پنجاب اسمبلی میں ارکان کو اپنی مادری زبانوں میں تقریر کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن ایک رُکن اسمبلی ایسے بھی ہیں جنہیں اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔یہ رُکن پی پی 85 میانوالی سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب رکن اسمبلی میجر (ر) محمد اقبال ہیں جو اپنی مادری زبان پشتو میں تقریر نہیں کر سکتے۔پنجاب اسمبلی میں سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں رواں سال چھ جون کو سپیشل کمیٹی نمبر 2 کا اجلاس ہوا تھا جس میں کمیٹی کے ارکان کو ایوان میں اُردو اور انگریزی کے علاوہ پنجابی، سرائیکی اور میواتی اور پوٹھوہاری میں تقاریر کرنے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی نے پارلیمانی امور کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرتے ہوئے دیگر زبانوں میں بغیر اجازت تقریر کرنے کی منظوری دی۔
اس اجلاس میں حکومتی اراکین سمیع اللہ خان، احمد اقبال چوہدری اور سید اکبر نوانی جبکہ اپوزیشن سے ممبران اسمبلی ملک آفتاب احمد خان، عمار رشید بھٹی اور جنید افضل ساہی و دیگر نے شرکت کی۔اس فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں 23 ستمبر کو پندرہواں اجلاس منعقد ہوا جو کئی حوالوں سے منفرد تھا۔اس اجلاس میں پہلی بار قومی ترانہ پڑھا گیا اور کئی دیگر رولز میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک گھنٹہ 58 منٹ تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں سپیکر پنجاب اسمبلی نے باقاعدہ طور پر پارلیمانی رولز میں ترمیم اور عمل درآمد کا اعلان کیا۔ان ترامیم کے مطابق ہر اجلاس میں قومی ترانہ لازمی قرار دیا گیا جبکہ اسمبلی میں اُردو اور انگلش کے علاوہ پنجابی، سرائیکی، پوٹھوہاری اور میواتی میں تقریر کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔23 ستمبر کے اجلاس میں جب سپیکر نے دیگر زبانوں میں تقریر کی منظوری دی تو پی پی 180 قصور سے پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب رکن اسمبلی احسن رضا خان نے سب سے پہلے بغیر اجازت لیے میواتی زبان میں تقریر کی۔انہوں نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے اس ترمیم پر سپیکر اور ایوان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’1947 کے بعد ہم ہجرت کر کے یہاں آئے۔ ہمارا تعلق میوات سے ہے اور یہ میرے لیے پُرمسرت موقع ہے کہ آج میں بغیر اجازت طلب کیے میواتی میں تقریر کر سکتا ہوں اور خوشی ہے کہ پنجاب نے ہماری قوم کو تسلیم کر لیا۔‘اس کے بعد انہوں میواتی زبان میں تقریر جاری رکھی۔ میجر (ر) محمد اقبال نے کہا کہ ’جب سب اپنی مادری زبان میں بات کر سکتے ہیں تو مجھے یہ حق دینے میں کیا حرج ہے؟‘ (فوٹو: اُردو نیوز)ان کے بعد پی پی 95 چنیوٹ سے مسلم لیگ ن کے منتخب رکن اسمبلی مولانا الیاس چنیوٹی نے بغیر اجازت طلب کیے پنجابی زبان میں تقریر کی۔ انہوں نے ملک بھر کے دفاتر میں رائج انگریزی زبان پر تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ آئینی زبان یعنی اُردو زبان کو دفاتر اور مقابلے کے امتحان میں رائج کیا جائے۔مولانا الیاس چنیوٹی کے بعد مختلف اجلاسوں میں دیگر ممبران نے بھی اپنی مادری زبانوں میں تقریر کی۔ٹوبہ ٹیگ سنگھ سے مسلم لیگ ن کے منتخب رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے پنجابی زبان میں تقریر کی۔ رحیم یار خان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب رکن پنجاب اسمبلی ممتاز علی چانگ نے سرائیکی میں تقریر کی۔ پارلیمانی رولز میں کیا تبدیلی کی گئی؟ قومی اسمبلی کے پارلیمانی رولز کے مطابق اسمبلی میں اردو اور انگریزی میں تقریر کی اجازت ہے تاہم کسی بھی مادری زبان میں تقریر کرنے سے قبل اجازت طلب کی جاتی ہے۔بلوچستان اسمبلی میں اراکین کو اُردو میں تقریر کی اجازت ہے تاہم سپیکر کی اجازت سے انگلش یا کسی بھی مادری زبان میں تقریر کی جا سکتی ہے۔اس وقت پاکستان میں تین صوبائی اسمبلیوں میں صوبے کی اکثریتی زبان میں تقریر کی اجازت مل چکی ہے۔سندھ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق اراکین اُردو اور سندھی میں تقریر کر سکتے ہیں لیکن سپیکر کی اجازت سے صوبے میں رائج کسی بھی زبان میں بھی تقریر کر سکتے ہیں۔اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی میں اُردو، پشتو اور انگریزی میں تقریر کی اجازت ہے۔ اب پنجاب اسمبلی نے اُردو اور انگریزی سمیت صوبے کے کئی علاقائی زبانوں میں بھی تقریر کی اجازت دے دی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں 23 ستمبر کو پندرہواں اجلاس منعقد ہوا جو کئی حوالوں سے منفرد تھا (فوٹو: اے پی پی)میجر (ر) اقبال خٹک کو پشتو زبان میں تقریر کی اجازت کیوں نہ ملی؟میانوالی سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ہونے والے میجر (ر) محمد اقبال اب سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں۔انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’جب مادری زبانوں میں تقریر کی بحث ہو رہی تھی تو میں نے بھی پشتو میں تقریر کرنے کا نقطہ اٹھایا لیکن مجھے بتایا گیا کہ کسی بھی علاقائی زبان میں تقریر کرنے کے لیے صوبے میں اس زبان کی تقریباً 20 فیصد نمائندگی ہونی چاہیے۔‘انہوں نے کہا کہ ’جب بھی اسمبلی میں ایسی کوئی صورت حال ہوتی ہے تو دیگر زبانوں میں تقاریر کرنے والوں کے لیے باقاعدہ ترجمان مقرر کیے جاتے ہیں۔‘میجر (ر) محمد اقبال نے سوال اُٹھایا کہ ’جب سب کے لیے یہ سہولت میسر ہے تو میرے لیے کیوں نہیں؟‘انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں اکثریتی ارکان پنجابی یا اُردو بولتے ہیں جبکہ وہ واحد پشتون ہیں۔ ’اگر عقلی بنیادوں پر بات کی جائے تو اتنے سارے پنجابیوں یا اُردو بولنے والوں کے درمیان جب میں پشتو میں بات کروں گا تو یہ کہیں گے کہ کیا ہوا؟ یوں بات لسانیت پر آجائی گی لیکن اگر دلیل سے بات کریں تو کوئی میری بات سمجھے یا نہ سمجھے لیکن مجھے یہ حق ملنا چاہیے۔‘میجر (ر) محمد اقبال نے مزید بتایا کہ اسمبلی میں کی گئی ہر تقریر ریکارڈ ہوتی ہے۔ ’جب سرائیکی، پنجابی اور میواتی سمیت سب اپنی زبان میں بات کر سکتے ہیں تو مجھے یہ حق دینے میں کیا حرج ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اگلے اجلاس میں اس حوالے سے بات بھی کریں گے۔