Getty Images
27 دسمبر کی سرد شب کو کابل رات بھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجتا رہا مگر اس کے شہریوں نے وہ رات سو کر گزاری تھی۔ رات گہری ہونے سے قبل ہی شہر کی فضا میں گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں مگر اگلی روز چھوٹے بچے ایک تباہ شدہ حکومتی عمارت کے پاس ایسے سگریٹ بیچ رہے تھے جیسے گذشتہ رات کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
یہ رات افغانستان کے تیسرے صدر اور سوویت نواز جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان کے سیکرٹری جنرل حفیظ اللہ امین کے قلیل مدتی اقتدار کے خاتمے کی رات تھی۔
روڈرِک بریتھویٹ نے اپنی کتاب 'افغانٹسی: دی رشینز ان افغانستان' میں لکھا ہے کہ جب لوگ صبح کو جاگے تو افغانستان کی نئی حکومت اقتدار سنبھال چکی تھی۔ کابل ریڈیو سے (نئے ملکی سربراہ) ببرک کارمل کا پہلے سے ریکارڈ بیان نشر ہو رہا تھا کہ '(حفیظ اللہ) امین کی ٹارچر مشین تباہ کر دی گئی ہے۔۔۔(جس نے) ہمارے ہزاروں ہم وطنوں کو قتل کیا۔'
اقتدار پر بیٹھنے کی خونیں جدوجہد میں حفیظ اللہ امین کو نور محمد ترکئی کو معزول کر کے حکومت سنبھالے ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے۔
نور محمد ترکئی، 1965 میں بنی سوویت نواز جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان کے دو دھڑوں 'خلق' اور 'پرچم' میں سے پہلے دھڑے 'خلق' میں حفیظ اللہ امین کے ساتھی تھے جب کہ 'پرچم' کی قیادت ببرک کارمل کر رہے تھے۔
سنہ 1978 میں انھوں نے مل کر سوویت یونین کے حامی سردار داؤد خان کی حکومت ختم کی تھی جنھوں نے 17 جولائی 1973 کو اس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تھا جب ظاہر شاہ علاج کےلیے ملک سے باہر تھے۔
داؤد حکومت کا تختہ الٹنے کو تاریخ میں ثور انقلاب یا اپریل انقلاب کہا جاتا ہے۔ داؤد خان کو ان کے خاندان سمیت صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس انقلاب میں حفیظ اللہ امین نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
Getty Imagesجب لوگ 28 دسمبر 1979 کی صبح کو جاگے تو افغانستان کی نئی حکومت اقتدار سنبھال چکی تھی، کابل ریڈیو سے (نئے ملکی سربراہ) ببرک کارمل کا پہلے سے ریکارڈ بیان نشر ہو رہا تھا کہ '(حفیظ اللہ) امین کی ٹارچر مشین تباہ کر دی گئی ہے۔۔۔(جس نے) ہمارے ہزاروں ہم وطنوں کو قتل کیا۔‘
یکم مئی 1978 کو نور محمد ترکئی ملک کے صدر اور وزیر اعظم بن گئے جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی انھوں نے اپنے پاس رکھا۔
مارچ 1979 میں حفیظ اللہ امین وزیر اعظم نامزد کیے گئے۔ انھوں نے 14 ستمبر کو نو محمد ترکئی کو معزول کیا اور اقتدار پر قابض ہوئے۔ بعد ازاں نور محمد ترکئی کو قتل کر دیا گیا۔
حفیظ اللہ امین کی مختصر مدت صدارت شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہی تھی۔ وہ اپنے سے پہلے صدر نور محمد ترکئی کو معزول کرکے اقتدار میں آئے تھے اور بعد میں ترکئی کی موت کا حکم دیا۔
حفیظ اللہ امین نے ترکئی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے عناصر کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ان کی حکومت یہ مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی۔
کئی افغان شہریوں نے امین حکومت کے سخت ترین اقدامات (مثلاً ہزاروں افراد کو سزائے موت کی سزادینے کا احکام جاری کرنا) پر انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
سوویت یونین بھی ان سے خائف رہا اور ان پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہونے کے شبہ کا اظہار کرتا رہا۔ اسی دور میں سویت یونین نے افغانستان کے ساتھ 25 سالہ دوستی معاہدے کو توڑتے ہوئے براہ راست ملک میں فوجی جارحیت کرنے کا منصوبہ بنایا۔
’جب روسی فوجی افغانستان میں داخل ہوئے‘Getty Imagesدسمبر 1979 کوافغانستان میں سوویت فوج کی موجودگی
خراب سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوویت یونین نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان میں اپنی فوجیں اتارنا شروعکیں۔ سوویت فوجیوں کی ایک بڑی تعداد آمو دریا کو عبور کرکے زمینی راستے سے افغانستان میں داخل ہوئی تھی جبکہ دیگر فوجی جلاوطن 'پرچمیوں' کے ساتھ ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر اترے تھے۔
جان کولی نے اپنی کتاب 'ان ہولی وارز' میں لکھا ہے کہ 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جاری ہونے والی دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ سوویت قیادت کا خیال تھا کہ حفیظ اللہ امین کے کابل میں امریکی سفارت خانے کے اندر خفیہ رابطے تھے اور وہ 'امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔'
تاہم سٹیو کول نے اپنی کتاب 'گوسٹ وارز' میں بتایا ہے حفیظ اللہ امین کی سی آئی اے ایجنٹ ہونے کی کہانی روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے گھڑی تھی۔
'مایوس ہو کر اور انھیں بدنام کرنے کی امید میں انھوں نے شروع میں جھوٹی کہانیاں لگائیں کہ امین سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔ موسم خزاں میں یہ افواہیں ان پر الٹی پڑ گئیں۔'
آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیاقندھار ہائی جیکنگ: انڈین ایئرلائنز کی پرواز 814 قندھار کیسے پہنچی اور پھر کیا ہواآپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیاافغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی
امین روسی فوجوں کے ملک میں داخل ہونے سے چار روز قبل ہی کابل کے مرکز میں صدارتی محل سے شہر کے جنوب مغربی مضافات میں تاج بیگ محل منتقل ہوئے تھے۔
بریتھویٹ کے مطابق یہ صدارتی محل مضبوط اور سخت سیکورٹی میں تھا، اس کی دیواریں گولہ باری برداشت کر سکتی تھیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ 'اس محل تک آتی ایک سڑک کے علاوہ، جس پر ہیوی مشین گنیں اور توپیں نصب تھیں، تمام سڑکوں پر بارودی سرنگیں بچھی تھیں۔ محل کے اندر حفیظ اللہ امین کے رشتے دار اور اعتبار والے لوگ ان کے محافظ تھے۔محل کی حفاظت کے لیے سات چوکیاں تھیں ہر ایک پر چار سنتری مشین گن، مارٹر گولے اور خودکار رائفلز کے ساتھ تعینات تھے اور ہر دو گھنٹے بعد ان کی ڈیوٹی بدلتی۔ محل کے باہر ڈھائی ہزار صدارتی گارڈ اسلحہ اور ٹینکوں کے ساتھ موجود تھے۔'
سوویت یونین حفیظ اللہ امین سے جان چھڑانا چاہتا تھا
سوویت یونین کافی عرصے سے امین کی پالیسیوں پر خائف تھا اور اسے شبہ تھا کہ امین امریکہ کے ساتھ روابط قائم کر کے افغانستان کو امریکہ کا ٹھکانہ بنا سکتا ہے۔ اس لیے وہ اب اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
بریتھویٹ کے مطابق 'روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی کوشش تھی کہ فوجی آپریشن کی بجائے انھیں قتل کیا جائے۔لیکن ایسی کچھ کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ جب ان کو مارنے کے لیے سنائپر بٹھائے جاتے تو حفیظ اللہ امین راستہ بدل لیتے۔
حتیٰ کہ 13 دسمبر کو انھیں پیپسی کولا کے ذریعے زہر دینے کی کوشش کی گئی جس سے حفیظ اللہ امین تو متاثر نہیں ہوئے لیکن ان کے بھانجے ضرور بیمار ہو گئے۔'
سٹارم 333 آپریشن اور کابل میں اترتے ’چھاتا بردار‘
بریتھویٹ لکھتے ہیں کہ 'سٹارم 333 نامی اس آپریشن سے گھنٹوں پہلے امین نے اپنے محل میں ایک دعوت منعقد کی۔انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سوویت یونین ان کی مدد کے لیے فوجی بھیج رہا ہے۔ چھاتا بردار کابل میں اتر رہے ہیں، سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ میں اور (روسی وزیر خارجہ) کامریڈ گرومیکو ہمیشہ فون پر رابطے میں ہوتے ہیں اور ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ بیرونی دنیا کے لیے کون سا بیانیہ اپنانا ہے۔'
بریتھویٹ لکھتے ہیں لیکن اس دعوت کے دوران حفیظ اللہ امین اور ان کے کئی مہمان کھانا کھاتے ہوئے بے ہوش ہو گئے۔
'کھانے کو معائنے کے لیے بھیجا گیا اور افغان باورچیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ فوجی ہسپتال اور سوویت سفارت خانے کے پولی کلینک سے مدد طلب کی گئی۔ ڈاکٹروں نے دیکھا کہ لوگ سیڑھیوں پر اور کمروں میں بے ہوش پڑے تھے، جو ہوش میں آچکے تھے درد سے دوہرے ہو رہے تھے۔'
ان تمام افراد کو زہر دیا گیا تھا۔ جو مبینہ طور پر روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی ایجنٹ مخائل طالبووف نے دیا تھا جنھیں باورچی کے روپ میں امین کے عملے میں رکھوایا گیا تھا۔
سوویت ڈاکٹروں نے جب امین کو دیکھا تو وہ صرف زیر جامہ میں تھے۔ بے ہوشی کے عالم میں ان کی ٹھوڑی لٹکی ہوئی تھی اور نبض کمزور چل رہی تھی۔
'چھ بجے تک ڈاکٹر انھیں بچانے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا: کیا ہوا تھا؟ کیا یہ حادثہ تھا یا سبوتاژ؟'
جب انھیں 'زہر نہ دیا جا سکا تو 27 دسمبر 1979 کی شام سوویت فوجیوں نے آپریشن کا آغاز کر دیا۔ محل پر قبضہ ہو چکا تھااور بیمار حفیظ اللہ امین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔'
انھوں نے اپنے ایجوٹنٹ سے کہا کہ سوویت فوجی مشاوروں کو فون کرے 'سوویت مدد کریں گے۔'
ایجوٹنٹ نے کہا کہ یہ سوویت ہی تو ہیں جو فائرنگ کر رہے ہیں۔ یہ سننے پر حفیظ اللہ امین نے طیش میں آ کر اس پرایش ٹرے پھینکی اور کہا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
لیکن جب انھوں نے خود چیف آف افغان جنرل سٹاف سے بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہو سکی تو منھ ہی منھ میں بڑبڑائے 'مجھے یہی شک تھا۔ یہ سب سچ ہے۔'
سوویت فوجیوں کو اپنے ساتھیوں کو پہچاننے کے لیے گالیاں دینا پڑیں
بریتھویٹ کے مطابق محل کے اندر لڑائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوویت فوجیوںکو اپنے ساتھیوں کو پہچاننے کے لیے مخصوص گالیاں دینا پڑیں۔
حفیظ اللہ امین کے خلاف آپریشن کرنے والے گروپ کے نائب کمانڈر اولیگ بالاشوف کے مطابق اس گروپ کی قیادت الفا اور ویمپیل کے دو ایلیٹ یونٹس کر رہے تھے اور ہر گروپ میں 15 سے 20 فوجی کمانڈو شامل تھے۔
انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ الفا گروپ نے حفیظ اللہ امین کو نشانہ بنایا اور ویمپل گروپ کے پاس حقائق سے متعلق ثبوت جمع کرنے کا کام تھا کہ حفیظ اللہ امین امریکہ کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
دونوں گروہوں کو خفیہ طور پر افغانستان لایا گیا اور انھیں مسلم بٹالین کے ساتھ ملا کر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ آپریشن مقامی یونٹوں نے کیا ہے جبکہ حقیقت میں تقریباً تمام کام الفا اور ویمپل کے ذریعے کیے گئے تھے۔
آپریشن سے پہلے بالاشوف نے ایک سوویت سفارت کار کے محافظ کے بھیس میں علاقے کا سروے کیا تھا۔
امین کی جان کیسے گئی، اس بارے میں مختلف تفصیلات ہیں۔ تاہم اسی رات امین کی لاش کو محل سے قالین میں لپیٹ کر باہر لے جایا گیا اور ایک خفیہ قبر میں دفن کر دیا گیا۔
امین کا قتل پرچم دھڑے کی حمایت سے افغانستان پر قبضہ کرنے کے ایک بڑے سوویت منصوبے کا حصہ تھا۔
بہرحال سوویت آپریشن کے دوران افغان فورسز کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ افغان محل کے 30 محافظ اور 300 سے زیادہ فوجی مارے گئے جبکہ دیگر 150 کو گرفتار کر لیا گیا۔ امین کے دو بیٹے، ایک 11 سالہ اور دوسرا نو سالہ، جھڑپوں کے دوران آنے والے زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گئے۔ امین کی بیوی اور بیٹی بھی زخمی ہوئیں لیکن وہ بچ گئیں۔
آپریشن کے نتیجے میں سوویت افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے کل 1700 افغان فوجیوں کو قید کر لیا گیا۔
سوویت یونین نے پرچم دھڑے کے رہنما ببرک کارمل کو امین کا جانشین مقرر کیا۔
کابل ریڈیو پرامین کی موت کا باضابطہ اعلان نیو یارک ٹائمز نے 27 دسمبر 1979 کو یوں رپورٹ کیا 'امین کو ریاست کے خلاف جرائم کے لیے ایک انقلابی مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی اور اس سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔'
اس وقت کی ایک کہانی یہ تھی کہ امین کے معزول ہونے تک ایک سابقہ وزیر مواصلات سید محمد گلاب زوئے نے امین کو قتل کر دیا تھا، جو اس حملے کے دوران میں دو دیگر سابق وزرا کے ساتھ موجود تھے تاکہ اس بات کا یقین دلایا جا سکے کہ یہ افغانوں کے زیر کنٹرول آپریشن تھا۔
تمام کارروائی میں پون گھنٹے سے کم وقت لگا لیکن اس نے افغانستان کی اگلی کئی دہائیاں خون آلود کر دیں۔
جب محل میں لڑائی رک گئی تو ایک سوویت کرنل نے اپنی کمانڈ پوسٹ وہاں قائم کر لی۔
بریتھویٹ لکھتے ہیں کہ فاتح سوویت فوجی تھکاوٹ سے چور تھے لیکن چونکہ افغان فوجیوں کے حملے کا اب بھی خدشہ تھا لہذا وہ چوکنا تھے۔
جب انھوں نے لفٹ شافٹ کی آواز سنی توانھیں لگا کہ امین کے لوگ محل کے باہری راستے سے جوابی حملہ کرنے والے ہیں۔ انھوں نے اسلحہ تان لیا، آٹومیٹک ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور گرنیڈ پھینکے۔ مگر یہ محل کی بلی تھی۔
آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیاقندھار ہائی جیکنگ: انڈین ایئرلائنز کی پرواز 814 قندھار کیسے پہنچی اور پھر کیا ہواجب لندن کی سڑکوں پر شراب کا جان لیوا سیلاب آیا’فلائیٹ 49‘: وہ پانچ سال جب ہر دو ہفتوں میں امریکا کا ایک طیارہ ہائی جیک ہوتا تھاافغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی