خالد شیخ محمد: امریکہ نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز کو ’2976 افراد کے قتل سمیت دیگر سنگین جرائم‘ کا اعتراف کرنے سے کیوں روک رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 10, 2025

Reutersعدالت میں پیشی کے دوران خالد شیخ محمد کا بنایا گیا خاکہ

امریکی حکومت نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے اعتراف جرم کی کارروائی کو وقتی طور پر روکنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

گذشتہ برس موسم گرما میں خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان نے امریکی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے باعث شاید یہ مبینہ ماسٹر مائنڈ سزائے موت سے بچ جاتے اور اس کے بجائے انھیں عمرقید کی سزا سُنا دی جاتی۔

تاہم اب عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست میں امریکی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ان ملزمان کی درخواستیں (پری ٹرائل معاہدے کے تحت دائر کردہ درخواستیں) منظور کر لی گئیں تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

تین ججز پر مشتمل پینل نے کہا کہ انھیں اس کیس پر غور کرنے اور کارروائی کو روکنے کے لیے مزید وقت درکار ہے تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تاخیر کو ’کسی بھی صورت مقدمے کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ تصور نہ کیا جائے۔‘

یاد رہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب کچھ روز قبل ہی ایک فوجی جج اور اپیل پینل نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان کے لیے طے کی گئیں ڈیلز کو منسوخ کرنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

سنہ 2001 میں القاعدہ کے حملوں میں نیویارک، ورجینیا اور پنسلوانیا میں تقریباً 3000 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں نے امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو جنم دیا تھا۔

ان حملوں کے بعد سے خالد شیخ محمد، ولید محمد صالح مبارک بن عطاش اور مصطفی احمد آدم الہوساوی تقریباً 20 برس سے کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے گوانتاناموبے میں حراست میں ہیں۔ ان تینوں پر امریکی شہریوں پر حملے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی سمیت متعدد الزامات عائد ہیں۔

پری ٹرائل معاہدے میں کیا شرائط طے پائی تھیں؟

نیویارک ٹائمز کے مطابق ملزمان کے ساتھ معاہدے کا پہلی دفعہ ذکر پراسیکیوٹرز یعنی استغاثہ کی جانب سے نائن الیون حملوں کے متاثرین کے خاندانوں کو بھیجے گئے خط میں کیا گیا تھا۔

چیف پراسیکیوٹر ایرون رَگ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’سزائے موت کو ممکنہ سزا کے طور پر ہٹانے کے بدلے میں تینوں ملزمان نے چارج شیٹ میں درج 2,976 افراد کے قتل سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘

خالد شیخ محمد اور دیگر دو ملزمان کے ساتھ اس معاہدے کی شرائط کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تھیں لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اس ڈیل کے نتیجے میں وہ سزائے موت کے مقدمے سے بچ سکتے ہیں۔

خالد شیخ محمد کی قانونی ٹیم نے تصدیق کی کہ انھوں نے اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

اگر اس معاہدے کو برقرار رکھا جاتا ہے اور عدالت کی طرف سے ملزمان کے اعتراف جرم کی درخواست کو قبول کر لیا جاتا ہے تو اگلے مرحلے میں ایک فوجی جیوری کا تقرر کیا جائے گا، جسے پینل کہا جاتا ہے، جس کے سامنے اس حوالے سے ثبوت پیش کیے جائیں گے۔

بدھ کو عدالت میں وکلا نے اسے پبلک ٹرائل کی ایک شکل قرار دیا، جہاں زندہ بچ جانے والے اور ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ کو بیان دینے کا موقع دیا جائے گا۔

وکلا کے مطابق اس معاہدے کے مطابق متاثرہ افراد اور خاندان خالد شیخ محمد سے سوالات بھی کر سکیں گے اور انھیں ان ’سوالات کا مکمل اور سچائی سے جواب دینا ہو گا۔‘

بدھ کے روز استغاثہ کے وکیل کلیٹون جی ٹریویٹ جونیئر نے عدالت میں بتایا کہ اس معاہدے کی گارنٹی میں یہ شامل تھا کہ ’ہم وہ تمام شواہد پیش کر سکتے ہیں جو ہم نے 11 ستمبر کو ہونے والے واقعے میں ملزم کے ملوث ہونے کا تاریخی ریکارڈ بنانے کے لیے ضروری سمجھے۔‘

اگر خالد شیخ محمد کی اعتراف جرم کی درخواست کو قبول کر بھی لیا جاتا ہے تو پھر بھی ان کے خلاف کارروائی شروعکرنے اور انھیں سزا سنانے میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔

Getty Imagesخالد شیخ محمد کو 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھاامریکہ خالد شیخ محمد کا اعتراف جرم روکنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے تینوں ملزمان کے ساتھ مقدمے کی کارروائی سے قبل طے پانے والی ڈیل کے لیے ایک اعلی عہیدار کو مقرر کیا تھا۔

تاہم کچھ دن بعد لائیڈ آسٹن نے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک میمو میں کہا تھا کہ وہ فوجی عدالت کی نگرانی کرنے والے اس افسر کے اختیار کو منسوخ کر رہے ہیں، جنھوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

آسٹن نے بریگیڈیئر جنرل سوسن ایسکلیئر کو لکھا تھا کہ ’ملزم کے ساتھ مقدمے سے پہلے معاہدہ کرنے کی ذمہ داری اعلیٰ اتھارٹی کے طور پر مجھ پر عائد ہونی چاہیے۔ لہذا میں فوری طور پر آپ کا اختیار واپس لیتا ہوں اور تینوں پری ٹرائل معاہدوں سے دستبردار ہوتا ہوں۔‘

تاہم ایک فوجی جج اور اپیل پینل نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان کے لیے طے کی گئیں ڈیلز کو منسوخ کرنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

اس معاہدے کو روکنے کی ایک اور کوشش کے طور پر امریکی حکومت نے پھر اس ہفتے ایک وفاقی اپیل کورٹ سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کو کہا تھا۔

ایک قانونی دستاویز میں امریکی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ خالد شیخ محمد اور دو دیگر افراد پر ’جدید تاریخ میں امریکی سرزمین پر سب سے سنگین مجرمانہ فعل‘ کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا لیکن ان معاہدوں سے حکومت اور امریکی عوام کو اس معاملے کے پبلک ٹرائل سے محروم کر دیا جائے گا جبکہ ملزمان کی سزائے موت کا امکان بھی نہیں رہے گا، اس حقیقت کے باوجود کہ سیکریٹری دفاع نے قانونی طور پر ان معاہدوں کو واپس لیا۔‘

امریکی حکومت خالد شیخ محمد کے اعتراف جرم کی کارروائی کو وقتی طور پر روکنے میں اب کامیاب تو ہو گئی ہے تاہم ججز نے کہا ہے کہ اس تاخیر کو ’کسی بھی صورت مقدمے کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ تصور نہ کیا جائے۔‘

خالد شیخ محمد: 9/11 کے منصوبہ ساز جنھوں نے ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے طیارے ٹکرانے کا منظر کراچی کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں دیکھا‘جب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھےجب 9/11 حملوں کا سہولت کار کراچی سے پکڑا گیامتاثرہ خاندان کیا کہتے ہیں؟

خالد شیخ محمد، ولید محمد صالح مبارک بن عطاش اور مصطفی احمد آدم الہوساوی گوانتاناموبے میں برسوں سے بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔

نائن الیون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین ان ملزمان کے ساتھ معاہدوں میں نرمی یا شفافیت کی کمی پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کچھ متاثرہ خاندان ایسے بھی ہیں جن کے مطابق یہ ایک پیچیدہ اور طویل عرصے سے چلنے والے کیس کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔

وہ لوگ جو کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے گوانتاناموبے خالد شیخ محمد کے اعتراف جرم کی کارروائی دیکھنے کے لیے گئے تھے، جب انھوں نے اس میں تاخیر کی خبر سنی تو انھوں نے صحافیوں سے بات کی۔

ٹوم ریسٹا کے بھائی اور حاملہ بھابھی نائن الیون حملوں میں مارے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’امریکی حکومت نے ایک بار پھر نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کو مایوس کیا۔ انھیں صحیح چیز کرنے کا موقع ملا تھا لیکن انھوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

گذشتہ برس بی بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے ٹیرے سٹارڈا (جن کے شوہر نائن الیون حملوں میں مارے گئے تھے) نے کہا تھا کہ ملزمان کے ساتھ ڈیل کا مطلب انھیں گوانتاناموبے میں وہ سب دینا ہے، جو وہ چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ خالد شیخ محمد اور دیگر دو ملزمان کی جیت ہے۔ یہ ان کے لیے جیت ہے۔‘

Getty Imagesیہ سب نائن الیون کے اتنے برس بعد کیوں ہو رہا ہے؟

نائن الیون حملوں کے 17 ماہ بعد تک خالد شیخ محمد کو سی آئی اے نہیں پکڑ سکی تھی تاہم یکم مارچ 2003 کو ایک مخبر کی اطلاع پر خالد شیخ محمد کو راولپنڈی کے ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اُن سے اگلے 48 گھنٹے تک سخت پوچھ گچھ کی گئی لیکن انھوں نے کچھ بھی ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔۔

کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی اپنی کتاب ’دی ایگزائل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’خالد کو بیڑیوں سے باندھ دیا گیا، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور پھر اس کے اوپر ایک چوغہ ڈال دیا گیا۔ پھر اسے افغانستان لے جایا گیا۔‘

ڈاکٹروں کے معائنہ کے بعد اُن کے ہاتھ چھت سے لٹکی ہوئی سلاخ سے بندھے ہوئے تھے۔ اس سے پوچھ گچھ کرنے والے تین لوگ تھے، ایک مرد اور دو عورتیں۔ دس اور محافظ چہروں پر ماسک لگائے کھڑے تھے۔

جب بھی وہ تعاون کرنے سے گریزاں ہوتے تو وہ انھیں مارتے۔ اس ابتدائی تفتیش اور تشدد کے بعد انھیں گلف سٹریم کے طیارے میں پولینڈ لے جایا گیا۔

پولینڈ میں قید کے دوران خالد کے ساتھ اتنی سختی اور تشدد ہوا کہ وہ موت کے دھانے پر پہنچ گئے۔

وہاں موجود ڈاکٹر جیمز مچل نے کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی کو بتایا کہ ’جب بھی انھوں نے تعاون نہیں کیا تو انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے اُن کے جسم، چہرے اور منھ پر گھونسے مارے جاتے۔‘

خالد کی انگلی سے ایک ڈیوائس باندھی گئی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس کے جسم کے مختلف حصے کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد انھیں پانی میں ڈبو دیا گیا یہاں تک کہ اُن کی سانسیں رک گئیں۔ وقفے کے بعد یہ عمل دوبارہ دہرایا جاتا رہا۔

انھیں پانی میں ڈبونے کا یہ عمل کم از کم 183 بار ہوا۔ خالد شیخ محمد نے ریڈ کراس کے ساتھ ایک انٹرویو میں یاد کیا کہ ’بدترین دن وہ تھا جب مجھے آدھے گھنٹے تک مسلسل مارا پیٹا گیا۔ میرا سر دیوار سے اس زور سے ٹکرایا گیا کہ خون بہنے لگا۔ اس کے بعد میرے ننگے بدن پر برف کا ٹھنڈا پانی ڈالا گیا۔‘

جب سی آئی اے کے خالد شیخ محمد پر اس نوعیت کے تشدد کی خبریں منظر عام پر آئیں تو انھیں 2006 میں گوانتاناموبے بھیج دیا گیا۔

لیکن اتنے ٹارچر کے بعد بھی سی آئی اے کو اسامہ بن لادن اور الزواہری کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا تھا۔

کتاب (The Least Worst Place: How Guantanamo Became the World's Most Notorious Prison) کی مصنفہ کیرن گرین برگ کہتی ہیں کہ تشدد کے استعمال نے ’ان مقدمات کو اس طریقے سے ٹرائل میں لانا عملی طور پر ناممکن بنا دیا، جو امریکہ کے نظام قانون سے مطابقت رکھتا ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس طرح کے کیسز میں تشدد سے حاصل کیے گئے شواہد کے علاوہ ثبوت فراہم کرنا بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے استغاثہ کے لیے مزید پیچیدگی پیدا ہوئی۔‘

یہ مقدمہ فوجی کمیشنز کے تحت بھی آتا ہے، جو روایتی امریکی فوجداری انصاف کے نظام سے مختلف قوانین کے تحت کام کرتے ہیں اور اس عمل کو سست کرتے ہیں۔

خالد شیخ محمد کون ہیں؟

خالد شیخ محمد 14 اپریل 1965 کو کویت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مقامی مسجد کے پیش امام تھے اور اُن کا تعلق پاکستان سے تھا۔

خالد نے 16 سال کی عمر میں اسلامی تنظیم ’اخوان المسلمون‘ کی رکنیت حاصل کی تھی۔

سنہ 1983 میں سیکنڈری سکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ’نارتھ کیرولائنا ٹیکنیکل یونیورسٹی‘ میں داخلہ لیا اور وہاں میکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہاں اُن کی ملاقات عرب طلبا کا ایک گروپ سے ہوئی جو یہاں پہلے سے ہی زیرِ تعلیم تھے۔

اس گروپ کے افراد کی مذہبی معاملات میں دلچسپی کے باعث انھیں یونیورسٹی کے باقی طلبا ’ملاز‘ کہتے تھے۔ دسمبر 1986 میں خالد نے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کر لی مگر اس دوران وہ شدت پسندی سے متعلقہ معاملات میں کافی آگے جا چکے تھے۔

سنہ 1987 میں خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن کے ساتھ ملے اور افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف ’جنگِ جاجی‘ میں شریک ہوئے۔

نائن الیون حملوں کے سہولت کار اور سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو پر حملہ کرنے والے رمزی یوسف بھی خالد شیخ محمد کے بھتیجے تھے۔ رمزی یوسف نے سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اگرچہ رمزی کا مشن ناکام ہوا لیکن اس کا شدت پسندوں کی اُس وقت کی اُبھرتی ہوئی نسل پر گہرا اثر پڑا تھا۔

ٹام میک ملن اپنی کتاب ’فلائٹ 93: دی سٹوری آف دی آفٹرمیتھ اینڈ دی لیگیسی آف امریکن کریج آن 9/11‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 1993 کے حملے نے انتہا پسندوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی تھی کہ امریکی سرزمین پر حملہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔‘

افغانستان میں تربیتی کیمپ میں اپنے تجربے اور رابطوں کی بدولت رمزی یوسف جعلی پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ایک ٹیم بنائی تھی اور بموں سے لدی کرائے کی وین ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور کے گیراج میں بھجوا دی۔

اس دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ عمارت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا یوسف نے سوچا تھا لیکن وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی سڑکوں پر دہشت پھیلانے میں کامیاب رہے تھے۔

یہیں سے دنیا میں انتہا پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا اور اس دوران رمزی یوسف امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔

ولید محمد بن عطاش

ولید محمد صالح مبارک بن عطاش بھی القاعدہ کے اہم رکن ہیں اور ان پر بھی نائن الیون کے حملے کے الزامات کے ساتھ ساتھ پر دہشت گردی کی سازش، شہریوں پر حملہ کرنے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل اور املاک کو تباہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک یمنی شہری ہیں اور ان پر ہائی جیکنگ، دہشت گردی کرنے اور اس کی مالی معاونت کرنے کے الزامات ہیں۔ امریکی حکومت نے چار دیگر افراد سمیت ولید بن عطاش پر 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

بن عطاش پر خاص طور پر الزام ہے کہ اسامہ بن لادن نے انھیں امریکی ویزا حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ امریکہ کا سفر کر سکیں اور پائلٹ کی تربیت حاصل کر سکیں تاکہ وہ بالآخر ہائی جیکنگ میں حصہ لے سکیں۔

ان پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے 1999 میں امریکی ویزے کے لیے درخواست دی تھی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا تھا، جس کے بعد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے القاعدہ کے لیے تحقیق جاری رکھی اور نائن الیون کے ہائی جیکرز کے لیے سفر کی سہولت فراہم کی۔

اگرچہ ولید بن عطاش کو مبینہ طور پر اپریل 2003 میں گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا لیکن ستمبر 2006 تک اسے گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔

مصطفیٰ احمد الہوساوی

مصطفیٰ احمد آدم الہوساوی ایک عرب شہری ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے لیے ایک اہم مالی سہولت کار کے طور پر کام کیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کےمطابق امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ الہوساوی نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے لیے فلائٹ سکولوں کی تحقیق میں مدد کی اور کئی ہائی جیکروں کے بینک اکاؤنٹس کا انتظام کیا۔

اگرچہ الہوساوی کو مبینہ طور پر مارچ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن اسے ستمبر 2006 تک گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔

خالد شیخ محمد: 9/11 کے منصوبہ ساز جنھوں نے ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے طیارے ٹکرانے کا منظر کراچی کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں دیکھا‘جب 9/11 حملوں کا سہولت کار کراچی سے پکڑا گیاجب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں کیا ہوا تھا؟القاعدہ نے 20 سال قبل یورپ میں سب سے بڑے حملے کے لیے سپین کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ایمن الظواہری کی موت کے بعد اب القاعدہ کا کیا بنے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More