Getty Images انفلوئنسرز خواتین کے ہارمونل مسائل کے حل کے لیے غیر تصدیق شدہ ٹیسٹ اور ادویات تجویز کر رہے ہیں
صوفی تقریباً 12 سال سے ماہواری کی وجہ سے شدید تکلیف، وزن بڑھنے، ڈپریشن اور تھکاوٹ جیسے مسائل کا سامنا کر رہی تھیں۔
ان میں پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) کی تشخیص ہوئی۔ یہ ایک ایسی ہارمونل کنڈیشن ہے جس سے ہر 10 میں سے ایک عورت متاثر ہوتی ہے۔ تاہم صوفی کو طبی مدد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
لیکن پھر انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس اپنی صحت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
یہ وہی وقت تھا جب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر صوفی کے سامنے کورٹنی سمانگ نمودار ہوئیں۔
حالانکہ محققین ابھی تک اس مرض کی اصل وجہ معلوم نہیں کر پائے تاہم کورٹنی صارفین سے پی سی او ایس کا جڑ سے علاج کرنے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔
وہ 3600 امریکی ڈالر کے عوض اپنے کسٹمرز کو لیبارٹی ٹیسٹ کروانے، ڈائٹ، سپلیمنٹس اور کوچنگ کروانے کی پیشکش کرتی ہیں۔
صوفی نے کورٹنی سے وابستہ لنک پر سینکڑوں ڈالرکے عوض سپلیمنٹس خریدے۔ تقریباً ایک سال کے بعد بھی صوفی کی علامات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس لیے انھوں نے کورٹنی کے طریقہ علاج کو چھوڑ دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے وہ پروگرام چھوڑ دیا، اس کے میرے جسم اور خوراک پر بدترین اثرات تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھ میں اپنے پی سی او ایس کے مسئلے کو بہتر کرنے کی صلاحیت اور ہمت نہیں تھی۔‘
کورٹنی نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے کے لیے کی جانے والی درخواست پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
گائناکالوجسٹ ڈاکٹرجین کا کہنا ہے کہ کورٹنی ایسے ٹیسٹ تجویز کرنے کی اہل نہیں جنھیں وہ کسٹمرز کے لیے آزما رہی تھیں اور اور ان ٹیسٹ کا طبی استعمال بھی کم ہے۔
طبی طور پر غیر تعلیم یافتہ انفلوئنسرز میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے 10 لاکھ سے بھی زیادہ فالوورز ہیں۔ وہ پی سی او ایس کے لیے آسان طبی حل نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بطور ماہر پوسٹس کرتے ہیں اور غلط علاج بتاتے ہیں۔
ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو خود کو غدائیت کے ماہر یا پھر ہارمون کے کوچ کہتے ہیں۔ لیکن یہ سند آن لائن چند ہی ہفتوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔
بی بی سی ورلڈ نے پی سی او ایس کے ہیش ٹیگ کے ساتھ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز کا جائزہ لیا۔
اس میں چار زبانوں میں پوسٹ ہونے والا مواد ستمبر 2024 کے دوران سامنے آیا۔ اور ان میں نصف سے زیادہ مواد میں غلط معلومات فراہم کی جا رہی تھیں۔
ہم نے 25 سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز کا انتخاب کیا جو انگریزی، سواحلی، ہندی اور پرتگالی زبان میں تھیں۔
انگریزی کی ویڈیوز انڈیا، نائیجیریا، کینیا اور برازیل میں بھی بہت مشہور تھیں۔
BBC ٹک ٹاک کی ریلز میں انفلوینسر سپلمنٹ کی روٹین کو فروخت کرتی ہیں۔یہ فراڈ کس قدر بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے؟
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کی 70 فیصد سے زیادہ خواتین جو پی سی او ایس کا شکار ہیں ان میں اس مسئلے کی تشخیص نہیں ہوتی۔ اور جب تشخیص ہو جائے تب بھی وہ درست علاج کے لیے کوشش کرتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر گنٹر کا کہنا ہے کہ جب بھی دوا میں کوئی گیپ آتا ہے تو بعض لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ انفلوئنسرز جو گمراہ کن اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں ان کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
پی سی او ایس کا علاج ڈائٹری سپلمنٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ پی سی او ایس کو ڈائٹ یعنی کم کاربوہائیڈریٹس اور ہائی فیٹ کے ساتھ یعنی کیٹو ڈائٹ کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ مانع حمل گولیاں پی سی او ایس کی وجہ بنتی ہیں یا اس کی علامات کو مزید خراب کر دیتی ہیں۔معروف ادویات پی سی او ایس کو دبا تو دیتی ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ کو ٹھیک نہیں کرتیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’یہاں کوئی بھی ایسے شواہد موجود نہیں جن سے پتا چلے کہ زیادہ کیلوریز والی خوراک اس کے علاج میں مثبت نتائج دیتی ہے اور کیٹو ڈائٹ بہت سی علامات کو مزید ابتر کر دیتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مانع حمل ادویات کی وجہ سے پی سی او ایس نہیں ہوتا۔ یہ دوا تو بہت سی خواتین کو مدد فراہم کرتی ہے۔
پی سی او ایس کا مسئلہ کیوں ہوتا ہے؟ ابھی تک اس کی بنیادی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
ٹک ٹاک کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی ایسے کسی جھوٹے اور گمراہ کن مواد کو اپنے پلیٹ فارم پر چلانے کی اجازت نہیں دیتا جس سے بہت زیادہ نقصان کا باعث بنے۔
میٹا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خواتین کی صحت سے متعلق مواد کو اس پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کرنے کی اجازت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے صحت سے متعلق غلط خبروں کا پتہ لگاتا ہے۔
BBCپی سی او ایس کیا ہے؟عالمی ادارہ صحت کے مطابق پی سی او ایس ایک ہارمونل کنڈیشن ہے جو آٹھ سے 13 فیصد خواتین کو متاثر کرتی ہے۔ برطانیہ کے قومی ادارہ صحت این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ اس کی علامات میں بے قاعدگی سے تکلیف دہ ماہواری کا ہونا، بہت زیادہ بالوں کی افزائش اور وزن بڑھنا شامل ہے۔ این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ پی سی او ایس بانجھ پن کی ایک عام وجہ ہے لیکن بہت سی خواتین علاج کے بعد حاملہ ہو سکتی ہیں۔ عالمی مسئلہ
بی بی سی نے نائیجیریا، کینیا، برازیل، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں 14 خواتین سے بات کی جنھوں نے انفلوئنسرز کی جانب سے تشہیر کی جانے والی مصنوعات کا استعمال کیا ہے۔
انھی میں سے ایک خاتون ویشانوی کا تعلق انڈیا کے شہر بینگلور سے تھا۔ انھوں نے انڈین انفلوئنسر آنیا شرما کی بات پر یقین کیا جو کہ پی سی او ایس کے لیے قدرتی طریقہ علاج بتاتی ہیں اور ڈائٹ پلان اور ڈی ٹاکسز کے استعمال کا مشورہ دیتی ہیں۔
آنیا ان انفلوئنسرز میں سے ہیں جو وزن کم کرنے پر زور دیتے ہیں۔
ویشانوی کو 1000 سے 1200 کے درمیان کیلوریز لینے کا مشورہ دیا گیا۔
یاد رہے کہ صحت مند خوراک کھانے سے پی سی او ایس کی علامات کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن بہت زیادہ پابندی سے کھانے سے متعلق مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
برطانوی قومی صحت سروس نے تجویز کیا ہے کہ ایک عام عورت کو 2000 کیلوریز ہر روز لینی چاہیں۔
نوجوان خواتین میں مانع حمل کے سب سے مقبول طریقوں میں سے بہترین انتخاب کیسے ممکن؟’ذہنی عارضے کی دوا نے میرا وزن 20 کلو گرام بڑھا دیا‘اندام نہانی کے تفصیلی معائنے کے دوران خواتین کی پریشانی اور الجھن کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟سروائیکل کینسر: ’سیکس اور دو ماہواریوں کے درمیان خون کے غیرمعمولی اخراج کو نظرانداز نہ کریں‘Getty Imagesکچھ انفلوئنسرز کیلوریز کی محدود تعداد لینے کی صلاح دیتے ہیں
بہت کم کھانے کی وجہ سے یہ ہوا کہ وسنوی کی ماہواری چھ ماہ کے لیے رک گئی۔ ان کا وزن اتنی تیزی سے کم نہیں ہوا جس طرح ان سے وعدہ کیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے وہ بہت شرمندہ تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آنیا کے ہر کلائینٹ کا وزن مجھ سے کہیں زیادہ وزن کم ہوا۔
آنیا شرما کہتی ہیں کہ پی سی او ایس کی علامات کم ہو سکتی ہیں لیکن یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا کوئی حتمی علاج ہے۔
’میں علاج کروانے کے لیے بے تاب تھی‘
منیشا کا تعلق بھی بینگلور سے ہے وہ بھی اسی جھانسے کا شکار ہوئیں۔
صوفی کی ہی طرح ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے جسم پر موجود بالوں، بڑھتے ہوئے وزن اور ماہواری کے شدید درد اور ممکنہ بانجھ پن جیسے مسائل کے حل کے لیے ڈاکٹروں کی مدد لینے کی کوشش کر رہی تھیں اور پھر وہ انفلوئسنرز کی طرف گئیں۔
وہ کہتی ہیں میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں جن کی شادیاں ٹوٹ گئی تھیں کیونکہ ان کے خاندانوں کو پتہ چلا کہ انھیں پی سی او ایس ہے اور انھوں نے یہ فرض کر لیا کہ وہ کبھی حاملہ نہیں ہو سکتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کئی گھنٹوں تک فاقہ کیا، کیٹو ڈائٹ لی جو کہ ان جیسی سبزی خور خاتون کے لیے مشکل چیز تھی۔ انھوں نے سپلمنٹس بھی لیے جن کے بارے میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ معجزاتی علاج ہے۔
ان میں سے ایک انڈیا کا روایتی آریوویدک سپلمنٹ اشوگنندہ بھی ہے۔ انفلوئنسر نے انھیں (ڈاکٹرز کی) ادویات لینے سے منع کیا اور کہا کہ یہ صرف پی سی او ایس کی علامات کو دباتا ہے۔
لیکن ہوا یہ کہ ڈائیٹ کرنے سے اور اس طریقہ ’علاج‘ سے ان کے درد اور علامات میں مزید خرابی آئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ایسا موقع آیا جب میں خودکشی کرنا چاہتی تھی۔ میں بہت مایوس تھی ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ طریقے ہر کسی کے لیے کارگر ہوں لیکن میرے لیے نہیں۔‘
Getty Images
منیشا دوبارہ سے ڈاکٹر کے پاس لوٹی اور 29 برس کی عمر میں ان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کی تشخیص ہوئی۔
کیونکہ پی سی او ایس کی حامل بہت سی خواتین کے جسم میں انسولین کے خلاف مدافعت ہوتی ہے مطلب انھیں شوگر کو کھانے میں مسئلہ ہوتا ہے اور وہ بہت زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔
اگر وہ ادو میٹفارمن جو کہ پی سی او ایس اور ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے استعمال ہوتی ہے کھا لیتیں تو اس صورتحال سے بچ سکتی تھی۔
منیشا کہتی ہیں کہ جب پہلے انھوں نے پی سی او ایس کا علاج کروانے کی کوشش کی تو انھیں سیریئس نہیں لیا گیا۔ انھیں کہا گیا تھا کہ جب حاملہ ہونا چاہو تو واپس آ جانا۔
ڈاکٹر گنٹر کا کہنا ہے کہ یہ ان بے یار و مددگار مریضوں کا گروپ ہے جسے علاج تک رسائی نہیں ملتی۔
وہ کہتی ہیں کہ غلط خبروں کی وجہ سے اکثر یہ ہوتا ہے کہ مریض طبی مدد لینے میں دیر کر دیتا ہے۔ اور ایسی صورتحال کی وجہ سے ٹائپ ٹو ذیابیطس ہو سکتی ہے۔
نائیجیریا کی میڈلن میڈیکل کی طالبہ ہیں اور وہ پی سی او ایس کی وجہ سے مشلکات کا شکار رہیں۔ ڈائٹ اور سپلیمنٹس کے استعمال سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں کہ وہ ڈاکٹرز کے پاس جائیں اور ایسا علاج کروائیں جس کے شواہد موجود ہوں۔
BBCمیڈلن خواتین کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں کہ وہ ڈاکٹرز کے پاس جائیں اور ایسا علاج کروائیں جس کے شواہد موجود ہوں۔
انھوں نے کہا ’جب آپ کو پی سی او ایس کی تشخیص ہوتی ہے تو اس میں لوگ رسوائی اور بدنامی کی چھاپ لگا دیتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ آپ سست ہیں، آپ اپنی دیکھ بھال نہیں کرتیں یہاں تک کہ حاملہ نہیں ہو سکتیں۔ کوئی بھی آپ سے تعلقات (ڈیٹ) نہیں کرنا چاہتا، کوئی بھی آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘
لیکن اب وہ اپنی پی سی او ایس کے سبب پیش آنے والے بہت سے سماجی مسائل کو سامنے لا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے لیے اپنے پی سی او ایس کو قبول کرنا، جسم کے بالوں، بڑھتے وزن کا سامنا کرنا ہمیشہ سے ایک مشکل سفر رہا ہے۔ اور یہی چیزیں مجھے مختلف بناتی ہیں۔"
برطانیہ کے خیراتی ادارے پی سی او اس چیلنج کی ساشا اوٹی کہتی ہیں کہ طبی علاج عام طور پر ایسے لوگوں کو حاملہ ہونے کے قابل بناتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’پی سی او ایس والی خواتین کے بچے ہونا ناممکن نہیں بلکہ ان میں بھی کچھ خواتین کے بچے ہوتے ہیں بس آپ کو وہاں جانے کے لیے تھوڑی مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر گنٹر کا کہنا ہے کہ جن خواتین کو کسی جنرل پریکٹیشنر سے مدد نہیں مل رہی ہے انھیں کسی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے۔
’کچھ خواتین کو اس اگلے درجے کے انتظام کے لیے ایک قابل اعتماد اینڈو کرائنولوجسٹ یا ایک قابل اعتماد امراض نسواں کے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
طبی امداد حاصل کرنے کے بعد منیشا میٹفارمین لے رہی ہیں جس سے اس کی علامات میں کچھ بہتری آئی ہے اور وہ اپنی ٹائپ ٹو ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے پر امید ہیں۔
ویشنوی ورزش کی عادت کو بہتر کر رہی ہیں جبکہ صوفی ایک مستند ماہرغذائیت کی مدد لے رہی ہیں جو وزن کم کرنے میں معاونت کر رہی ہیں۔
وہ دونوں اب بھی ڈاکٹروں کے ساتھ اس کے علاج کی تلاش میں ہیں اور پرامید ہیں کہ وہ شفایاب ہو جائیں گی۔
نوجوان خواتین میں مانع حمل کے سب سے مقبول طریقوں میں سے بہترین انتخاب کیسے ممکن؟’ذہنی عارضے کی دوا نے میرا وزن 20 کلو گرام بڑھا دیا‘اندام نہانی کے تفصیلی معائنے کے دوران خواتین کی پریشانی اور الجھن کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟سروائیکل کینسر: ’سیکس اور دو ماہواریوں کے درمیان خون کے غیرمعمولی اخراج کو نظرانداز نہ کریں‘’عورت کی داڑھی نکلنے پر سب مذاق اڑاتے ہیں‘حمل روکنے کے لیے فرٹیلیٹی ایپس کیا مانع حمل ادویات سے زیادہ مؤثر ہیں؟