’آپ کی بچہ دانی جنین منتقلی کے لیے تیار ہے‘: آئی وی ایف اور اسقاطِ حمل کے دکھ کے درمیان برسوں اولاد کا انتظار کرنے والی خاتون کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Jan 08, 2025

BBC

’آپ کی بچہ دانی جنین کی منتقلی کے لیے تیار ہے۔‘ ڈاکٹر ڈیاز نے یہ بات مجھے میرے پیٹ کے الٹراساؤنڈ سکین کے دوران بتائی۔ یہ بچہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہمارا آئی وی ایف کا چوتھا راؤنڈ تھا۔

میں گذشتہ نو سال سے حاملہ ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور یہ سن کر میں بہت خوش بھی ہوئی اور خوفزدہ بھی کہ کہیں یہ صورتحال بھی پہلے جیسی نہ ہو۔

پہلے بھی جب ہم نے آئی وی ایف کا طریقہ کار آزمایا تھا تو ابتدا میں چیزیں معمول کے مطابق تھیں، میں بہت خوش ہوتی لیکن پھر مایوسی اسقاطِ حمل کی شکل میں ہمیں آ دبوچتی۔ مجھے یہ سوچ کر بھی اضطراب ہو جاتا ہے۔

مجھے اور میرے شوہر کو سنہ 2016 میں جاپان کے ایک نجی کلینک میں معلوم ہوا کہ ہم دونوں بانجھ ہیں۔ میں 33 سال کی تھی اور میرے شوہر سیبیسٹیئن 36 برس کے۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ مسئلہ میرے غیر متوازن ہارمون اور میرے شوہر کے سپرمز کی حرکت کا طریقہ ہے، جس کے باعث مردانہ بانجھ پن ہو سکتا ہے۔ اب میری عمر بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ بڑھتی عمر کے ساتھ بیضوں (یعنی تولیدی انڈوں) کی کوالٹی میں بھی کمی آتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک شخص بانجھ پن کا شکار ہوتا ہے۔

BBCاینا مریا اور ان کے شوہر

جب ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ہم آئی وی ایف (ان وائٹرو فرٹیلائزیشن) کو بھی آزما سکتے ہیں تو ہمارا تعارف ایک نامعلوم دنیا سے ہوا۔ ہمیں اس بارے میں معلومات تو تھیں کہ ایسے حمل سے کیسے بچا جا سکے جس کی آپ خواہش نہیں رکھتے لیکن کبھی اس بارے میں کسی نے نہیں بتایا کہ بانجھ پن سے کیسے گزرنا ہے۔

ہمارے پاس تب تک بہت کم معلومات تھیں اور پھر ہم اس دھچکے کو سہنے کے بعد یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے کہ اگر ہمارا بچہ ہوا تو وہ سیکس کے باعث نہیں بلکہ آئی وی ایف کے ذریعے ہی ہو گا۔

یوں ہماری جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اس تشخیص کے بعد سے ہمیں نو سال میں تین ناکام راؤنڈز آف آئی وی ایف سے گزرنا پڑا جن میں سے دو مرتبہ اسقاطِ حمل سے گزرنا بھی شامل ہے۔

کچھ عرصے تک مجھے شرم محسوس ہوتی رہی اور میں اپنے بانجھ پن کے بارے میں خاموش رہی۔ لوگ اس بارے میں بات نہیں کرتے کہ وہ کیسے حاملہ ہوتے ہیں لیکن مجھے معلوم ہوا کہ خاموشی بھی اس مسئلے کا ایک حصہ ہے۔

مجھے امید ہے کہ اس بارے میں بات کرنے سے لاکھوں افراد کی مدد ہو سکے گی تاکہ وہ بہتر علاج کروا سکیں یا اس بارے میں بات کرنے میں بہتر محسوس کریں۔

BBC

آئی وی ایف کے دوران خاتون کی بیضہ دانی سے بیضے نکالے جاتے ہیں اور انھیں لیبارٹری میں سپرم کے ساتھ فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔ یہ فرٹیلائزڈ بیضہ جنین کہلاتا ہے اور اسے خاتون کی بچہ دانی میں منتقل کیا جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ یہ یہاں پروان چڑھے گا۔

اب ہم لندن میں رہتے ہیں۔ یہاں ایک نجی کلینک میں الٹراساؤنڈ کروانے سے پہلے میں نے 10 روز تک ہارمونز کی بھاری مقدار انجیکشن کے ذریعے لگائی تاکہ میں ان بیضوں کو اپنی بچہ دانی میں بڑھنے میں مدد کر سکوں۔

ہدف یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایسے بیضے بنائے جائے جنھیں فرٹیلائز کیا جا سکے۔ اس مرتبہ 26 جنین بنے۔ کلینک میں مجھے بتایا گیا کہ یہ مکمل کامیابی ہے۔

لیکن پانچ کے انتظام کے بعد جب دوبارہ جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ صرف چھ جنین بچے ہیں۔ جینیاتی ٹیسٹ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے صرف ایک صحت مند تھا جو میری بچہ دانی میں منتقل کیا جا سکتا تھا۔

اس لیے جب ڈاکٹر ڈیاز نے مجھے اس حوالے خوشخبری سنائی تو میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں ہمیشہ سے ایک پرامید خاتون رہی ہوں اور اس مرتبہ مجھے یقین تھا کہ یہ کام کر جائے گا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ پانچ روز میں ہم اسے منتقل کر دیں گے اور اس مرحلے میں درد نہیں ہو گا۔

BBC

جب بالآخر وہ دن آیا اور میں اور سیبیسٹیئن کلینک پہنچے تو ہم دونوں ہی خاصے مضطرب تھے۔ ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ ہم پرفیوم استعمال نہ کریں یا خوشبو والی مصنوعات بھی استعمال نہ کریں کیونکہ یہ اس امپلانٹیشن میں مسئلہ بن سکتی ہیں۔

انھوں نے ہم دونوں کو سرجیکل لباس پہنائے اور سیبیئسٹیئن کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا کہ یہ چھوٹا سا جنین ہمارے بچے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ انھوں نے پورے مرحلے کے دوران میرا ہاتھ نہیں چھوڑا اور ان کی اس حرکت نے میرے دل میں اس کی محبت مزید بڑھا دی۔ مجھے خیال آیا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم یہاں ایک ساتھ ہیں، دوبارہ کوشش کر رہے ہیں اور میرے لیے یہ زندگی کا ایک تحفہ ہے۔

اگر سب کچھ ٹھیک رہا اور جنین امپلانٹ کر دیا گیا تو میں ایچ جی سی بنانا شروع کر دوں گی، یہ حمل کے دوران پیدا ہونے والا ہارمون ہے۔ اس دوران مجھے ادویات لینی ہوں گی جن کے لیے میں نے فون پر روزانہ تین الارم لگائے ہوتے، صبح آٹھ بجے دو ملی گرام کی اوسٹراڈیول، صبح بجے 400 ملی گرام کی پروگیسٹرون، یہ دونوں ہارمونز حمل میں مدد کرتے ہیں اور رات نو بجے کلیکسین کا انجیکشن، ایک ایسی دوا جس سے کلاٹس یا خون جمنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

گھر پر میں ایسی صورتحال کے بارے میں سوچنے لگی کہ اگر میں واقعی حاملہ ہو گئی تو میرے شوہر، والدین، خاندان اور دوست کتنے خوش ہوں گے۔

اپنا پیٹ بڑھتے دیکھ کر، اپنی زندگی کے اس لمحے کو میں کیسے شیئر کروں گی اور یہ طویل سفر بالآخر ختم ہو جائے گا۔

میں یہ بھی سوچتی کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ہم اس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے امید اور خوشی کے جذبات کے ساتھ مجھے دکھ بھرے خیالات بھی آتے ہیں۔ ایک اور ناکام علاج کی مایوسی کا خوف یا اس سے بھی برا کہ جنین تو کامیابی سے امپلانٹ ہو گیا لیکن ہمیں اسقاطِ حمل کے باعث بچہ کھونا پڑا۔

’نہیں‘، میں نے اپنے آپ کو بتایا کہ ’اس مرتبہ چیزیں مختلف ہوں گی۔‘

سائنسدان پہلی بار آئی وی ایف کی مدد سے گینڈے کو حاملہ کرنے میں کامیابآئی وی ایف مکس اپ: ’ہمارے ہاں ایک اجنبی کے بچے کی پیدائش ہوئی تھی‘’میری بیٹی کو کھوپڑی کے بغیر بچہ پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا، میں لڑ رہی ہوں تاکہ ایسا کسی اور کے ساتھ نہ ہو‘آن لائن کی دنیا اور اسقاط حمل کے بارے میں گمراہ کن موادجنگ کی ساتھیBBC

بانجھ پن کے حوالے سے اب بھی چند مفروضے اور دقیانوسی خیالات موجود ہیں لیکن ویسے تو یہ بات خاصی عجیب لگے گی لیکن میرے بانجھ پن کے باعث مجھے ایک خوبصورت تحفہ بھی ملا، یعنی لارا۔ میں اسے اپنا جنگ کا ساتھی کہتی ہوں۔

وہ میری سب سے قریبی دوستوں میں سے ایک ہے اور حالانکہ وہ بیونس آئرس میں رہتی ہے لیکن میرے لیے یہ تھیراپی جیسا تھا کہ میں کسی ایسی خاتون کے ساتھ بات کر سکوں جسے معلوم ہو کہ میں کس کرب سے گزر رہی ہوں اور میں اس کے سامنے رو بھی لوں اور ہر ہنس بھی۔

ہم نے ایک دوسرے کو ہر قسم کے علاج، ہر ناکامی اور ہر خوشی کے بارے میں بتایا۔ لارا کی حال ہی میں آٹھ سال کے علاج کے بعد بیٹی ہوئی، جس کا نام اس نے نیٹیلی رکھا۔

انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ انھیں کیسے محسوس ہوتا تھا جب ان کی دوستوں کے بچے ہوتے تھے: ’یہ ایک مشکل سفر ہے، کیونکہ آپ کو برا محسوس ہوتا ہے جب آپ کسی دوسرے کے لیے خوش نہ ہو سکیں۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ زندگی کی اچھی چیزوں سے محظوظ نہیں ہو پا رہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ جمود کا شکار ہیں اور پرسکون انداز سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔‘

ارجنٹینا میں دنیا بھر میں اس حوالے سے بہترین علاج موجود ہے۔ ہر مریض کو تین سرکاری طور پر فنڈ کیے گیے علاج کروانے کی اجازت ہوتی ہے۔

اور اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ فرٹیلیٹی پر خاطر خواہ تحقیق نہیں ہوئی اور علاج کی رقوم سرکاری طور پر ادا نہیں کی جاتیں اور یہ دنیا بھر اکثر افراد کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے اپنے اراکین کو فرٹیلٹی کیئر تک عوام کی رسائی یقینی بنانے کے درخواست کی جاتی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاکھ افراد کو اس مہنگے علاج کی قیمت اپنی جیب سے دینی پڑتی ہے۔ حالانکہ اس طرح کے علاج کی کامیابی کی شرح خاص کم ہے، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق تقریباً 22 فیصد۔

ایک حالیہ تحقیق میں سپین، ناروے، برطانیہ، جرمنی، ڈینمارک، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آئی وی ایف کی قیمت پر تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ ایک جنین کی منتقلی جس کے نتیجے میں بچے کی پیدائش ہو اس میں چار ہزار 230 ڈالر سے 12 ہزار 680 ڈالر تک کا خرچہ آ سکتا ہے۔

میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں ایک سے زیادہ مرتبہ کوشش کر سکی، حالانکہ اس کا ہماری مالی صورتحال پر بڑا اثر پڑا اور ہمیں قرضے بھی لینے پڑے۔

میرے پہلے علاج کا خرچہ این ایچ ایس نے دیا۔ جس ملک میں میں پیدا ہوئی، یعنی ایکواڈور، وہاں مفت علاج نہیں۔

ایک اور منفی نتیجہ

جنین کی منتقلی کے بعد میرے حمل کے ٹیسٹ تک 10 روز کا کاؤنٹ ڈاؤن بہت زیادہ سست تھا۔ جس ماہرِ نفسیات کے پاس میں جاتی تھی انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی ڈائری میں اپنے احساسات کو نوٹ کرتی رہوں۔

لیکن دسویں روز جب ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو نتیجہ منفی تھا۔

اگر میں اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا چاہوں تو یہ طیارہ تباہ ہونے جیسا ہے۔ ایک اور منفی نتیجہ، تمام امید جا چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک مستقل احساس ہو گا۔

میں کچھ روز تک ایک اندھیرے کمرے میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی اور کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ہر ناکام کوشش ایک نیا دکھ کا مرحلہ ہے، جس کے بہت سارے باب ہیں جو بار بار آتے ہیں: انکار، غصہ، ڈپریشن اور آخر کار قبولیت۔

جو لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں وہ آتے ہیں اور آپ کو ایک بار پھر بچا لیتے ہیں۔ اس سفر میں میں نے بہت سارے الفاظ سیکھے ہیں: فالیکلز، ایمبریو کلچر، وٹریفیکیشن۔

میرے بہت سار موڈ آئے اور گئے۔ میں گری ہوں اور دوبارہ اٹھی بھی ہوں۔

مجھے نہیں معلوم کے میں کب تک کوشش کرتی رہوں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ ماں بننے کہ اور بھی بہت سارے طریقے ہیں۔ میں نے بچہ گود لینے کے بارے میں بھی سوچا ہے، لیکن یہ بھی ایک طویل اور غیریقینی سفر ہے۔

میں اس بات پر بھی مطمئن ہوں کہ شاید میں کبھی ماں نہ بن پاؤں۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کہانی کہاں ختم ہو گی۔ لیکن میں نے یہ سیکھا ہے کہ بانجھ پن میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اس نے مجھ پر اپنے نشانات چھوڑے ہیں، لیکن یہ میرا تعارف نہیں ہیں۔

مدرز ڈے: اس عورت کی کہانی جو 10 مرتبہ اسقاطِ حمل سے گزری ایل سلواڈور: وہ ملک جہاں اسقاط حمل یا حمل گرنے پر خواتین کو قید کر دیا جاتا ہےآن لائن کی دنیا اور اسقاط حمل کے بارے میں گمراہ کن مواد’میری بیٹی کو کھوپڑی کے بغیر بچہ پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا، میں لڑ رہی ہوں تاکہ ایسا کسی اور کے ساتھ نہ ہو‘آئی وی ایف مکس اپ: ’ہمارے ہاں ایک اجنبی کے بچے کی پیدائش ہوئی تھی‘سائنسدان پہلی بار آئی وی ایف کی مدد سے گینڈے کو حاملہ کرنے میں کامیاب
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More