل کیا ہے۔‘
ان کے مطابق دادی سکینہ بی بی کی وصیت کے مطابق انہوں نے اپنی پوری برادری سمیت مقامی لوگوں کے لیے کھانے کا اہتمام کیا تھا جس میں عام لوگوں نے بھی شرکت کی تھی۔
محمد امجد کے مطابق اس تقریب میں ان کے خاندان کی جانب سے اپنی برادری کے سربراہ کا انتخاب بھی کیا گیا۔ ’میرے والد کے پانچ بھائی ہیں۔ حاجی لطیف میرے تایا ہیں جنہیں ہم نے اپنا سربراہ مقرر کیا ہے۔ یہ ہماری برادری کے تمام فیصلے کرتے ہیں۔ اس تقریب میں ان کی دستار بندی بھی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ملک بھر سے اپنی برادری والوں کو دعوت دی تھی۔‘
کینگرے برادری کے محمد امجد نے بتایا کہ ان کی برادری پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
ان کے مطابق ان کو بھکاری کہنا یا بھکاری برادری قرار دینا نا انصافی ہے۔
’ہماری برادری بہت بڑی ہے اور ہم سب اپنا کام کرتے ہیں، لیکن اس دن کئی عناصر ایسے تھے جو ہماری بدنامی چاہتے تھے۔ انہوں نے بغض کے باعث سوشل میڈیا پر ہمیں بھکاری مشہور کیا جبکہ ہماری برادری بڑے بڑے کاروبارسے منسلک ہیں۔‘
کینگرے برادری کیا ہے؟
حاجی لطیف کے بقول ’میرے پانچ بھائی ہیں اور ہمارے خاندان میں 45 کے قریب مرد ہیں۔ ہم سب اپنا اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ہمارا پھولوں کا کاروبار ہے۔ راولپنڈی اور لاہور میں بھی ہماری دکانیں ہیں۔ ہم ہالینڈ، کینیا، ملائیشیا اور جنوبی افریقہ سے مختلف پھول درآمد کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا ایسا کونا نہیں ہے جہاں ہماری برادری کے افراد کام نہ کرتے ہوں۔ ہماری برادری میں مختلف قومیت کے افراد شامل ہیں۔ ہم سندھو جٹ ہیں۔ ہماری برادری تقریباً تین سے چار لاکھ نفوذ پر مشتمل ہے۔‘
محمد امجد سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ کبھی خانہ بدوش رہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی برادری کے لوگ پاکستان کے مختلف شہروں کے مستقل رہائشی ہیں۔
’گوجرانوالہ، اسلام آباد، راوالپنڈی اور لاہور میں ہمارے بڑے اور چھوٹے گھر ہیں۔ ایئرپورٹ گرین گارڈن میں ہماری زمینیں ہیں۔ خانہ بدوش تو وہ ہوتے ہیں جن کا گھر ہو اور نہ ہی کوئی زمین۔ ہمارے پاس تو 1996 کے وقت انتقال شدہ دکانوں کی دستاویزات بھی ہیں۔‘
مہمانوں کے تواضع کے لیے ڈھائی سو بکرے ذبح کر کے 400 دیگوں میں مختلف پکوان بنوائے گئے تھے۔ (فوٹو: سکرین گریب
انہوں نے بتایاکہ ان کے خاندان کے ملک بھر میں 15 ذاتی گھر ہیں جبکہ وہ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔
’ہمارے پاس چیمبر آف کامرس کے کارڈز بھی ہیں اور ہم ایف بی آر کو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا نے ہمیں بدنام کر دیا تو اس میں میڈیا کا قصور ہے۔ ہم باقاعدہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔‘
تقریب میں کیا اہتمام کیا گیا تھا؟
محمد امجد بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک مقامی ہال اور اس سے ملحقہ خالی میدان بک کرائے تھے جہاں 9 ہزار کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔
’ہم نے تو 9 ہزار لوگوں کے لیے انتظام کیا تھا، لیکن چونکہ یہ دعوت عام تھی اس لیے 13 سے 14 ہزار تک لوگوں نے شرکت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ مہمانوں کے تواضع کے لیے ڈھائی سو بکرے ذبح کر کے 400 دیگوں میں مختلف پکوان بنوائے گئے تھے۔ میٹھے میں مہمانوں کے لیے گاجر اور سیب کے مربے بھی تیار کیے گئے تھے۔