دفاعی نظام کو چکمہ دینے اور ٹینکوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یوکرینی میزائل اور جدید ڈرونز نے کیسے مقبولیت حاصل کی

بی بی سی اردو  |  Dec 27, 2024

جب یوکرین کی فوج نے ایسے چھوٹے میزائلوں کی فرمائش کی جو سینکڑوں کلومیٹرز تک اڑ سکتے ہوں تو یوکرین کے ڈیزائنرز نے رواں برس ایسے تین چھوٹے کروز میزائل بنائے۔

ان تین میزائلوں کے نام پالیانیسیا، پیکلو اور ٹریمبیٹا ہیں۔ پہلے دو میزائل پہلے سے ہی تیار کیے جا چکے ہیں جبکہ ٹریمبیٹا ابھی ٹیسٹ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

جہاں تک ڈرونز کی بات ہے تو یوکرینی کمپنیاں ابھی بھی ایسے نئے ڈرون تیار کر رہی ہیں جو مواصلاتی نظام کو معطل کرنے والے حملوں کو ناکارہ بنا سکیں اور جنگ میں ممکنہ خطرات کا پتا چلا سکیں۔

اسی طرح یوکرین نے متعدد زمینی ڈرونز بھی تیار کیے ہیں جو مشین گن، گرینیڈ لانچرز اور ٹرانسپورٹ کارگو کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور یہی ڈرون زخمی فوجیوں کو بھی لے جانے کا کام کرتے ہیں اور یہ ڈرون دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کا بھی کام کرتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق 20 دسمبر کو یوکرینی نیشنل گارڈ کی خارتیہ بریگیڈ نے خارخیو کے علاقے میں ایک روسی قصبے لیپتیزی پر ڈرون حملہ کیا۔ یہ روس پر یوکرین کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا ایسا حملہ ہے جس میں صرف ڈرون ہی استعمال ہوئے ہیں، جسے طنزاً روبوٹ کا حملہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

اس حملے میں زمینی ڈرون بھی استعمال کیے گئے جو بھاری مشین گنوں سے مسلحہ تھے۔ اس حملے میں اندھا دھند بمباری کرنے والے ’کامیاکازی‘ ڈرون کا بھی استعمال کیا گیا۔ ان ڈرونز کا نام ان جاپانی فوجیوں کی یونٹ پر رکھا گیا جو خود کش حملے کرتی تھی۔

دھماکہ خیز مواد سے لیس یہ ڈرون ہدف کے آس پاس اس وقت تک اڑ سکتا ہے جب تک اسے حملے کا پیغام نہ ملے۔ ہدف سے ٹکرائے جانے پر دھماکہ خیز مواد پھٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈرون بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

اس حملے میں یوکرین نے بھاری ملٹی روٹر بمباری کرنے والے، ایف پی وی (فرسٹ/ریموٹ پرسن ویو) حملے والے اور ریکی کرنے والے ڈرون بھی استعمال کیے گئے۔

رواں برس ڈیزائنرز نے مزید چھوٹے ایئرکرافٹ بھاری ڈرونز میں نصب کیے ہیں۔

انجینیئرز نے حملہ کرنے والا ایسا ڈرون تیار کیا ہے جو 100 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اسی طرح ریکی کرنے والے ایسے ڈرون تیار کیے ہیں جن میں جدید کیمرے نصب کیے گئے ہیں تاکہ وہ مواصلاتی نظام کے کام نہ کرنے کی صورت میں بھی اپنا کام کر سکیں۔

یوکرین کی طرف سے رواں برس یعنی 2024 میں کوئی سمندری ڈرون ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

میزائل

پالیانیسیا (ایک ٹکڑا) ایک چھوٹے حجم والا کروز میزائل ہے جس کی پہلی بار تقریب رونمائی 2024 میں اگست کے مہینے میں یوکرین کے یوم آزادی کے موقع پر کی گئی۔ اس تقریب میں صدر ولادیمر زیلنسکی نے اس میزائل کا جنگی مقاصد کے لیے کامیاب استعمال کے بارے میں اعلان کیا۔

ابھی تک اس میزائل کے بارے میں بہت کم ہی معلومات دستیاب ہیں۔ سرکاری سطح پر جاری کی جانے والے ایک ویڈیو میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میزائل کی رینج 600 سے 700 کلومیٹر تک بنتی ہے۔ اس میزائل کے بارے میں یہ یوکرینی دعویٰ ہے کہ یہ روس کی سیواسلیکا ایئربیس کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس میزائل میں ٹربو جیٹ انجن ہے تاہم جو سرکاری تصاویر شیئر کی گئی ہیں ان میں ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یہ وار ہیڈ اندازاً 100 کلوگرام وزنی ہے۔

ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے وزیر میخائیلو فیدروف نے کہا کہ میزائل کی فی الحال قیمت ’دس لاکھ ڈالر‘ سے بھی کم ہے، جو بڑے پیمانے پر پیداوار کے دوران نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے چھ دسمبر کو یہ اعلان کیا کہ پیکو کروز میزائلوں کی پہلی کھیپ مسلح افواج کے حوالے کر دی گئی ہے۔ صدر زیلنسکی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ان ڈرونز کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جائے گا۔ یوکرینی ماہرین جنھوں نے اس کی تیاری کے عمل میں حصہ لیا ہے کا کہنا ہے کہ یہ ’ڈرون میزائل ہائبرڈ‘ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا نیا ڈرون ہے جسے جیٹ انجن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

پیکو 700 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 700 کلومیٹر تک اڑان بھر سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماسکو تک پہنچ سکتا ہے۔ اس فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ابھی تک کسی بھی مغربی ملک کی طرف سے یوکرین کو نہیں دیا گیا ہے۔

Reutersکامیکازی ڈرون

اس میزائل کی رہنمائی جی پی ایس کے جڑواں نظام کے ذریعے کی جاتی ہے۔

اس میزائل کو تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی میں مزید جدت لائی جائے گی۔ ملٹری ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میزائل پر دو لاکھ ڈالر تک خرچ آتا ہے۔

اس وار ہیڈ کے وزن سے متعلق ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا ہے تاہم ڈیزائنرز اس کا جنگی ڈرونز سے موازنہ کر رہے ہیں، جو 30 سے 50 کلوگرام تک بارودی مواد لے جا سکتے ہیں۔

ویٹ سائٹ کے مطابق مینوفیکچرر نے تین ماہ میں 100 میزائل تیار کیے ہیں اور مزید ایسے ڈرون بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس عمل کے دوران ممکنہ رکاوٹوں سے بچنے کے لیے میزائل مختلف انجنوں اور دیگر حصوں کا استعمال کر سکتا ہے۔

ٹریمبیٹا (نقارہ) چھوٹے سائز والے کروز میزائل ہیں جن کو ابھی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے اور جلد بڑے پیمانے پر ان کی تیاری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ یہ بات اس منصوبے کے ایک بانی رکن سہریے بیریوکوف نے مقامی ٹی وی کو 25 دسمبر کو بتائی۔ یہ میزائل 30 کلوگرام وار ہیڈ کے ساتھ 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے اور 200 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

ابھی اس میزائل کی ایک اور قسم پر بھی تجربہ کیا جا رہا ہے جو 500 کلومیٹر تک ہدف کا تعاقب کر سکے گا۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یوکرین ٹریمبیٹا سے ماسکو کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ ڈیکوئی میزائل جو دشمن کو دھوکہ دے کر اس کی توجہ اہم ہدف سے کسی اور طرف موڑ لیتا ہے کو سستے میٹریل سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں جیٹ یا ایسی حرکت کرنے والی کوئی ٹیکنالوجی نصب نہیں کی گئی ہے۔

اس میزائل پر تین ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے جبکہ وارہیڈ کے ساتھ اس میزائل پر لاگت 15 ہزار ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ بیریوکوف کا کہنا ہے کہ یوکرین مہینے میں ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں میزائل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ ڈیکوئی میزائل روس کے ایئرڈیفنس پر حاوی ہو سکتے ہیں اور یہ ٹریمبیٹا کو حقیقی وارہیڈز کے ساتھ یا دیگر میزائلوں کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکیں۔

ایئر ڈرونز

ڈریگن ڈرون پہلی بار 2024 میں ستمبر کے مہینے میں سامنے لایا گیا۔ اس کے مؤثر ہونے کی وجہ سے اسے حالیہ عرصے میں بڑے تعداد میں فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔

یہ تھرمائٹ سپرے کر کے دشمن کے اہم اہداف کو جلا دیتا ہے اور یہ ٹینکوں کو بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

روس کی پیروی کرتے ہوئے یوکرین نے مواصلاتی نظام کو جام کرنے والے حملوں کو ناکارہ بناتا ہے جس میں فائبر اوپٹک کیبل تک نصب ہوتی ہے۔ گارودا یونٹ کے کمانڈر نے 22 دسمبر کو آئی سی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان ڈرون کے بارے میں بات کی ہے تاہم انھوں نے اس بارے میں تفصیلات دینے سے انکار کیا ہے۔

25 دسمبر کو یوکرین کی وزارت دفاع نے سچیدرک یعنی کیرل (مذہبی نغمہ) ریکی والے ڈرون کے بارے میں بتایا۔ اس ڈرون کا آپٹکل سسٹمز اسے بلند سطحوں اور ہر طرح کے موسم میں کام کے قابل بناتا ہے۔ وزارت دفاع نے زیادہ تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ اس میں ایک خاموش الیکٹرک انجن ہوتا ہے اور اس کی مواصلاتی نظام کو جام کرنے کے خلاف مزاحمتی صلاحیت بڑھائی گئی ہے۔

2024 میں فرانس میں منعقد ہونے والے یوروسٹیری ایکسپو میں یوکرین نے بلووا (میس) حملے کرنے والے اس ڈرون کو نمائش کے لیے پیش کیا۔ یہ ڈرون یو اے سی کمپنی نے تیار کیا ہے جو اے آئی کے استعمال سے دوران پرواز ٹرمینل سٹیج پر ہی دشمن کے ہارڈویئر میں کمزور جگہوں کو نشانہ بناتا ہے اور اس میں مواصلاتی نظام کو جام ہونے سے بچنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔

پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئیانڈیا کو ملنے والے میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ کی کیا خصوصیات ہیں؟روس کے سوخوئی 35 لڑاکا طیارے جو ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں مشکل بنا سکتے ہیں

اس کا وزن 11 کلوگرام ہے جس میں 3.6 کلوگرام کا وارہیڈ بھی شامل ہے، جس میں الیکٹرک انجن نصب ہوتا ہے اور یہ پچاس منٹ تک 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔

ایک ٹیکنالوجی کے سہارے یہ ڈرون 60 کلومیٹر تک ہدف کا تعاقب کر سکتا ہے۔ یہ مخصوص مقامات کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کے وارہیڈ میں بم پھینکنے کے علاوہ گولہ باری کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔

کئیو کی ایک کمپنی ایروپرکت نے اسے ایک چھوٹے ایئرکرافٹ A-22میں بدل دیا ہے جو 100 کلوگرام تک بارودی مواد لے کر 2000 کلومیٹر تک 130 سے 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ سیٹلائٹ نیویگیشن کا استعمال کرتے ہوئے نچلی سطح پر بھی پرواز کر سکتا ہے۔

اس ائیرکرافٹ کا بہت کم سطح والا ریڈار ہوتا ہے اور اس کا انجن 100 ڈگری سیلسیس پر بھی کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان ڈرونز کو روس کے شہر گروزنی میں چیچن باغیوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

ننجا ڈرون بھی ایک چھوٹا طیارہ تھا جسے کیئو کی ایک کمپنی ایروسر نے ڈرون میں بدلا تھا۔ اس برس اپریل میں ان میں سے ایک ڈرون روس میں گر گیا تھا۔ یہ ڈرون 100 کلوگرام کا بم لے کر گیا اور اس کے پرواز کے آخر مرحلے پر آپریٹر کنٹرول کے لیے اس میں کیمرے نصب تھے۔ ننجا 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 600 کلومیٹر تک اڑان بھر سکتا تھا۔

ریکی والے شیماوک ڈرون نومبر کے آغاز میں فوج کے حوالے کیے گئے۔ چین کے ماویک کے برعکس یہ ایک ٹیکٹیکل ڈرون ہے جو 2.4 کلوگرام تک وزن لے کر جا سکتا ہے، جس کی رینج 15 کلومیٹر تک ہے اور یہ ایک گھنٹہ تک پرواز کر سکتا ہے۔

اس کے اندر موصلاتی نظام جام کرنے کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت، 'نائیٹ وژن' اور ایک اچھے زوم والا کیمرہ نصب تھا۔

دفاع سے متعلق ویب سائٹ کی ایک خبر کے مطابق نگرانی والے پتک ایس (برڈ-ایس) شماوک ڈرون کی طرز کے ہی ہیں اور انھیں فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ 4.8 کلوگرام وزنی ہے اور یہ چالیس منٹ تک پرواز کرتے ہوئے دس کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ ڈیفنس ایکسپریس کے مطابق یوکرین اس طرح کے آٹھ اور بھی ڈرون کے تجربات کر رہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

Getty Imagesزمینی ڈرونز

ٹیرمِٹ نے ایک ایسے ڈرون کو ٹریک کیا جو ٹینکور کمپنی نے تیار کیا اور اسے دسمبر میں یوکرینی فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس ڈرون کو مشین گن، گرینیڈ لانچر یا سامان کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس ڈرون کی مدد سے میدان جنگ سے زخمی فوجیوں کو بھی لے جایا جا سکتا ہے اور بارودی سرنگیں بچھائی جا سکتی ہیں۔ یہ ڈرون 300 کلوگرام وزن اٹھا کر 20 کلومیٹر تک دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جا سکتے ہیں۔ یہ ڈرون اپنے ساتھ 1700 کلوگرام تک وزن بھی لے کر روانہ ہو سکتے ہیں۔ ان میں نائٹ اور انفراریڈ وژن کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔

نومبر میں اس ڈرون کو فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس ڈرون پر 12.7 براؤننگ مشین گین نصب کی جا سکتی ہیں۔ اس نظام کو ڈرویڈ ٹی ڈبلیو 12.7 کہا جاتا ہے اور اسے دسمبر میں فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔

ٹیرمِٹ نے بُرج والے بریا یعنی طوفان ڈرون کو فرنٹ لائن کمپنی کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے جو ایم کے-19 گرینیڈ لانچر کو 1800 میٹر دور تک فائر کر سکتا ہے۔ اس ڈرون کے برج میں ایک خودکار اہداف والا نظام نصب ہے جو متعدد اہداف کا تعاقب کر سکتا ہے اور تیزی سے ایک اہداف سے دوسرے کی طرف مڑ سکتا ہے۔ ملٹرنی ویب سائٹ کی 18 ستمبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق یہ ڈرون 20 سے 30 میٹر تک فائر کر سکتا ہے۔

BBCیوکرینی ڈرون

دسمبر میں یوکرینی فوج کو بکتر بند عظمی یعنی سانپ نامی زمینی ڈرون بھی مل گیا ہے۔ اسے روور ٹیک کمپنی نے تیار کیا ہے۔ عظمی 500 کلوگرام تک سامان اٹھا سکتا ہے یا پھر یہ 1050 کلوگرام تک سامان اپنے ساتھ باندھ کر زمینی سفر کر سکتا ہے۔ یہ ڈرون حملوں اور بارودی سرنگوں کے پھٹنے کے بعد بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔

اسے انسانوں اور ٹینکوں کے خلاف نصب کی جانے والی باردوی سرنگوں کی صفائی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عظمی 30 کلومیٹر تک 13 سے 14 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔

اس کی چوٹی پر متعدد برج یا ایک باردوی سرنگ کی ڈیوائس نصب کی جا سکتی ہے۔

وزارت دفاع نے 18 دسمبر کو یہ بتایا کہ کہ سی آر اے بی- ایل سی ’ویلڈ لینڈ ڈرون‘ کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس میں ایک الیکٹرک انجن نصب ہوتا ہے اور اسے 270 کلوگرام تک سامان لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ڈرون تین زخمی فوجیوں کو ریسکیو کر کے لے جا سکتا ہے۔

اس ڈرون کی سی آر اے بی یعنی کریب-ایم قسم میں پی کے ٹی مشین گن نصب ہوتی ہے، آر پی جی-7 یا آر پی وی-16 گرینیڈ لانچر اس کی چوٹی پر نصب کی جا سکتی ہے۔ یہ ڈرون بارودی سرنگیں بچھا سکتا ہے اور ان کی صفائی بھی کر سکتا ہے۔ یہ 150 کلوگرام تک وزن اٹھا کر لے جا سکتا ہے۔

جون 2024 میں یوکرین ایک ٹی وی چینل پر ویپرک (چوٹھا سور) نامی زمینی ڈرون دکھاتے ہوئے کہا گیا کہ اس ڈرون پر ایک سال سے اگلے محاذوں پر استعمال کے لیے کامیاب تجربات کیے گئے۔ یہ ڈرون بھی سامان ترسیل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ زخمی فوجیوں کو بھی محفوظ مقام تک لے جا سکتا ہے اور اس میں باردوی سرنگیں بھی بچھانے کی بھی صلاحیت ہے۔

اس ڈرون کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور یہ نائٹ وژن کیمرے سے بھی لیس ہوتا ہے۔

یوکرین میں اندھا دھند برسنے والے کامیکازی ڈرون: ’وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور نشانہ بنا رہے ہیں‘پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیں’بوگی مین‘ اور ’ویمپائر‘: یوکرین اور روس ایک دوسرے کے خلاف کون کون سے ڈرون استعمال کر رہے ہیں؟یوکرین جنگ میں روس ’خودکش‘ ڈرون کیسے استعمال کر رہا ہے؟’بائیڈن کی یوکرین کو روس پر امریکی میزائل داغنے کی اجازت ’جلتی پر تیل‘ ڈالنے کے مترادف ہے‘’ایرانی مدرشپ، چینی سازش‘ یا کچھ اور: امریکہ کی فضاؤں میں نظر آنے والے لاتعداد ڈرونز کا معمہ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More