ایکس اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کی اصل ترجمانی کون کر رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 03, 2024

Getty Images

سابق وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ چاہے سیاسی ہو، انتخابی یا احتجاجی، یہ بار بار حریف جماعتوں کے لیے دردسر بنتا ہے۔ مگر اب چونکہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہیں، اسے عوام تک پہنچانے میں تحریک انصاف کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2022 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے عمران خان کی اسیری کے دوران ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات اور پارٹی قیادت کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاید کہیں رابطے، فہم، مشاورت یا نظریے میں واضح تضاد ہے۔

عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری ہونے والے بیانات میں سخت الفاظ اور موقف اپنایا جاتا ہے جبکہ پارٹی قیادت کے لہجے میں کچھ نرمی دکھائی دیتی ہے۔

جب پی ٹی آئی کا نومبر کے اواخر کے دوران اسلام آباد میں احتجاج ہوا تو اس دوران بھی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور قائدین کے موقف میں فرق نظر آیا، حتیٰ کہ دھرنے کے مقام، کارکنان کی اموات کی تعداد اور دھرنا اچانک ختم ہونے پر قیادت کی واپسی پر پارٹی میں اختلاف کی اطلاعات سرگرم رہیں۔

ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی اصل ترجمانی کون کرتا ہے اور آیا بیرسٹر گوہر کے نرم موقف کو درست مانا جائے یا ایکس اکاؤنٹ پر عمران خان کے جارحانہ بیانات کو؟

Getty Imagesعمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کیا کہا گیا؟

پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے دو دسمبر کی شام جاری بیان میں انھوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ کے دوران کارکنوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات سے متعلق دکھ و افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ’اسلام آباد قتل عام‘ کا نام دیا اور اسے ’جلیانوالہ باغ‘ کے واقعے سے تشبیہ دیتے ہوئے حکمرانوں کو ’موجودہ دور کے جنرل ڈائر‘ قرار دیا۔

ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’ہلاک ہونے والے کارکنوں کا مقدمہ اقوام متحدہ سمیت تمام فورم پر لے کر جائیں گے۔‘

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1863606783882772786

ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’نہ میں پیچھے ہٹوں گا نہ پاکستانی قوم، اگر ہم نے آج ہار مان لی تو پاکستانی قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔‘

ان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پرامن احتجاج ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور وہ پاکستان میں کہیں بھی کیا جا سکتا ہے- نو مئی کو بھی ہمارے 25کارکنان کو شہید کیا گیا اور اس بار بھی پرامن مظاہرین کو گولیاں مار کر خون کی ہولی کھیلی گئی اور درجنوں شہریوں کو شہید کیا گیا جو کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ میں بھی نہیں کیا گیا۔‘

عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاپی ٹی آئی کارکن قیادت پر برہم: ’سب مرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اُن 300 زندوں کو نہیں جو خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘رینجرز کی ڈی چوک پر کارکن کو کینٹینر سے دھکا دینے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

ان کے جاری بیان میں ’سپریم کورٹ سے غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن بنا کر اس قتل عام کی تحقیقات کروانے اور قتل عام کا حکم دینے والے اور اس میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزائیں دینے‘ کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

جبکہ اگر دو دسمبر کو ہی پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے کی جانے والی بات چیت کا جائزہ لیں تو انھوں نے قدرے نرم الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

بیرسٹر گوہر کی نرم لہجے میں عمران خان کی ترجمانی

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان نے ’24 نومبر کو اُن کی احتجاج کی کال پر نکلنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سب ایک اور متحد رہیں آپ کے درمیان لوگ اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے مگر آپ سب کو متحد رہنا ہے۔‘

بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی کا اپنے لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ گولی کیوں چلائی گئی اس بارے میں قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس بارے میں احتجاج کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور جو بھی بات ہو وہ اسمبلی میں ہو۔‘

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا یہی پیغام ہے کہ چاہے ہم سنگجانی تھے یا ڈی چوک تھے احتجاج وہاں ہوتا ہے کہ جہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ جہاں بھی احتجاج ہونا تھا گولی نہیں چلنی چاہیے تھی حاص طور پر تب کے جب ابھی تک سارے لوگ اُس مقام تک پہنچے بھی نہیں تھے۔‘

ڈی چوک میں حالیہ احتجاج میں ہلاکتوں سے متعلق ہونے والے ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور ہم کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیتے۔ ڈی چوک احتجاج میں ہلاکتوں سے متعلق ہم نے وہی بیان دیا کہ جن کی تفصیل ہمارے پاس موجود تھی، 12 ہلاکتیں ہوئیں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کہا جا رہا ہے کہ سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے متعلق ہم نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور تب تک ہمارا بیان یہی رہے گا کہ جب تک ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی واضح حقائق سامنے نہیں آتے۔‘

Getty Imagesعمران خان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کون چلاتا ہے اور اسے عمران خان کا یہ موقف کیسے ملتا ہے؟

پی ٹی آئی کے رہنما سید ذوالفقار (زلفی) علی بخاری نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات کو ان کی سوشل میڈیا چلاتی ہے۔

انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیم کو عمران خان کے بیانات ان کی قانونی ٹیم یعنی وکلا سے ذریعے موصول ہوتے ہیں۔

’عمران خان گذشتہ 18 ماہ سے جیل میں قید ہیں اور ان سے ملاقات کرنے والی قانونی ٹیم اور وکلا ہی ان کےپیغامات سوشل میڈیا ٹیم کو دیتے ہیں۔‘

ایک سوال پر کہ کیا یہ پیغامات تحریری ہوتے ہیں یا زبانی، زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چونکہ جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں لہذا یہ تمام پیغامات زبانی ہوتے ہیں جو عمران خان سے ملاقات کرنے والے وکلا سوشل ٹیم کو ڈکٹیٹ کرواتے ہیں۔

جب ان سے عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والی پارٹی بیانات یا موقف اور سیاسی قیادت کی جانب سے دیے گئے بیانات میں فرق سے متعلق یوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پارٹی کے بیانیے، موقف یا بیانات میں کوئی تضاد یا فرق ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان گذشتہ 18 ماہ سے جیل میں قید ہیں اور ان کے بیانات کو زبانی طور پر لکھوانے میں کچھ انیس، بیس کا فرق آ سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹی کے اصولی موقف میں کوئی فرق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زبانی طور پر بتائے گئے بیانات کولکھنے والے کے الفاظ کے چناؤ کے تناظر میں بھی دیکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ایسے میں الفاظ کے چناؤ میں معمولی فرق بہت فطری ہے۔

Getty Images

انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت ذمہ داری سے یہ کہہ رہا ہو کہ کسی کابیانیے یا موقف الگ نہیں ہے خصوصاً عمران خان کے موقف میں کوئی فرق یا تضاد نہیں ہے۔‘

انھوں نے حالیہ اسلام آباد مارچ میں کارکنوں کی ہلاکتوں کی تعداد سے متعلق بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے 12 کارکنوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار وہ ہیں جن کی بین الاقوامی میڈیا میں بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو مصدقہ ہے ان کے تمام کوائف ہمارے پاس ہیں۔

’لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن ہم ان کی تعداد اس لیے بتا نہیں رہے کیونکہ ابھی ہمارے پاس ان کی تصدیق اور کوائف آنا باقی ہیں۔‘

سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کا اصل ترجمان کس کو سمجھا جائے؟

عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیانات میں الفاظ کے سخت چناؤ اور پارٹی قیادت کے بیانات کے درمیان پارٹی موقف کی ترجمانی کسے سمجھا جائے کے سوال پر زلفی بخاری نے کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔‘

’عوام جس بات میں وزن اور اسے مصدقہ سمجھتے ہیں، اس پر مل کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ عوام کا ہے، وہ جو بہتر سمجھیں، اسے دیکھیں۔‘

انھوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پارٹی قیادت ہو یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان، دونوں میں ہی پارٹی موقف کی ترجمانی ہے اور دونوں میں ’اصولی موقف ایک ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا جو عمران خان کہتے ہیں ’وہی پارٹی اور سوشل میڈیا بیانات میں کہا جاتا ہے۔ صرف الفاظ کے چناؤ میں انیس بیس کا فرق ہو سکتا ہے۔‘

Getty Imagesمگر کیا یہ تضاد تحریک انصاف کو نقصان پہنچاتا ہے؟

اس بارے میں سینیئر صحافی و اینکر پرسن طلعت حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ پارٹی قیادت اور عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات میں بالکل تضاد ہے اور یہ صرف الفاظ کا چناؤ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی پارٹی پالیسی لائن کا حصہ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے موقف میں اس طرح کے تضاد ’مبالغہ آرائی کی پالیسی‘ کا معاملہ ہے جو ایک محدود پالیسی لائن کے نتیجے میں ہے۔

وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد پر تضادات سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب پارٹی محدود طریقے سے خود کو مناسب ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو بیریسٹر گوہر کو سامنے کر دیتی ہے اور جب عوام تک ’جھوٹ اور مبالغے پر مبنی پیغام پہنچانا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قتل عام‘، ’جلیانوالا باغ‘ اور ’جنرل ڈائر‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے اور 12 ہلاکتوں پر بات کرنے میں بہت فرق ہے۔

اس پالیسی سے پارٹی کو نقصان یا فائدہ پہنچنے کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ہمیشہ سے اپنے حامیوں کو ’مبالغے کا پیغام‘ دیتی آئی ہے۔ ’پارٹی جانتی ہے کہ اگر محاذ آرائی کی سیاست کرنی ہے تو اپنے حامیوں کو اشتعال دلا کر رکھنا ہے۔‘

تاہم ان کا خیال ہے کہ اس تضاد سے بھی فائدہ پی ٹی آئی کو ہی ہو رہا ہے۔

عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاپی ٹی آئی کارکن قیادت پر برہم: ’سب مرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اُن 300 زندوں کو نہیں جو خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘رینجرز کی ڈی چوک پر کارکن کو کینٹینر سے دھکا دینے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟تحریک انصاف کی ’فائنل کال‘: کیا یہ بشری بی بی کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا عمران خان کی کمی پورا کرنے کی کوشش؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More