زہرہ کی چیخ، چند ادھورے جملے اور کنڈی کے زوردار کھٹکے: سرائے عالمگیر میں کمسن بچی کا ریپ اور قتل

بی بی سی اردو  |  Jan 15, 2025

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’چاچو۔۔۔ چاچو نہیں جانا۔۔۔ نہیں جاؤں گی۔‘ پنجاب کے ضلع جہلم کی تحصیل سرائے عالمگیر کی چار سالہ زہرہ جنید کے یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوئے۔

ننھی زہرہ پانچ جنوری کی سہ پہر اپنے گھر سے قریب واقع اپنی خالہ کے گھر جانے کے لیے نکلی تھی اور اگلے روز محلے کے ایک غیر آباد گھر سے اس کی بوری میں بند لاش ملی۔

’اس دن میں نے زہرہ کو سیب کھلایا اور فیڈر پلائی اور پھر وہ ٹیوشن پڑھنے کے شوق میں خوشی خوشی چھوٹا سا بستہ اٹھا کر بھائی کے پیچھے نکل گئی اور پھر۔۔۔ ہماری زندگی ویران ہو گئی۔ اب ہم ایک زندہ لاش کی طرح ہیں، ایسے مردے ہیں جو کھلی اور ویران آنکھوں سے دنیا دیکھ رہے ہیں۔‘

زہرہ اپنے والدین کی شادی کے 13 سال بعد پیدا ہوئی تھی اور ان کی والدہ صبا جنید اس واقعے کے بعد سے سنبھل نہیں پائی ہیں۔

سسکیوں، ہچکیوں اور شدت غم سے بھرائی آواز میں صبا نے اپنی بیٹی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس دن میں بہت خوش تھی کہ اس نے اتنے آرام سے کھانا کھایا۔ پھر اس نے کہا کہ ماما میں نے بھی پڑھنے جانا ہے۔ مجھ سے پوچھے بغیر وہ کہیں نہیں جاتی تھی۔‘

’اسی وقت میرا بیٹا بھی میری بہن کے گھر جانے کے لیے نکلا تھا جو قریب ہی تھا۔ میں اس کو خوش دیکھ کر خود بھی خوش تھی مگر بس اس کو نظر لگ گئی، بیٹی باہر گئی مگر زندہ واپس نہ آئی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کا ان کے سات سالہ بیٹے پر بھی اتنا اثر پڑا کہ آنے جانے والوں سے گھبرا رہا ہے۔ ’اب وہ کہتا ہے کہ سارے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے گھر نہ آئیں۔‘

زہرہ کے والد جنید اقبال بیرون ملک رہتے ہیں اور ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ صبا کا کہنا ہے کہ زہرہ نے انھیں ضد کر کے بلایا تھا۔

’میری بچی شادی کے 13 سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ میں نے اللہ سے رو، رو کر بیٹی کی دعا کی تھی۔ وہ ہم سب کو بہت زیادہ پیاری تھی۔ اس کے بابا اس سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ بابا کو اس نے رو، رو کے بلایا تھا کہ آپ میرے پاس آئیں۔‘

پانچ جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟

زہرہ جنید کے چچا عثمان نے بی بی سی سے اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس دن ہم سب شادی پر گئے تھے اور گھر پر میری بھابھی اور اہلیہ تھیں۔ زہرہ کو بھیجنے کے بعد بھابھی نے اپنی بہن کے گھر فون کیا تو پتا چلا کہ زہرہ کا بھائی ان کے گھر پہنچ گیا ہے لیکن زہرہ نہیں پہنچی۔‘

جب زہرہ اپنی خالہ کے گھر نہیں پہنچی تو صبا اسے ڈھونڈنے نکلیں۔ صبا کے مطابق ’ہماری گلی میں بچے آتے جاتے، کھیلتے رہتے ہیں، رونق ہوتی ہے۔ بچوں کی چھٹیاں ہیں سو آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس بات کا وہم و گمان نہیں تھا کہ اس طرح کا کچھ ہمارے محلے میں ہو سکتا ہے۔‘

عثمان کا کہنا ہے کہ ’بھابھی کے کہنے پر ہم نے کیمرے کی ویڈیو چیک کی تو اس میں زہرہکے گھر سے نکلنے کی ویڈیو ہے لیکن آگے گلی مڑ جاتی ہے۔ ہم نے ہر جگہ دیکھا۔ 15 پر کال کی اور میں تھانے بھی گیا تو پولیس ساتھ آئی انھوں نے چیک کیا، محلے میں تلاشی لی۔ سب کیمرے دیکھے مگر اس کا پتا نہ چلا۔'

فیصل آباد کے ہسپتال میں خاتون سکیورٹی گارڈ کا مبینہ ریپ: ’بےعزتی کے ڈر سے خاموش رہی اور ملزم نے اس بات کا فائدہ اٹھایا‘گوجرانوالہ سکول ریپ کیس: ’ہماری موجودگی میں بچیوں سے ایسے سوال کیے جاتے ہیں کہ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں‘لاہور میں ریپ سے متعلق ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا: مریم نوازیہ والا تو نہیں ہوا مگر جو ریپ ہو رہے ہیں وہ؟پیلے رنگ کی بوری اور بچی کی مسخ لاش

سرائے عالمگیر کے تھانہ صدر میں مقتولہ کے والد جنید اقبال کی جانب سے درج کروائی گئی ابتدائی ایف آئی آر تو بیٹی کی گمشدگی کی درج کروائی گئی تاہم لاش ملنے کے بعد انھوں نے پولیس کو ایک ضمنی درخواست بھی دی جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی بیٹی زہرہ کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور چھ جنوری کی صبح جب دیگر افراد کے ہمراہ وہ محلے کے ایک غیر آباد مکان تک پہنچے تو ان کو مغربی کونے میں پیلے رنگ کی پلاسٹک کی ایک بوری ملی جس پر گانٹھ لگی تھی۔

درخواست کے مطابق جب اس بوری کو کھولا گیا تو اس میں زہرہ جنید کی خون آلود لاش تھی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ملزمان کو تلاش کر کے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے اور اس درخواست کو ایف آئی آر کا حصہ سمجھا جائے۔

پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ سے بچی کے ساتھ ریپ بھی ثابت ہوا۔ ڈی ایس پی گجرات کے مطابق ابتدائی طور پر ایف آئی آر نابالغ بچی کے اغواکے جرم کی کاٹی گئی پھر لاش ملنے پر اس میں قتلِ عمد اور میڈیکل رپورٹ میں ریپ ثابت ہونے پر دفعہ 376 کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

زہرہ کی چیخ، چند ادھورے جملے اور کنڈی کے زوردار کھٹکے

ڈی ایس پی گجرات سٹی عامر عباس شیرازی اس واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ زہرہ جنید کے غائب ہونے کی اطلاع ملتے ہی ’پولیس نے پوری رات علاقے کی تلاشی لی اور پھر پہرے بٹھائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کا آغاز سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’محلے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں تین بج کر چھ منٹ پر زہرہ جنید کو گلی میں جاتے دیکھا گیا جس کے بعد وہ ایک موڑ مڑنے کے بعد نظروں سے غائب ہو گئیں اور کچھ لمحوں کے بعد کیمرے میں ریکارڈ ہونے والی آڈیو میں پولیس کو زہرہ کی چیخ، چند ادھورے جملے اور کنڈی کے زوردار کھٹکے کی آوازیں سنائی دیں۔‘

عامر عباس شیرازی کا کہنا ہے کہ ’تین بج کر چھ منٹ پر بچی سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہوئی۔ قاتل اس بچی کی لاش کو دور نہیں لے جا سکا اور گھیرا تنگ ہونے پر اس نے کسی وقت اس کی لاش بوری میں بند کر کے ایک خالی گھر میں چھت سے نیچے پھینک دی۔‘

پولیس کے مطابق جس مکان سے لاش ملی وہاں دیگر مکانات کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور ان مکانات سے پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر ان کے ڈی این اے کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔

’ہم نے پانچ مشتبہ لوگوں کو گرفتار کر کے ڈی این اے کے لیے رپورٹ بھجوا دی ہے جو ہائی پروفائل کیس ہونے کے باعث اگلے چند روز میں مل جائے گی۔‘

ڈی ایس پی گجرات نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مشتبہ افراد کے پولی گرافک ٹیسٹ اور سی سی ٹی وی کی آڈیو ریکارڈنگ کی مدد سے وہ مرکزی ملزم تک بھی پہنچ گئے ہیں تاہم ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعد چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

آر پی او گجرانوالہ طیب حفیظ چیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں ملزمان کو پکڑنے میں آڈیو بہت اہم رہی۔ ’ویڈیو میں بچی تو کچھ سیکنڈز بعد نظروں سے اوجھل ہو گئی تاہم 77 سیکنڈز کے کلپ میں بچی کی چیخیں اہم ہیں۔‘

صبا جنید ایک جانب جہاں اپنی بیٹی کے قتل کے صدمے سے نڈھال ہیں وہیں وہ حکام سے انصاف کی اپیل بھی کرتی دکھائی دیں۔

’زندگی کے چند سال تھے جو ہم نے خوشیوں کے گزارے، اب زہرہ ہماری زندگی ویران کر کے چلی گئی۔ بس ہماری بیٹی کو انصاف ملے اور ایسا کہ کوئی دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کرے۔‘

گوجرانوالہ کے سکول میں کینٹین والے پر بچیوں کے ریپ کا الزام: ’بیٹی نے چیخ کر کہا کہ میرے قریب نہیں آنا مجھے ڈر لگتا ہے‘جعفرآباد کے سکول میں بچوں کا مبینہ ریپ، پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن گرفتار: ’میرے بیٹے کی وجہ سے دوسرے بچے بچ گئے‘’یہ خوف و دہشت کا کمرہ ہے‘: چائلڈ کیئر سینٹر کے سابق ملازم نے درجنوں بچوں کے ریپ کا اعتراف کر لیاانصاف کے لیے 32 برس کا انتظار: ’ریپ کے بعد ان میں سے ایک نے مجھے لپ سٹک خریدنے کے لیے 200 روپے دیے‘انڈیا میں دلت طالبہ کو ’پانچ سال میں 64 آدمیوں نے گینگ ریپ کیا‘، 28 ملزمان گرفتار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More