ٹیسٹ کرکٹ میں ’ٹو ٹیئر‘ منصوبہ ’لالچ‘ یا کھیل کی بقا کا واحد راستہ؟

بی بی سی اردو  |  Jan 08, 2025

Getty Images

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر سٹیون فن نے کہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا ٹو ٹیئر منصوبہ ’لالچ‘ پر مبنی ہے اور یہ ’کھیل کی تباہی‘ کا سبب بنے گا۔

میلبورن ایج کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل، آئی سی سی، کے سربراہ جے شاہ رواں ماہ کے آخر میں اپنےآسٹریلین کرکٹ کے ہم منصب مائیک بیئرڈ اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے سربراہ رچرڈ تھامسن سے ملاقات کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں نئی صف بندی سے متعلق تجاویز پیش جائیں گی جو ٹیسٹ کرکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گی۔

اس پلان کے مطابق انڈیا، آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیمیں پہلے درجے والے گروپ کا حصہ ہوں گی جبکہ ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش، افغانستان، آئرلینڈ اور زمبابوے دوسرے درجے والے گروپ میں شامل کی جائیں گی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں یہ نیا منصوبہ موجودہ فیوچر ٹورز پروگرام کے اختتام پر سنہ 2027 میں پیش کیا جائے گا۔ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے ایکس پر لکھا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ ہر صورت لاگو ہونا چاہیے جبکہ انڈیا کے سابق ہیڈ کوچ روی شاستری نے ایس ای این ریڈیو کو بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہو گی جو کہ کرکٹ کے لیے بھی بہترین بات ہو گی کہ ٹیسٹ کرکٹ کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

ان ممکنہ تبدیلیوں کا مقصد کرکٹ کی دنیا میں مزید فرنچائز کو متعارف کرانا ہے جس کے تحت کرکٹرز کو کئی سال تک کھیلنا اور زیادہ آمدنی کا موقع مل سکے۔

انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ نے ان خطرات کو بھانپتے ہوئے پہلی دفعہ کھلاڑیوں کو طویل المدتی سنٹرل کنٹریکٹس کی آفر کی ہے تاکہ کھلاڑیوں کو (فرنچائز کے بجائے) بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر آمادہ رکھا جا سکے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈیا، آسٹریلیا اور انگلینڈ فرنچائز لیگز اور نجی سرمایہ کاری کی ’تیز رفتار ترقی سے بخوبی آگاہ ہیں‘ اور ٹیسٹ کرکٹ میں ممکنہ دو گروہی درجہ بندی یا صف بندی کا نیا منصوبہ ان خدشات کا مقابلہ کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔

سٹیون فن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے یہ نئی صف بندی بالکل پسند نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کھیل کے لیے اچھی ثابت ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ منصوبہ لالچ پر مبنی ہے اور ٹیسٹ کرکٹ جیسے ایک بہت خالص کھیل کو پیسے کی نذر کر کے اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ جو مجھے کسی اعتبار سے بھی درست معلوم نہیں ہو رہا ہے۔‘

BBC’ہمیں عالمی کھیل کی قربانی نہیں دینی چاہیے‘

سنہ 1975 اور سنہ 1979 کے ورلڈ کپ کے فاتح ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان سر کلائیو لائیڈ نے بھی اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے منصوبہ سازوں کو ہر صورت میں روکنا چاہیے۔‘

80 برس کے کلائیو لائیڈ نے کہا کہ ’یہ منصوبہ ان تمام ممالک کے لیے تباہ کن ہو گا جو سخت محنت سے ٹیسٹ میچ کا سٹیٹس حاصل کرتے ہیں اور اب یہ ملک کم درجے والے گروپ کا حصہ بن کر آپس میں ہی کھیلیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ کیسے ٹیسٹ کرکٹ کو عروج پر لے جا رہے ہیں؟ جب آپ اچھی ٹیموں کے خلاف کھیلتے ہیں تو پھر آپ بہتری لے کر آتے ہیں۔ اس سے ہی آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کتنے بہتر ہیں یا آپ میں کیا خامیاں پائی جاتی ہیں۔ میں اس منصوبے کا سن کر بہت صدمے میں ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اچھا نظام تو یہی ہو گا کہ تمام ٹیموں کو برابری کی سطح پر پیسے دینے چاہیں تا کہ وہ بہتری کے لیے اچھی سہولیات پر خرچ کر سکیں۔‘

سنہ 1980 سے لے کر 1995 تک ٹیسٹ کرکٹ میں ویسٹ انڈیز ناقابل شکست ٹیم رہی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں انھیں سخت محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ آخری بار انھوں نے فروری 2023 میں زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔

ویسٹ انڈیز نے مجوزہ نئی صف بندی میں درجہ اول کی ٹیموں میں شامل انگلینڈ کے خلاف آخری فتح مارچ 2022 میں حاصل کی تھی۔

ویسٹ انڈیز نے برسبین میں گذشتہ برس جنوری میں ٹیسٹ سیریز برابری کی سطح پر کھیلی ہے۔

کلائیو لائیڈ نے کہا کہ ’ہم نے بہت سخت محنت کی ہے اور اس کے لیے ہمیں خاص انداز میں نوازا جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’درجہ بندی میں نیچے رہنے والی جماعتیں ٹیسٹ میچ نہیں کھیل سکیں گی اور چند ٹیمیں ہی ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں رہ جائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ اچھا نہیں ہے۔ انھیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ بیٹھنا ہوگا اور اس کا حل نکالنا ہوگا اور ان کا اکھٹے ہونے کا مقصد بھی یہی ہے۔ اب یہ ان کی ذمہ داری ہے اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس کا حل نکالیں۔‘

انگلینڈ کی سابق بیٹسمین ایبونی رینفورڈ برینٹ بھی اس تجویز کے مخالف ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم بڑی ٹیموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھیں گے تو بلاشہ یہ بہت ہی لطف اندوز لمحات ہوں گے۔ مگر اس کا کھیل پر کیا اثرے پڑے گا؟‘

انھوں نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ہم عالمی سطح کا کھیل، کھیل رہے ہیں اور ہم کیا چاہتے ہیں۔۔ بس یہ کہ دو چار ملک ہی بس ایک دوسرے سے ٹکراتے رہیں اور ان کا ہی بار بار شور بپا رہے۔‘

ان کے مطابق ’اہم سیریز کا شیڈول اور ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل بن جاتی ہے اور یہ کہ وہ اولمپکس اور بڑے فٹ بال کے مقابلوں کی تقریبات سے بچنا چاہتی ہوں کیونکہ میں یہ کبھی نہیں چاہوں گی کہ کوئی عالمی مقابلہ 24 گھنٹے ہی سب کو مصروف رکھے۔‘

Getty Imagesافغان کرکٹ ٹیم انڈیا میں ایک ’مستقل ہوم گراؤنڈ‘ کی تلاش میں کیوں ہے؟ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024: کیا امریکہ دوسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بن سکتا ہے؟آئی سی سی کی آمدن میں انڈیا کا حصہ سب سے زیادہ کیوں اور پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ چیمپیئنز ٹرافی سمیت 2027 تک پاکستان انڈیا میچوں کے لیے ’ہائبرڈ ماڈل‘ کا اعلان’یہ منصوبہ ’سنسنی خیز‘ مقابلوں کو جنم دے گا‘

روی شاستری جو سنہ 1981 اور 1992 تک انڈیا ٹیم کا حصہ رہے اور پھر انھوں نے سنہ 2017 سے 2021 تک ٹیم کے کوچ کی ذمہ داری نبھائی ہے کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کو بلندی پر لے جانے کے لیے یہ تبدیلیاں ضروری ہیں۔

ان کے مطابق ’جب بہترین ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ کھیل کا ایک بہت سخت اور بہترین فارمیٹ ابھی بھی مؤثر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان ٹیسٹ میچ اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ بہترین ٹیمیوں کو ٹیسٹ کرکٹ کی بقا کے لیے ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا۔ بصورت دیگر تو پھر چل چلاؤ والی بات ہی رہ جاتی ہے۔‘

سنہ 2005 کے ایشز سیریز جیتنے والی انگلینڈ ٹیم کے کپتان مائیکل وان اس بات سے متفق ہیں اور انھوں نے ٹیلیگراف میں ایک کالم میں لکھا کہ میرے خیال میں اس (ٹیسٹ کرکٹ) کو چار دن کے لیے کر دیا جائے اور ہر روز ایک خاص تعداد میں اوورز ہوں اور ایک سیریز میں کم از کم تین میچز ہوں اور چھ چھ کی دو ٹیموں ہوں۔۔۔‘

انھوں نے کہا کہ میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا کہ آئی سی سی سنہ 2027 سے ایک نئی درجہ بندی کرنے جا رہی ہے اور یہ دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ جس سے اب ایشز والی صورتحال تین برس میں دو بار دیکھنے کو ملے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ یہی وہ بات تھی جس کی وہ کافی عرصے سے وکالت کر رہے تھے کہ یہی رستہ بچا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کو زندہ رکھا جا سکے اور بہترین ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں اور بہترین مقابلے اکثر دیکھنے کو ملیں اور یکطرفہ میچز کو کم سے کم کیا جا سکے۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2017 میں افغانستان کے بعد آئرلینڈ آخری ٹیم تھی جسے ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا درجہ ملا۔ اس کے بعد سے آئرلینڈ نے نو ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں اور یہ افغانستان اور زمبابوے سے میچز جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔

آئرلینڈ نے مجوزہ پہلے درجے کی ٹیموں کے خلاف پانچ میچز کھیلے۔ اسے پاکستان کے خلاف پانچ وکٹوں اور 143 رنز سے شکست ہوئی۔ انگلینڈ سے دس وکٹوں سے اور سری لنکا کے خلاف دو بار اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

گذشتہ برس مارچ میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آئرلینڈ کے سیلیکٹر اینڈریو وائٹ نے یہ تجویز دی تھی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیموں کو دو گروہوں میں تقسیم کرنے کی حمایت کریں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں انصاف پر مبنی بات کرنا ہوگی کیونکہ ٹیسٹ میچز میں افغانستان اور ہماری ٹیم سمیت انگلینڈ، انڈیا اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں کے مقابلے میں بہت بڑی خلیج ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم کھلاڑیوں کو یہ موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ کھیلیں اور بہتری لائیں تا کہ اس کھیل کو کسی حد تک بامقصد بنایا جا سکے۔

ان کے مطابق ’اگر آپ اس درجہ بندی کے تحت ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا انعقاد کریں گے تو پھر اس سے سب کھلاڑیوں کو کچھ اچھے مقابلے دیکھنے اور کھیلنے کو ملیں گے۔‘

’لاہور میں میچ نہ کھیل کر افغان طالبان کو پیغام دیں‘: انگلش ٹیم پر چیمپیئنز ٹرافی سے قبل دباؤجے شاہ 35 سال کی عمر میں دنیائے کرکٹ کے سب سے طاقتور آدمی کیسے بنےآئی سی سی کی آمدن میں انڈیا کا حصہ سب سے زیادہ کیوں اور پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ جے شاہ آئی سی سی کے چیئرمین منتخب، سوشل میڈیا پر تنقید اور پاکستان میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی پر سوالوہ تین کرکٹرز جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کھیلےافغان کرکٹ ٹیم انڈیا میں ایک ’مستقل ہوم گراؤنڈ‘ کی تلاش میں کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More