BBC
انتباہ: اس تحریر میں چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ سال 10 اگست کی رات دو بج کر 47 منٹ کا وقت تھا جب سرے پولیس کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے ایک فون کال موصول ہوئی۔
ایک لرزتی ہوئی آواز میں ہچکچاتے ہوئے مرد نے کہا 'میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اسے کچھ زیادہ پیٹ دیا۔'
اس شخص نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو صرف سزا دینا چاہتا تھا۔ اس نے کہا 'میں ایک ظالم باپ ہوں۔' یہ شخص عرفان شریف تھا۔
کال ختم ہونے سے پہلے ہی پولیس اہلکار جارج وان ڈر وارٹ ووکنگ میں شریف خاندان کے گھر کا دروازہ بجا رہا تھا۔ اوپر کی منزل پر اسے بستر کی چادر کے نیچے سے 10 سالہ سارہ شریف کی لاش ملی۔
تکیے کے ساتھ ہی ایک نوٹ موجود تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ عرفان نے اپنی بیٹی کو مارا اور اسے قتل کر دیا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے علم ہوا کہ سارہ کی موت لاتعداد چوٹوں کی وجہ سے ہوئی۔ ان کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا، سر پر بھی شدید چوٹ تھی، جسم پر دانتوں سے کاٹنے کے نشان اور بہت سے ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ سارہ کو جلتی ہوئی استری سے بھی جلایا گیا تھا۔
مکان اور باغیچے کی تلاشی سے خون آلود کرکٹ بیٹ سمیت دیگر اشیا بھی ملیں۔ یہ ایک ایسی چھوٹی سی بچی کی زندگی کا اختتام تھا جس کی استانی کے مطابق سارہ سب سے زیادہ خوش سٹیج پر ہوتی تھیں۔
سارہ کو گٹار بجانا پسند تھا۔ ان کا سب سے پسندیدہ رنگ گلابی تھا اور انھیں چکن بریانی پسند تھی۔
عدالت میں سماعت کے دوران جیوری نے سارہ کے والد عرفان اور ان کی سوتیلی والدہ بینش کو قتل کا مجرم قرار دیا۔ سارہ کے چچا فیصل ملک کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا لیکن انھیں ایک بچے کی موت کی وجہ بننے کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا۔ منگل کے دن عدالت کی جانب سے ان کو سزا سنائی جائے گی۔
آٹھ ہفتوں پر محیط سماعت کے دوران ایک ایسی بچی کی تصویر ابھر کر سامنے آئی جسے اس کے سب سے قریبی لوگوں نے دھوکہ دیا اور تشدد کا نشانہ بنایا، وہ لوگ جن پر اسے اعتماد ہونا چاہیے تھا۔
سارہ کی تصاویر میں ان کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھا گیا لیکن گھر پر انھیں پیٹا جاتا تھا۔ مقدمہ میں بار بار یہ بات سامنے آئی کہ سرے کاوئنٹی کی مقامی بچوں کی دیکھ بھال کی سروس سمیت پولیس اور سکول انتظامیہ ان کے گھر والوں کے رویے کے بارے میں جانتے تھے لیکن کوئی بھی ان کی زندگی نہیں بچا پایا۔
بی بی سی نیوز اور دیگر میڈیا کی جانب سے ایک قانونی مقدمے کے بعد اب ہم کونسل اور عدالتوں کے کردار کے بارے میں زیادہ تفصیلات شائع کر سکتے ہیں۔
مختصر زندگی جو تشدد میں گھری رہی
سارہ تین سال کی عمر میں دو بار فاسٹر کیئر جا چکی تھیں۔ ان کی مختصر سی زندگی تشدد میں گھری رہی۔ 11 جنوری 2013 کو ویکسہیم پارک ہسپتال میں پیدا ہونے والی سارہ شریف کے والد پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے برطانیہ آئے تھے۔ انھوں نے سارہ کی والدہ اولگا ڈومن سے 2009 میں شادی کی جو پولش شہری تھی اور محدود انگریزی بول سکتی تھیں۔
سارہ کی پیدائش سے قبل ہی یہ خاندان پولیس کی نظر میں آ چکا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق 2010 سے 2012 تک پولیس کا چار بار اس جوڑے سے آمنا سامنا ہوا۔ سرے کاوئنٹی کونسل چلڈرن سروس بھی 2010 سے رابطے میں تھی۔
اس کی وجہ ان کا ایک اور بچہ تھا جسے نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان میں تشدد کا معاملہ بھی تھا۔ اس بچے کو عدالت میں 'زیڈ' کا نام دیا گیا۔
2010 میں زیڈ ایک دکان میں تنہا پایا گیا جب وہ صرف تین سال کا تھا۔ اسی سال عرفان شریف کو اولگا پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ لڑائی کے دوران عرفان نے زیڈ کو بھی مارا جس کی کمر پر ایک ہاتھ کا نشان بن گیا۔
10 سالہ سارہ شریف کا قتل: پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی ماں مجرم قرارسارہ شریف قتل کیس: ’خون آلود کرکٹ بیٹ‘ اور حجاب سے زخم چھپانے کی کوشش 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کی تفتیش: برطانوی پولیس کو پاکستان میں موجود والد، سوتیلی ماں مطلوببرطانیہ: پاکستانی نژاد خاندان کے قتل کی گتھی 10 برس بعد بھی سلجھ نہیں سکی
2011 میں زیڈ نے سکول میں بتایا کہ اس کے والد نے اسے پیٹا ہے اور اگلے سال اس نے بتایا کہ اس کی والدہ نے اسے پیٹا ہے۔ بچے کے جسم پر جلائے جانے کے نشانات دیکھے گئے اور ایک اور موقع پر وہ پھر تنہا پایا گیا۔ اس بار وہ گھر سے تقریبا نصف میل دور تھا۔
سوشل ورکرز کے مطابق زیڈ اور ایک اور بچے کو ناقابل فہم زخم لگے۔ اس دوسرے بچے کا نام عدالت میں 'یو' لکھا گیا۔ سارہ کی پیدائش سے قبل بچوں کے خلاف تشدد کے اور الزامات بھی سامنے آئے۔
2013 میں ایک اور واقعہ ہوا جس میں زیڈ کو استری سے جلایا گیا تھا۔ سوشل ورکرز نے گھر کا دورہ کیا تو دیکھا کہ بچوں کے کمرے میں بلب ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ سارہ پیدائش سے پہلے ہی ایک عدالتی حکمنامے کے تحت حفاظت کی حقدار ہو چکی تھی۔
مقامی حکام کے پاس باقی دو بچوں سمیت سارہ کی قانونی ذمہ داری کا اختیار تھا اور سوشل ورکر باقاعدگی سے گھر کا دورہ کرتے تھے۔ سارہ کو پہلی بار نومبر 2014 میں فاسٹر کیئر میں لیا گیا جب وہ صرف دو سال کی تھیں۔ اس وقت زیڈ نے شکایت کی تھی کہ اولگا نے زور سے ان کو کاٹا تھا جبکہ عرفان نے مکہ مارا تھا۔
فاسٹر کیئر منتظمین نے دیکھا کہ سارہ اور دوسرے بچے یو کے جسموں پر ایسے نشان تھے جیسے جلتے ہوئے سگریٹ سے لگائے گئے ہوں۔ اولگا اور عرفان کے مطابق یہ چکن پاکس بیماری کے نشان تھے۔
2015 میں اولگا نے عرفان پر الزام لگایا کہ ان کو اور ان کے بچوں کو پیٹا گیا۔ انھوں نے پرتشدد رویے کا الزام لگایا تاہم ان الزامات پر عدالت میں کارروائی سے قبل عرفان شریف نےگھریلو تشدد کے بارے میں ایک تعلیمی کورس کرنے کی حامی بھر لی۔
سرے پولیس اس بات سے واقف تھی کہ اس سے قبل عرفان کے خلاف پرتشدد رویے کی شکایات سامنے آ چکی ہیں۔ ان کی دو سابقہ گرل فرینڈز نے 2007 اور 2009 میں ان پر الزام لگایا تھا کہ ان کو قید کیا گیا۔
BBC
ابھی سارہ دو سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ وہ اور یو گھر واپس آ گئے۔ تاہم زیڈ فاسٹر کیئر میں ہی رہا۔ ایک ہی سال بعد جب اولگا تشدد کا الزام لگا کر گھر چھوڑ گئیں تو سارہ پھر سے فاسٹر کیئر میں پہنچ گئی۔ ان کے والدین کی علیحدگی کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہیں۔ عرفان شریف کو صرف محدود حد تک ان سے ملنے کی اجازت تھی۔
قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک سوشل ورکر نے بتایا کہ جب ایک بار عرفان سارہ سے ملنے گیا تو بچی نے چیخ کر کہا کہ 'چلے جاؤ۔' انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یو نے ایک بار کہا تھا کہ ان کے والد نے ان کی والدہ کو منھ پر مارا اور ان کا خون نکل آیا تھا۔
عرفان کی اولگا سے علیحدگی سے قبل بینش سے ملاقات ہو چکی تھی جن سے تعارف ٹیکسی کاروبار کی وجہ سے ہوا۔ اس دوران سارہ اپنی حقیقی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں اور لگ رہا تھا کہ ان کی زندگی میں آخرکار سکون آ گیا ہے۔ لیکن 2019 میں عرفان کے مطابق سارہ نے ان کو بتایا کہ اولگا ان پر تشدد کرنے لگی ہیں۔
فیملی کورٹ کی دستاویزات کے مطابق سارہ نے کہا کہ اولگا نے ان کو لائٹر سے جلانے اور ڈوب کر مارنے کی کوشش کی۔ سارہ نے یہ بھی کہا کہ ان کی والدہ نے ان کو تھپڑ مارے اور ان کے بال کھینچے۔ عرفان شریف نے چند الزامات ایک ویڈیو پر بھی ریکارڈ کیے۔
یہ واضح نہیں کہ کیا عرفان نے ایسا کرنے میں سارہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک بار پھر سوشل سروس تک معاملہ پہنچا جنھوں نے جائزہ لیا کہ سارہ کو کس کے ساتھ رہنا چاہیے اور عرفان شریف کے ماضی کے رویے کے باوجود سفارش کی گئی کہ سارہ اور یو عرفان شریف کے ساتھ رہیں۔
Surrey Police
اکتوبر 2019 میں گلفورڈ کی فیملی عدالت نے اتفاق کیا کہ سارہ کو اپنے والد اور سوتیلی والدہ کے ساتھ منتقل ہو جانا چاہیے۔ فیصلہ سنانے والے جج ماضی کے الزامات سے بھی واقف تھے۔
اولگا نے اس معاہدے سے اتفاق کیا اور ان کو ہفتے کے دن دو گھنٹے کے لیے ملاقات کی اجازت دی گئی جس کی سرپرستی بینش بتول کو سونپی گئی۔ تاہم بعد میں سارہ کا اپنی والدہ سے رابطہ ختم ہو گیا۔
عرفان شریف اور بینش ویسٹ بائیفلیٹ میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے اور سارہ کو مقامی سینٹ میری پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ تاہم ہمسائیوں کو واضح تھا کہ گھر میں سب اچھا نہیں ہے۔ ایک ہمسائے نے عدالت کو بتایا کہ ان کو چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں۔
ایک بار، انھوں نے عدالت کو بتایا، کہ جب یہ آوازیں بہت بلند ہو گئیں تو انھوں نے جا کر پوچھا کہ کیا سب ٹھیک ہے اور بینش نے 'ہاں، ہاں کا جواب دیتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔'
زخموں سے چور جسم
ایک اور ہمسائے کے مطابق اس گھر میں صرف تب خاموشی ہوتی جب عرفان اور ان کے گھر والے باہر جاتے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ تاہم کسی بھی ہمسائے نے کبھی پولیس یا سوشل سروس کو شکایت نہیں کی۔
دسمبر 2020 میں بینش نے اپنی بہن قندیلہ صبوحی کو سارہ کی چند تصاویر ارسال کیں جن میں ان کے چہرے اور بازو پر چوٹوں کے نشان واضح تھے۔ اگلے دو سال بینش نے اپنی بہنوں کو اکثر ایسے پیغام بھیجے جن میں کہا گیا کہ 'عرفان سارہ کو بہت مارتا ہے اور وہ چل نہیں پاتی۔'
ایک رات، ایسے ہی ایک پیغام کے مطابق، ساری رات عرفان نے سارہ سے مشقت کروائی۔ ایک پیغام میں بینش نے لکھا کہ سارہ کو بچانے کے لیے عرفان کو دھکا دینا پڑا، بینش یا ان کی بہنوں میں سے بھی کسی نے پولیس یا سوشل سروس کو اطلاع نہیں دی۔
بینش نے اپنے اہلخانہ کو بتایا کہ سارہ سے سکول میں برا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کی سکول ٹیچر ہیلن سمنز کے مطابق 'سارہ آسانی سے دوست نہیں بناتی تھیں لیکن ان کو سٹیج پر گانا اور پرفارم کرنا اچھا لگتا تھا۔' ہیڈ ٹیچر جیکی چیمبرز کے مطابق سارہ پراعتماد، ہنس مکھ، زندگی اور توانائی سے بھرپور بچی تھی۔
Surrey Police handout
2022 میں جب سارہ کو سکول سے ہٹا لیا گیا تو خدشات بڑھنے لگے۔ ہیلن سمنز کے مطابق یہ عجیب بات تھی۔ تاہم سارہ ستمبر میں سکول لوٹ آئیں۔
اسی دوران سارہ نے حجاب کرنا شروع کر دیا۔ جولائی 2022 کی ایک ویڈیو میں، جو جیوری کو سماعت کے دوران دکھائی گئی، عرفان شریف سارہ کو چار بار تھپڑ مارتے دکھائی دیے۔
حجاب کے باوجود مارچ 2023 تک ہیلن سمنز سارہ کے چہرے پر چوٹوں کے نشان دیکھ رہی تھیں۔ ان کے مطابق یہ تازہ نشان نہیں تھے۔ سارہ نے کہا کہ وہ رولر سکیٹنگ کرتے ہوئے گر گئی تھی لیکن اس کا بیان درست نہیں لگ رہا تھا۔ سارہ نے ایک دوست سے کہا کہ وہ سائیکل سے گر گئی تھیں۔
سکول انتظامیہ نے سوشل سروس سے رابطہ کیا اور ایک بار پھر سرے کاوئنٹی کونسل کی چلڈرن سروس تک معاملہ پہنچا۔ چھ دن کی تفتیش ہوئی اور کونسل نے سکول کو بتایا کہ کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تاہم انھوں نے سکول انتظامیہ سے صورت حال پر نظر رکھنے کو کہا۔ یہ سب 2010 سے پولیس کو سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود ہوا۔
عدالت میں بتایا گیا کہ بینش سارہ کو سکول چھوڑتے ہوئے پنجابی زبان میں گالیاں بھی دیتی تھیں۔ 28 مارچ کو سارہ ایک اور چوٹ کے زخم کے ساتھ سکول پہنچیں۔ بینش نے کہا کہ یہ چوٹ پین کی وجہ سے لگی۔ سکول نے یہ سب نوٹ کر لیا۔
اگلے ماہ عرفان اپنے گھر والوں کے ساتھ ووکنگ میں ایک بڑے مکان میں منتقل ہو گئے۔ سارہ کے چچا بھی ان کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اس وقت کے بعد سارہ سکول نہیں گئیں۔ عرفان نے سینٹ میری سکول انتظامیہ کو ایک ای میل لکھ دی کہ سارہ اب گھر پر ہی پڑھ رہی ہے۔ سکول انتظامیہ کی جانب سے سارہ پر نظر رکھنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔
’وہ پاگلوں کی طرح اسے پیٹتا‘Surrey Police
جوڈی لوزیرون ووکنگ میں عرفان شریف کے ہمسائے میں رہتی تھیں۔ وہ اکثر سارہ کو باغیچے میں دیکھتی تھیں۔ ان کے مطابق سارہ ایک چھوٹے بچے کا خیال رکھتی تھیں۔
تاہم جوڈی نے نہ تو کبھی چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں اور نہ ہی کبھی سارہ کو چوٹوں کے نشان کے ساتھ دیکھا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ 'میں نے اسے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا اور یہ عجیب بات تھی۔ اس کے علاوہ کوئی مشکوک چیز نہیں تھی۔'
25 مئی کو بینش نے اپنی بہن کو ایک پیغام بھیجا اور لکھا کہ 'اس نے پاگلوں کی طرح اسے پیٹا۔ اس کی آکسیجن کم ہو گئی اور اسے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔'
سارہ کی زندگی کے آخری ایام میں ان پر ہونے والا تشدد بڑھتا چلا گیا۔ عرفان شریف نے عدالت میں اقرار کیا کہ انھوں نے کرکٹ بیٹ اور دھاتی ڈنڈے سے سارہ کو پیٹا تھا۔ تاہم سارہ کے جسم پر دانٹ سے کاٹنے کے نشان عرفان شریف کے دانتوں کے نمونوں سے نہیں ملے۔ عرفان نے سارہ کو استری سے جلانے کی بھی تردید کی۔ آخری ہفتوں میں سارہ کی ہڈیاں 25 بار ٹوٹیں لیکن ان کو ایک بار بھی ہسپتال نہیں لے جایا گیا۔
اگست میں فیونا، جو عرفان کے مکان کے عقب میں رہتی تھیں، ایک چیخ سنائی دی۔ چھ اگست کو سارہ کو گھر پر ٹی وی کے سامنے ڈانس کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا جس میں وہ بظاہر ٹھیک تھیں۔ اسی دن ان کی سوتیلی والدہ کے وکیل کے مطابق عرفان نے ان کو ایک بار پھر پیٹا۔
آٹھ اگست کو سارہ کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی۔ عرفان شریف نے فرض کر لیا کہ وہ ڈرامہ کر رہی ہے اور پھر سارہ کو دھاتی ڈنڈے سے دوبارہ پیٹا گیا۔ اسی رات دوسرے بچے، جس کا نام یو بتایا گیا، نے ایک دوست کو ٹیکسٹ میسج کیا: 'ہیلو، ارجنٹ، میری بہن مر گئی ہے۔'
پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ 'سارہ کی موت ایک ایسی بچی کی زندگی کا اختتام تھا جس کے لیے تشدد ایک عام سی بات ہو چکی تھی۔'
سوشل سروس 13 سال سے اس خاندان کے بارے میں واقف تھی۔ والد کو تین بار پرتشدد رویے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ سکول انتظامیہ نے بارہا خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سارہ کو بچایا جا سکتا تھا۔
10 سالہ سارہ شریف کا قتل: پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی ماں مجرم قراربرطانیہ: پاکستانی نژاد خاندان کے قتل کی گتھی 10 برس بعد بھی سلجھ نہیں سکیلندن میں دریا سے ملنے والی لاش کا معمہ جو 20 سال بعد بھی حل نہ ہو سکاسارہ شریف قتل کیس: پاکستانی نژاد والد کا اپنی 10 سالہ بیٹی کو کرکٹ بیٹ سے پیٹنے کا اعترافایک پوڈ کاسٹ جس سے بیوی کے قاتل کو گرفتار کرنے میں مدد ملی