پاکستان کی آئی ٹی کمپنیوں نے ٹیکس قوانین میں فری لانسرز کو حاصل مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی کمپنیوں کو بیرونِ ممالک رجسٹرڈ کروا کر اپنے ہی ملازمین کو فری لانسر ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملازمین اُن کی تنخواہوں سے کٹنے والا ٹیکس اب قومی خزانے میں جانے کے بجائے کمپنیاں اپنے پاس رکھ رہی ہیں جس سے ٹیکس محصولات میں ماہانہ کروڑوں روپے کی کمی واقع ہو رہی ہے۔پاکستان میں آئی ٹی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں کمپنیاں اپنے ملازمین کو لاکھوں روپے میں تنخواہیں دے رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی اچھی تنخواہوں کے باعث ملازمین کی تنخواہوں سے اچھا خاصا ٹیکس کٹتا ہے۔ان کمپنیوں نے بجٹ 2024-25 میں فری لانسرز کو دی جانے والی ٹیکس مراعات کا استعمال اپنے حق میں کرنے کے لیے اپنی کمپنیوں کی پاکستان میں رجسٹریشن منسوخ کر کے مختلف بیرونی ممالک میں رجسٹریشن کرا لی ہے جس کے بعد وہ اب اپنے ہی ملازمین کو فری لانسرز کا درجہ دے کر ان سے کام لے رہی ہیں۔اب یہ کمپنیاں ان فری لانسرز کو تو وہی تنخواہ دے رہی ہیں جو ٹیکس کٹوتی کے بعد پہلے انہیں ادا کرتی تھیں لیکن جو رقم پہلے ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں جا رہی تھی وہ سلسلہ رک گیا ہے۔اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام نے بتایا ہے کہ ’وزارت کی جانب سے قومی فری لانسرز پالیسی کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا گیا تھا جسے مزید مشاورت اور تجاویز کے لیے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کیا جانا تھا مگر اب یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے چنانچہ یہ سوچ بچار کی جا رہی ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مسودے میں کیا چیز شامل کی جائے۔‘حکام نے مزید بتایا کہ ’کئی درجن کمپنیاں بیرون ملک رجسٹرڈ ہو چکی ہیں اور اپنے ہی ملازمین کو فری لانسرز کے طور پر ان کے کام کا معاوضہ ادا کر رہی ہیں اور عملی طور پر ٹیکس چوری کر رہی ہیں جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ وزارت آئی ٹی نے قومی فری لانسنگ پالیسی کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے جس میں سیلز ٹیکس کی کم شرح کے نفاذ کی تجویز دی گئی ہے۔ مجوزہ پالیسی میں رجسٹرڈ فری لانسرز کے لیے مراعات بھی شامل ہوں گی۔وزارت آئی ٹی نے قومی فری لانسنگ پالیسی کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی) حکام کے مطابق قومی فری لانسنگ پالیسی میں پاکستان کو ایک عالمی فری لانس مارکیٹ کے طور پر قائم کرنے اور فری لانسنگ کو ملک کے لیے برآمدات بڑھانے اور زرمبادلہ کمانے کے ذریعے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔’وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ فری لانسنگ کے ذریعے موصول ہونے والا زرمبادلہ 2030 تک انکم ٹیکس سے مستثنیٰ رہے۔‘حکام نے بتایا کہ ’فری لانسرز کو یہ مراعات ملنے کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے لیے الگ سے مراعات دینے پر بھی کام جاری ہے لیکن اس کے باوجود کمپنیوں نے فری لانسرز کو حاصل مراعات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جو پالیسی کے لانے اور بعد ازاں اس کے نفاذ میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔‘پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے ترجمان زوہیب خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت ٹیکس معاملات میں بہتری لائے اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ریلیف دے تو کمپنیاں بیرون ملک نہیں جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ’اس وقت جتنی بھی کمپنیاں بیرون ملک رجسٹرڈ ہوئی ہیں وہ مجبوراً ہوئی ہیں کیوں کہ یہاں پر ٹیکس کا نظام بہت زیادہ پیچیدہ ہے جب کہ اس کے بدلے میں کوئی مراعات بھی نہیں دی جا رہی ہیں۔‘’اگر ٹیکس کے معاملے میں تنخواہ دار طبقے کو ہی ریلیف دے دیا جاتا تو ناصرف کمپنیاں بیرون ملک نہ جاتیں بلکہ مزید کمپنیاں آنے سے ٹیکس محصولات میں بھی اضافہ ہوتا۔‘ایف بی آر کے مطابق فری لانسرز کو ٹیکس مراعات دینے کا مقصد آئی ٹی ایکسپورٹ کو فروغ دینا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)ان کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ ہماری تجاویز پر غور کرے اور آنے والے دنوں میں ٹیکس اصلاحات متعارف کروائے اور آئی ٹی کپمنیوں اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف کا اعلان کرے تو صورتِ حال بدل سکتی ہے۔ دوسری صورت میں کمپنیوں کو باہر جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔‘دوسری جانب ایف بی آر کے ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کے ٹیکس قوانین کے مطابق فری لانسرز کو اپنی خدمات کے عوض ملنے والے معاوضے پر دو فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جب کہ تنخواہ دار طبقے کو اپنی آمدن کا 15 سے 35 فیصد تک ٹیکس ادا کرنا لازمی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’فری لانسرز کو ٹیکس مراعات دینے کا مقصد پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ کو فروغ دینا ہے کیوں کہ آئی ٹی کی برآمدات سے پاکستان کو بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کنسلٹنسی کے عوض ملنے والے معاوضے پر بھی دس فیصد فکس ٹیکس ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اکثر و بیشتر کمپنیاں ٹیکس قوانین کا توڑ نکالنے کے لیے راستے تلاش کرتی رہتی ہیں۔ اب اگر آئی ٹی کمپنیوں نے بیرون ملک رجسٹریشن کروا کر اپنے ہی ملازمین کو فری لانسر ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے تو یہ سراسر خلافِ قانون اور فراڈ ہے۔‘ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آر ایسی کمپنیوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرے گا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ فری لانسرز کو حاصل ٹیکس رعایت کا کمپنیوں کو ہر گز فائدہ نہیں پہنچنا چاہیے۔ اس سے ٹیکس محصولات میں کمی آتی ہے جو موجودہ صورتِ حال میں قابل قبول نہیں۔‘