پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر ٹیکس لا ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں۔بدھ کو وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کو قائمہ کمیٹی خزانہ کے سپرد کر دیا گیا ہے جہاں سے بل کی شق وار منظوری لی جائے گی۔قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ٹیکس لا ترمیمی بل 2024 کے مطابق فائلرز سے حقیقی آمدن کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا جبکہ نان فائلرز پر جائیداد، گاڑی کی خریداری اور بینک اکاؤنٹ کھلوانے پر پابندی عائد کی جائے گی۔اس کے علاوہ نان فائلرز سیکیورٹیز یا میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے۔دوسری جانب ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ انتظامی سختیوں سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اس کے لیے حکومت کو ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہو گا اور عوام دوست اقدامات کرنا ہوں گے۔ نان فائلرز کے گاڑی بک کرانے، خریدنے اور رجسٹریشن پر پابندی کی تجویزوزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کی منظوری کی صورت میں نان فائلرز کے گاڑی بک کرانے، خریدنے اور رجسٹریشن پر پابندی عائد ہو جائے گی۔اس کے علاوہ نان فائلرز کےلیے غیرمنقولہ جائیداد کی رجسٹریشن، توثیق یا منتقلی کی بھی ممانعت ہوگی۔ بل کے مطابق بینک ہائی رسک افرد کا ڈیٹا ایف بی آر سے شیئر کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس تناظر میں متعلقہ پراپرٹی رجسٹریشن اتھارٹیز ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں گی۔ تاہم بل میں بتایا گیا ہے کہ نان فائلرز پر گاڑیوں کے حوالے سے پابندیوں کی تجاویز کا رکشہ، موٹر سائیکل، ٹریکٹرز، 800 سی سی پک اپ خریداری پر اطلاق نہیں ہو گا۔کاروبار کی رجسٹریشن نہ کرانے والے بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکیں گےاُردد نیوز کو دستیاب ٹیکس لا ترمیمی بل کے متن کے مطابق کاروبار رجسٹریشن نہ کرانے والے بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکیں گے اور عدم رجسٹریشن پر غیرمنقولہ جائیداد کی منتقلی پر بھی پابندی عائد ہو جائے گی۔اس سلسلے میں متعلقہ کمشنر کو کاروبار سیل اور منقولہ پراپرٹی ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ نان فائلرز کے لیے کرنٹ یا سیونگ بینک اکاؤنٹ کھولنے یا پرانا اکاؤنٹ برقرار رکھنے پر بھی پابندی ہو گی۔ نان فائلرز کو مقرر کردہ حد سے زیادہ رقوم بینک سے نکلوانے کی اجازت نہیں ہو گی۔سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ انتظامی سختیوں سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا (فائل فوٹو: اے ایف پی)ٹیکس لا ترمیمی بل میں بتایا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس رجسٹریشن نہ کرانے پر بھی بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں گے جو سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے دو دن بعد دوبارہ بحال کر دیے جائیں گے۔ حکومت کی جانب سے نان فائلرز کے لیے مجوزہ ترامیم پر ٹیکس ماہر اور سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ انتظامی سختیوں سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا البتہ ان اقدامات سے شخصی آزادی ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’حکومت کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے سب سے پہلے ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ ایف بی آر کو جدید تقاضوں پر استوار کرنا نہایت ضروری ہے۔اُنہوں نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کے ذمہ دار ادارے کو عوام دوست ادارہ بنانا ہو گا۔‘پاکستان میں ٹیکس ریٹ کم کرنا ہوں گے‘ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ’پاکستان میں ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے سب سے پہلے ٹیکس ریٹ کو کم کرنا ہو گا کیونکہ زیادہ ٹیکس دینا پاکستانیوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پہلے سے ٹیکس ریٹ بہت زیادہ ہے، ترقی یافتہ ممالک میں بھی اتنا ٹیکس ریٹ نہیں ہے۔‘معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر سخت اقدامات کر رہی ہے تاہم ان پر عمل درآمد ایک مشکل کام ہو گا۔ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا نان فائلرز کے لیے بینک اکاؤنٹس کھلوانے پر پابندی سے بینکنگ سیکٹر بھی متاثر ہو سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہم اپنی طرف سے سخت ترین اقدامات کر رہے ہیں، اب اگر مثبت نتائج نہیں آ رہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘اُن کے مطابق حکومتوں کو ایسے اقدامات جن کے اثرات شخصی آزادی پر پڑ رہے ہوں، اُن کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیےکیونکہ گاڑیوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس پر پابندیوں جیسے اقدامات عدالتوں میں بھی چیلنج ہو سکتے ہیں۔اُنہوں نے اپنی گفتگو کے دوران مزید بتایا کہ ’نان فائلرز کے لیے بینک اکاؤنٹس کھلوانے پر پابندی جیسے فیصلوں سے بینکنگ سیکٹر بھی متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ بہرحال پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ نان فائلرز کی شکل میں موجود ہے اور وہ مختلف بینکوں کے صارف بھی ہیں۔‘