’عربوں کا نپولین‘ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود جنھوں نے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھی

بی بی سی اردو  |  Jan 06, 2025

شہزادہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود کے ہمراہ ان کا خاندان اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو ملا کر کل 60 افراد تھے جب انھوں نے پانچ جنوری 1902 کو ریاض شہر کو الراشد خاندان کے ہاتھوں سے واپس حاصل کر کے اس کے حاکم بن گئے۔ بعد ازاں ریاض کے شہریوں نے بھی ان کے ہاتھوں بیعت کر لی۔

لیکن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود کون تھے جنھوں نے جدید سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے بادشاہ بنے؟

عبدالعزیز السعود 1876 میں ریاض کے حاکم خاندان السعود میں پیدا ہوئے۔

تاہم ان کے خاندان کو اپنے حریف اور نجد کے حاکم الراشد خاندان کے ہاتھوں شکست ہو گئی جس کے بعد محض 10 برس کی عمر میں انھیں اپنے خاندان کے ہمراہ ریاض چھوڑنا پڑا۔

ان کے والد عبد الرحمٰن بن فیصل بن ترکی السعود دوسری سعودی ریاست کے آخری حاکم تھے جب کہ ان کی والدہ کا نام سارہ بنتِ اگمد الکبیر بن محمد بن ترکی بن سلمان السدیری تھیں۔

جدید سعودی عرب کا قیام

جنوری سنہ 1902 میں عبدالعزیز السعود کویت سے اپنے خاندان اور حامیوں پر مشتمل 60 افراد کے قافلے کے ساتھ ریاض پہنچے اور وہاں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

ستمبر 1904 میں انھوں نے جنگِ الشنانة میں الراشد خاندان کو شکست دے کر القصيم پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کے بعد نجد کے بیشتر حصوں پر ان کی حکمرانی قائم ہو گئی۔

سنہ 1912 میں وہابی نظریے کے تحت ’اخوان من اطاع الله‘ (خدا کی اطاعت کرنے والے بھائیوں) تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس نے عبدالعزیز کو بڑی مدد فراہم کی۔

عبدالعزیز نے 1913 میں الاحسا کی جانب پیش قدمی کی اور سلطنت عثمانیہ سے اس کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

خانہ کعبہ کا محاصرہ: 45 سال پہلے کیا ہوا تھا؟سعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفرجب 50 سال قبل عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیازبیدہ بنت جعفر: جب عباسی ملکہ نے لاکھوں دینار کی نہر بنوا کر کہا ’حساب قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں‘BBC

سنہ 1921 میں شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کی قیادت میں السعود فورسز نے عسیر پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اسی سال السعود کی فوجیں الراشد خاندان کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے حائل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور اس کے ساتھ ہی پورے نجد پر السعود خاندان کی حاکمیت قائم ہوئی اور عبدالعزیز نے خود کو نجد کے سلطان کا لقب دیا۔

دوسری جانب حجاز کے حاکم شریف حسین کے ساتھ بھی عبدالعزیز کے تعلقات کافی کشیدہ تھے۔

سنہ 1924 میں عبدالعزیز کی فوج طائف اور مکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تاہم جدہ پر قبضہ کرنے میں انھیں مزید ایک سال سے زیادہ لگ گیا اور بالآخر دسمبر 1925 ان کی فورسز وہاں بھی داخل ہو گئیں۔

1926 میں، عبد العزیز نے مکہ کی مسجد الحرام میں حجاز کے بادشاہ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔

سعودی ریاست اور انقلاب

خلیج عرب کے ساحلوں پر برطانیہ کی موجودگی اور بین الاقوامی حالات کے پس منظر میں عبدالعزیز السعود نے جدید سعودی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھنی چاہے لیکن اس کام میں انھیں اپنے ہی اتحادیوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اخوان من اطاع الله نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا جس نے دونوں کے درمیان تصادم کو جنم دیا۔

اخوان کی جانب سے عراق اور کویت پر حملے کیے گئے اور انھوں نے حجاز کے الحاق کے بعد حکام کو چیلنج کر دیا۔

اخوان سادہ رسومات کو بھی بت پرستی کا مظہر سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے السعود کی حاکمیت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔

تحریک نے عبدالعزیز کے کویت اور عراق پر حملہ نہ کرنے کے حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد مارچ 1929 میں زلفی کے مقام پر السعود کی فوجوں اور اخوان کے درمیان تصادم ہوا جس میں تحریک کو شکست ہوئی اور اس کے ارکان کویت واپس چلے گئے جہاں انھوں نے انگریز فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

اس کے بعد تیسری سعودی ریاست وجود میں آئی۔ اس سے قبل 1921 تک اس کا نام امارت نجد اور الاحساء تھا جب کہ 1922 تک اس کا نام سلطنت نجد تھا۔

سنہ 1926 تک یہ سعودی ریاست سلطنت نجد اور اس کے انحصار کہلائی جاتی رہی اور 1932 تک یہ سلطنت حجاز اور نجد اور اس کے انحصار کے نام سے جانی جاتی رہی جب تک سعودی عرب کی مملکت کے قیام کا اعلان نا کر دیا گیا۔

عبدالعزیز آل سعود کو کئی القابات دیئے گئے جن میں عربوں کا نپولین، بسمارک، صحرا کا کرم ویل اور نیا بادشاہ سلیمان شامل ہیں۔

سقوط غرناطہ: جب مسلمان حکمران نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں97 برس قبل جب شاہ عبدالعزیز بغیر کسی خون خرابے کے مملکتِ حجاز کے بادشاہ بنےوہ انجینیئر جنھوں نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن کے عوض سعودی حکومت سے معاوضہ لینے سے انکار کیاجب شاہ ایران نے مغرب کو متنبہ کیا کہ ’ہمیں پرشیا نہ پکارا جائے‘کیا رعمسیس ثانی ہی حضرت موسیٰ کا ہم عصر وہ فرعون تھا جس کا ذکر قرآن اور انجیل میں بھی آیا؟کیا ٹیپو سلطان اپنے مخالفین پر انتہائی تشدد کروانے کے قائل تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More