Getty Images
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادکاری کو وسعت دینے کے فیصلے کے بعد سے اس علاقے کی مشرقِ وسطیٰ میں سٹریٹیجک اہمیت ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے۔
گولان کی پہاڑیاں شام کے جنوب میں واقع ہیں اور یہ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد کا ایک حصہ ہیں۔
اس خطے کی حیثیت متنازع ہے اور جہاں امریکہ نے سنہ 2019 میں اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا تھا وہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک کے نزدیک گولان وہ شامی علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
جہاں اس علاقے کی سٹریٹیجک اہمیت ہے وہیں اس کی مذہبی اہمیت اور قدیم تاریخ کے بارے میں کم ہی بات ہوتی ہے تاہم یہودی آبادکاروں کی جانب سے اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔
کتاب ’دی جائنٹ سٹیز آف بشان اینڈ سریاز ہولی پلیسز‘ میں اس علاقے کو ’مقدس رومانس کی سرزمین‘ کہا گیا ہے جس کے بارے میں ’قدیم بادشاہتوں سے جڑی پراسرار اور عجیب‘ کہانیاں آج بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔
جس جگہ کو آج ’گولان ہائٹس‘ کا نام دیا جاتا ہے یہ اور اس کے اردگرد کے کچھ علاقے یوں تو اب ملکوں کی سرحدوں کی درمیان تقسیم ہو چکے ہیں لیکن قدیم زمانے میں اس علاقے کو ’بشان‘ کا نام دیا جاتا تھا۔
بشان یہاں کے مویشیوں اور بلوط کے درختوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں، جو زیادہ تر بنجر زمین پر مشتمل ہے، پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
گولان کی پہاڑیوں اور بشان کے خطے پر مختلف ادوار میں مختلف سلطتنتوں کی حکمرانی رہی جن میں رومن سلطنت، بازنطینی سلطنت، پھر چھٹی صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں اور ترکوں کی حکمرانی رہی۔ گولان میں یہودی آبادکاریاں سنہ 1880 کے بعد سے ہونا شروع ہوئی تھیں۔
Getty Imagesگولان کو انجیل میں ’پناہ کا شکار‘ کیوں کہا گیا؟
بشان خطے میں جولان (موجودہ گولان) ایک شہر تھا جسے انجیل میں ’چھ پناہ کے شہروں‘ میں سے ایک قرار دیا گیا۔ یہ شہر وہ تھے جن میں ایسے لوگ پناہ لے سکتے تھے جنھوں نے کسی کا حادثاتی طور پر قتل کیا ہو۔
جان آر میکڈف کی کتاب ’دی سٹیز آف ریفیوج‘ کے مطابق پیغمبر موسیٰ پر نازل کیے گئے قوانین کے مطابق جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے والے کو سزائے موت دی جاتی لیکن اگر کسی سے قتلِ خطا ہو جاتا تو وہ کسی ’پناہ کے شہر‘ میں ٹھہر سکتا تھا جہاں اسے کسی بھی بدلے کا ڈر نہ ہوتا۔
یہاں یہ شخص اس وقت تک ٹھہر سکتا تھا جب تک مقدمہ عدالت میں نہ چل جاتا اور یہ ثابت نہ ہو جاتا کہ یہ واقعی قتلِ خطا تھا۔ اس حوالے سے تورات کی پانچویں کتاب ڈیوٹرانمی میں بھی حوالے موجود ہیں جبکہ کتابِ یشوع میں بھی اس کا ذکر ہے۔
انجیل میں کتابِ ڈیوٹرانمی میں بشان کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔
دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہیاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟
انجیل کے اولڈ ٹیسٹیمنٹ میں درج ہے کہ پیغمبر موسیٰ جب بنی اسرائیل کو لیے بشان کے علاقے میں پہنچے تو یہاں کے طاقتور بادشاہ اوگ سے ان کی جنگ ہوئی۔ انجیل کے مطابق خدا کی جانب سے پیغمبر موسیٰ کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انھیں بادشاہ اوگ پر فتح حاصل ہو گی۔
اس وقت بنی اسرائیل کے لیے بشان پر قبضہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ یہ ایک زرخیز جگہ تھی اور اسے فتح کرنے کے بعد انھیں اس زمین تک پہنچنے میں آسانی ہو جانی تھی جس کے بارے میں تورات کے مطابق خدا کی جانب سے پیغمبر ابراہیم اور ان اولاد سے وعدہ کیا گیا تھا۔
بادشاہ اوگ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی طاقتور انسان تھا۔ کتاب 'فوربڈن پاتھز ان دی لینڈ آف اوگ' کے مطابق اوگ اپنی سلطنت سے بنی اسرائیل کو گزرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا اور اسی لیے پیغمبر موسیٰ کو اس سے جنگ کرنی پڑی۔
Getty Imagesگولان کی پہاڑیاں، بارش کا پانی اور زرخیز زمین
کتاب ’دی جائنٹ سٹیز آف بشان اینڈ سریاز ہولی پلیسز‘ کے مطابق گولان کی پہاڑیوں کی بلندیوں سے بہہ کر نیچے آنے والا بارش کا پانی دریائے اردن میں داخل ہوتا ہے جو اسرائیل میں موجود بحیرۂ طبریا میں پانی کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔
اس کی بدولت اس دریا کے اِرد گرد کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ یہاں انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں جبکہ یہ زمین مویشیوں کے لیے چراگاہیں بھی فراہم کرتی ہے۔
یہی وہ پانی کا ذریعہ ہے جس کے باعث اسرائیل کے لیے اس خطے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
بحیرۂ طبریہ یوں تو اسرائیل میں ہی موجود ہے اور اس کا شمار موجود گولان ہائٹس یا ماضی کے بشان کے خطے میں نہیں کیا جاتا لیکن اس کے حوالے سے انجیل کے نیو ٹیسٹیمنٹ میں پیغمبر عیسیٰ کے چند واقعات ضرور موجود ہیں۔
پیغمبر عیسیٰ کا بحیرۂ طبریہ کے پانیوں پر چلنے کا معجزہ انجیل کی کتابوں میتھیو، مارک اور جان میں درج ہے۔ اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’جب پیغمبر عیسیٰ کے ماننے والوں کو بحیرۂ طبریہ میں طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ پانی پر چلتے ہوئے ان کی کشتی تک پہنچتے ہیں اور انھیں بچانے کے لیے طوفان کو تھمنے کا حکم دیتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ عبرانی انجیل یا اولڈ ٹیسٹمنٹ میں کتاب ’جینیسز‘ میں خدا کی جانب سے پیغمبر ابراہیم سے کیا گیا وہ وعدہ بھی درج ہے جس میں کہا گیا ’خدا نے تمھاری اولاد کو دریائے مصر سے عظیم دریا، دریائے فرات تک کی زمین دے دی ہے۔‘
Getty Imagesگولان کی پہاڑیوں پر کون رہتا ہے؟
گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں آباد زیادہ تر شامی عرب باشندے سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے۔
گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20,000 افراد رہائش پذیر ہیں۔ اسرائیلیوں نے 1967 کے تنازعے کے اختتام کے فوراً بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دیں تھیں۔
یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں مگر اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے۔
یہ یہودی آباد کار یہاں بسنے والے ان تقریباً 20,000 شامیوں کے ساتھ رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دروز فرقے سے ہے اور جو گولان پر اسرائیلی قبضے کے دوران یہاں سے نکلے نہیں تھے۔
شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین (گولان کی پہاڑیاں) ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں اور ان کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہبشار الاسد کے زوال کے بعد نتن یاہو کا گولان پر نئی آبادکاری کا منصوبہ لیکن اسرائیل کے لیے یہ پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟سابق اسرائیلی ایجنٹوں کے انکشافات: خفیہ ایجنسی موساد نے لبنان میں ’پیجر حملوں کا منصوبہ‘ کیسے بنایا؟’غریبوں کی کوکین‘: بشار الاسد کے بعد اب شام کی 5.6 ارب ڈالر کی ’منشیات کی سلطنت‘ کا کیا بنے گا؟اسرائیلی وزیر نے فلسطینیوں کے بارے میں ایسا کیا کہہ دیا کہ امریکہ نے بھی مذمت کر دی؟ ایک ہاتھ میں رائفل دوسرے میں بائبل: برازیل کے طاقتور نارکو گینگز جو خود کو ’خدا کا سپاہی‘ کہتے ہیں