شادیوں میں بڑی گاڑیاں اور سکیورٹی گارڈز کرائے پر، ’رینٹ اے کار‘ کا کاروبار کیسے بدلا؟

اردو نیوز  |  Jan 09, 2025

پاکستان میں آج کل شادیوں کا سیزن ہے اور ہر سال اس میں کسی نہ کسی نئے ٹرینڈ کا اضافہ ہوتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران شادیوں پر ایک نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آرہا ہے۔اب دیکھا جا رہا ہے کہ ایسی تقاریب کے لیے بڑی گاڑیوں (ایس یو ویز) کے ساتھ ساتھ سکیورٹی گارڈز بھی کرائے پر لے کر انہیں بارات کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔

شہروں میں ’رینٹ اے کار‘ کے بزنس سے وابستہ بڑے کاروباری افراد نے نئے ٹرینڈز کے مطابق ہی لوگوں کو نئی سہولتوں کی پیش کش کرنا شروع کر دی ہے۔ کلیم انجم کا تعلق لاہور سے ہے اور اُن کے بھائی کی شادی گذشتہ ہفتے سرانجام پائی تھی۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے رینٹ اے کار کی گاڑیوں کے ساتھ بارات ایک گاؤں میں لے کر جانا تھی۔‘’ہم نے جس رینٹ اے کار والے سے کرائے پر گاڑیاں لینا تھیں اس نے بتایا کہ میرے پاس سکیورٹی گارڈز بھی ہیں۔ اس نے ریٹ بھی مناسب بتایا تو میں نے دو سکیورٹی گارڈز بھی مانگ لیے تاکہ شادی پر کسی قسم کی کوئی بدمزگی نہ ہو۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ سکیورٹی گارڈز چاق چوبند تھے، کئی مواقع پر جن میں دُلہا کے لیے راستہ بنانا بھی شامل تھا اُن کی مدد سے کافی فائدہ ہوا۔‘ ’شہروں کا تو مجھے نہیں پتا لیکن دیہاتوں میں تو یہ اب عام رواج ہے اور جو لوگ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ اب گاڑیوں کے ساتھ سکیورٹی گارڈز بھی کرائے پر لے لیتے ہیں۔‘ لاہور میں ’رینٹ اے کار‘ کا کاروبار کرنے والے لطیف بھٹی کہتے ہیں کہ ’اب بزنس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ مجھے اس کام میں دس سال ہو گئے ہیں۔ پہلے میرا دفتر پنجاب سوسائٹی میں تھا تاہم اب میں نے مزید تین دفتر کھول لیے ہیں۔‘’ایک فیصل ٹاؤن میں ہے جہاں میں خود بیٹھتا ہوں اور میں زیادہ تر بڑی گاڑیوں کا کام کرتا ہوں۔ ہمارے پاس شادیوں کے علاوہ مختلف کمپنیوں کا کام بھی ہے جن کے مہمانوں کو ایئرپورٹ سے ہوٹلوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔‘

’رینٹ اے کار‘ کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق سکیورٹی کے لیے لوگ ’ڈالے‘ کا پوچھتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پہلے صرف کمپنیاں ہی سکیورٹی گارڈز طلب کرتی تھیں، تاہم اب شادیوں کی وجہ سے مقامی کلچر بھی اس طرف چل نکلا ہے۔ ہمارے پاس 10 ہزار روپے سے 25 ہزار روپے یومیہ کے حساب سے سکیورٹی گارڈز کرائے پر دستیاب ہیں۔‘’بڑی ایس یو وی گاڑی کا ایک دن کا کرایہ 40 سے 60 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ کمپنیوں کی تو مجبوری ہے انہیں قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ہوتا ہے جبکہ شادیوں پر زیادہ تر لوگ دکھاوے کے لیے سکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔‘لطیف بھٹی نے مزید بتایا کہ ’میں نے مارکیٹ میں طلب دیکھتے ہوئے ایک نجی سکیورٹی کمپنی سے اشتراک کیا تھا اور اب میرے پاس بُلٹ پروف اور بم پروف گاڑی بھی کرائے پر دستیاب ہے۔‘رینٹ اے کار سے وابستہ کئی کاروباری افراد سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک پر بہت مقبول ہیں جہاں وہ بڑی گاڑیوں اور سکیورٹی گارڈز کی تعداد کے حوالے سے مختلف پیکجز بتاتے نظر آتے ہیں اور ان کی یہ ویڈیوز بہت وائرل ہیں۔اسی کاروبار سے وابستہ چوہدری منیر نے بتایا کہ ’آج سے دس برس قبل میں صرف چھوٹی گاڑی کرائے پر دینے کا کام کرتا تھا اور سیلف ڈرائیو پر بھی دیتا تھا لیکن پھر رجحانات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔‘

اب تو شادیوں پر بڑی گاڑیوں کے ساتھ سکیورٹی گارڈز بھی کرائے پر لینے کا رجحان فروغ پا رہا ہے (فائل فوٹو: اے پی)

’شادیوں پر بڑی گاڑیوں کا رواج بڑھنے لگا تو میں نے بھی اپنے کاروبار کو مزید ترقی دینے کا فیصلہ کیا اور پُرانی ساری گاڑیاں بیچ دیں اور ایک پارٹنر ساتھ ملا لیا۔ چند ایک گاڑیاں ہم نے اپنی رکھی ہیں جبکہ باقی ہم ضرورت کے مطابق مارکیٹ سے لے لیتے ہیں۔‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلی ڈیمانڈ وی ایٹ یا پراڈو کی ہوتی ہے جبکہ سکیورٹی کے لیے ’ڈالے‘ کا پوچھا جاتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ہر چیز شیئر کر دی جاتی ہے اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔‘’اب اس طرح کا ٹرینڈ بن گیا ہے اور جن لوگوں نے اس کا جلدی ادراک کر لیا تھا وہ تو آج اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں جبکہ ’رینٹ اے کار‘ کا چھوٹا بزنس اب مشکل سے ہی چل رہا ہے۔‘یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف سکیورٹی کمپنیوں کے پاس چونکہ اس کام کا لائسنس ہوتا ہے اس لیے وہ ’رینٹ اے کار‘ کے کاروبار کے ساتھ اشتراک سے چل رہے ہیں۔ اُن کے سکیورٹی گارڈز کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ ہوتا ہے اور ایسی کمپنیوں میں زیادہ تر پولیس یا فوج کے ریٹائرڈ اہلکار خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More