گورننس کا دباؤ یا ’اسٹیبلشمنٹ‘: عمران خان نے علی امین گنڈاپور سے صوبائی صدارت کیوں واپس لی؟

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2025

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے گذشتہ ہفتے میں دو ایسی خبریں سامنے آئیں جس سے ایک بار پھر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ کیا اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک اور ’جارحانہ اننگز‘ کھیلنے جا رہے ہیں؟

جہاں ایک طرف عمران خان نے جنید اکبر کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی جگہ صوبائی صدر مقرر کیا اور ساتھ ہی انھیں قومی اسمبلی کی اہم کمیٹی کی سربراہی کے لیے بھی چنا تو دوسری طرف انھوں نے حکومت سے مذاکراتی عمل بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔

عمران خان سے منسوب اُن کے ایکس کے اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’علی امین گنڈاپور پر بطور وزیراعلیٰ گورننس کا بہت دباؤ ہے لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنید اکبر خان جو ہمارے دیرینہ ساتھی اور کارکن ہیں ان کو تحریک انصاف خیبرپختونخوا کا صدر منتخب کر دیا جائے اور تنظیمی امور ان کے حوالے کر دیے جائیں۔‘

اگرچہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا کا بھی یہی اصرار ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی خواہش پر ہی ان سے پارٹی کی صوبائی صدارت واپس لی اور انھیں صوبے میں امن و امان اور گورننس کے معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کہا ہے۔‘

تاہم پی ٹی آئی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معمول سے کچھ ہٹ کر پیش رفت ہے۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس اعلان سے ایک دن قبل ہی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن جنید اکبر بلا مقابلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے جنید اکبر کا نام تجویز کیا تھا۔

رکن قومی اسمبلی جنید اکبر جو پارٹی میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق سخت مؤقف رکھتے ہیں کو جب نئی ذمہ داریاں ملیں تو ساتھ ہی یہ چہ مگویاں بھی شروع ہو گئیں کہ عمران خان پھر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سخت پیغام دینے جا رہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف عمران خان نے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا پیغام دیا اور پھر دوسری طرف علی امین گنڈاپور سے بھی پارٹی عہدہ واپس لے لیا۔ جنید اکبر نے بھی اپنے بیان میں یہ واضح کیا کہ وہ سب کا احتساب یقینی بنائیں گے۔

کیا 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا ملنے کے بعد عمران خان نے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی؟

رواں ماہ کی 17 تاریخ کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو 190 ملین کیس میں قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔ اڈیالہ جیل کے اندر جج نے سابق وزیراعظم کو 14 برس جبکہ بشری بی بی کو سات برس قید کی سزائیں سنائیں۔

اس فیصلے کے بعد چند دنوں میں ہی عمران خان کے رویے اور حکمت عملی میں دو بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جن میں سے ایک حکومت سے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان اور دوسرا پارٹی کے اندر تنظیموں عہدوں میں ردوبدل شامل ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو جب 190 ملین پاؤنڈ یا القادر ٹرسٹ کیس میں سزائیں سنائی گئیں تو پھر اس کے بعد بظاہر عمران خان نے مفاہمت اور مذاکرات کے رستے پر چلنے کے بجائے جارحانہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے کے بعد ہی سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیشن کے علاوہ کچھ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

عمران خان نے جنید اکبر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر چنا تو انھوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں واضح کہا کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں 60 برس کا توشہ خانہ کا ریکارڈ نکلوائیں گے اور یہ سامنے لائیں گے کہ کون کون ان تحائف سے مستفید ہوتا رہا ہے۔

انھوں نے اداروں کو یہ پیغام بھی دیا کہ ’ہماری مفاہمت کو کمزوری نہ سمجھیں اور نہ ہم ڈرنے والے ہیں اور دبنے والے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ادارے اپنی حدود میں رہیں اسی میں سب کا فائدہ ہے۔‘

Getty Images

دوسری جانب حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عمران خان نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ ان کو سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین سینیر ترین جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کے علاوہ کوئی آپشن قابل قبول نہیں۔

’سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین سینیر ترین جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا قیام کیا جائے تاکہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات میں ملوث اصل ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔ اس کے بغیر ہمیں کوئی کمیشن قابل قبول نہیں ہے۔‘

عمران خان نے اپنے بیان میں مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا کے گھر اور مدرسے پرچھاپے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت ایک جانب مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے اور دوسری جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ’ہم اس چھاپے کے بعد مذاکرات کا عمل فوری طور پر روک رہے ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان اور ہمارے اتحادی کے گھر پر چھاپہ ہماری مذاکراتی کمیٹی پر حملہ ہے۔ اس دوغلے پن اور بدنیتی پر مبنی مذاکراتی عمل سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی۔‘

اپنی نئی حکمت عملی کے تحت عمران خان نے پہلے حکومت سے جاری مذاکرات کے عمل کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس کے بعد اڈیالہ جیل سے ہی پارٹی میں کی جانے والی کچھ تنظیمی عہدوں کی تبدیلی اور کچھ نئی ذمہ داریوں سے متعلق بھی اعلانات سامنے آئے۔

تو کیا علی امین گنڈاپور سے تنظیمی عہدہ واپس لینے کا مطلب ان پر اب عمران خان کے اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتا ہے؟

Getty Images’علی امین پر اسٹیبلشمنٹ کا لیبل لگ گیا‘

پشاور میں مقیم صحافی فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’علی امین گنڈاپور کے خلاف کچھ عرصے سے کھچڑی پک رہی تھی اور اس کی پہلے سے کچھ اراکین کو خبر تھی۔‘

ان کے مطابق اس سے قبل تو جنید اکبر، عاطف خان اور ان کے قریب سمجھے جانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کو عمران خان سے ملنے تک نہیں دیا جاتا تھا۔ ان کے گلے شکوے تھے اور انھیں علی امین نے ’سائیڈ لائن‘ کیا ہوا تھا۔ ’مگر جب علی امین کے خلاف شکایات کے انبار عمران خان تک پہنچے تو پھر انھوں نے از سر نو تنظیم سازی کا فیصلہ کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اب پی ٹی آئی کی تنظیم میں باقی علاقوں اور صوبوں میں بھی تبدیلی لائی جائے گی۔ مگر اس میں سے اہم پہلو صوبائی کابینہ میں لائی جانے والی تبدیلی ہوگی۔‘

فرزانہ علی کے مطابق ’علی امین کسی نہ کسی طور پر عمران خان کو (جیل سے) باہر لے آنا چاہتے تھے مگر ان سے چند غلطیاں ہوئی ہیں اور سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ علی امین دونوں عہدوں میں توازن نہ برقرار رکھ سکے۔‘

ان کے مطابق علی امین کی کابینہ 33 اراکین تک پہنچ چکی تھی مگر اس کے باوجود متعدد اراکین کابینہ میں جگہ نہ ملنے پر ان سے ناراض تھے۔

ان کے مطابق سب سے بڑھ کر جو معاملہ خراب ہوا وہ تھا کہ ان پر ’اسٹیبلشمنٹ کا جو لیبل لگ گیا تھا اور اس نے بہت سی چیزوں کو خراب کر دیا۔‘

فنڈنگ کے مسائل اور خدشات میں گھرے طلبا: بی بی سی نے القادر یونیورسٹی میں کیا دیکھا؟آرمی چیف اور تحریک انصاف چیئرمین کی ملاقات: ’اس کا نتیجہ آنے والے کچھ ہفتوں میں نظر آئے گا‘نو مئی احتجاج: فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے حسان نیازی، بریگیڈیئر جاوید اکرم اور عباد فاروق کون ہیں؟پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فوج ہی کیوں جیتتی رہی ہے؟

اسلام آباد میں سینیئر صحافی عمران مختار جو تقریباً گذشتہ دو دہائیوں سے تحریک انصاف کی سیاست پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ عمران خان کی طرف سے تنظیم نو کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ پارٹی میں اختلافات ہیں بلکہ یہ سب عمران خان کی ایک نئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ان کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی میں اس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت بھی تھی۔

عمران مختار کے مطابق ’اس سے قبل پی ٹی آئی کے آئین میں بھی یہ درج تھا اور یہ روایت بھی بن چکی تھی کہ کوئی تنظیمی عہدے کے ساتھ عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا تھا۔‘ ان کے مطابق عمران خان نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پنجاب اور دیگر حصوں میں بھی نئی ذمہ داریوں کا اعلان کیا ہے۔

عمران مختار کے مطابق پنجاب میں حماد اظہرکافی عرصے سے منظر عام سے غائب تھے اب ان کی جگہ عالیہ حمزہ کو پنجاب میں تنظیمی معاملات دیکھنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔

عمران مختار کے مطابق ’عمران خان جنید اکبر اور عالیہ حمزہ جیسے کارکنان کو اس وجہ سے بھی پسند کرتے ہیں کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے خلاف سخت مؤقف رہا ہے اور انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’عمران خان اپنی حکمت عملی میں کوئی وقفہ نہیں آنے دیتے۔ جب مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہوا تو ساتھ ہی عمران خان نے پارٹی کو مزید نئی سرگرمی دے دی۔‘

تحریک انصاف اور حکومت میں مذاکرات تعطل کا شکار کیوں ہوئے؟

اب یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے جواب ہر دو فریق ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جمعے کو چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے متعلق پیش رفت کو فوٹو سیشن سے آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’بانی عمران خان کی ہدایت کے مطابق اب کسی اور مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔‘

پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہمارے خلاف لمبی چارج شیٹ ہے، اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا کہا اور دو مطالبات رکھے تھے، حکومت نے تحریری مطالبات مانگے، ہم نے وہ بھی دے دیے، دن گزر گیا حکومت نے کل کے دن کے بعد بھی جوڈیشل کمیشن کا اعلان نہیں کیا۔‘

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے کہا کہ ’حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اجلاس بلائیں، اور خود ہی چائے پی لیں۔‘ مگر ان اعلانات کے بعد پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل کا حصہ رہنے سے متعلق مشروط رضامندی بھی ظاہر کی۔ بیرسٹر گوہر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تین ججز پر مشتمل کمیشن بننے کی صورت میں مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ جب عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کر کے آئے تو انھوں نے بھی عمران خان کا یہ مؤقف دہرایا کہ حکومت نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنا رہی ہے اس وجہ سے وہ مذاکرات کے عمل سے باہر نکلنے کا اعلان کرتے ہیں۔ تاہم صحافیوں کے سوالات کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے بھی حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔

حکومت کی طرف سے اس مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ بات کہیں بھی نہیں ہوئی تھی کہ اگر 28 جنوری سے قبل کمیشن نہ بنا تو پھر مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طے پایا تھا کہ ’سات ورکنگ دنوں کے اندر حکومتی کمیٹی اپوزیشن کے مطالبات پر اپنا باضابطہ تحریری موقف دے گی۔ یہ ورکنگ دن 28 جنوری کو پورے ہوتے ہیں اور ہم تندہی سے کام کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے عمل کو ختم کرنے کا اعلان کمیٹی کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے مگر ’ہم نے یہ پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہم باہر کے حالات کا کسی قسم کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔‘

ان کے مطابق جو کمیٹی نے آخری اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا تھا اس کے مطابق 28 جنوری کو مذاکرات کا دور ہونا باقی ہے اور ابھی تک حکومت اس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹی ہے اور 28 جنوری سے قبل کسی بھی قسم کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔

عمران خان کے وکلا میں سے ایک فیصل فرید نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تحریک انصاف نے آخری اجلاس میں تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کیے تو اس پر حکومتی وزرا نے پریس کانفرنس کر کے یہ واضح جواب دے دیا تھا کہ زیر سماعت مقدمات پر کمیشن نہیں بنائے جا سکتے ہیں۔

وکیل فیصل فرید کے مطابق ’ایک طرف حکومتی رہنما اور وزرا اس مذاکراتی عمل کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مطالبات پر غور کے لیے تیار ہیں۔‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت یہ کبھی نہیں چاہتی کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی سچائی سامنے آئے۔

فیصل فرید کے مطابق اس مذاکرات کے عمل کے دوران ’حکومت پارٹی رہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات تک کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے اور دعوے سنجیدگی کے کیے جا رہے ہیں۔‘ ان کے مطابق مذاکراتی عمل کے دوران مذاکراتی کمیٹی کے ایک اہم رکن حامد رضا کے مدرسے پر چھاپہ مارا گیا اور انھیں حبس بے جا میں رکھا گیا۔

عرفان صدیقی کے مطابق جب ان (پی ٹی آئی والوں) کے لیڈر کی طرف سے ایک اعلان ہو گیا ہے تو پھر یہ بھی مجبور ہیں کہ اڈیالہ کے باہر کھڑے ہو کر ایسا ہی اعلان کریں۔

صحافی عمران مختار کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ ان کے مطابق عمران خان سے ملاقات کے بعد جو بیان پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے دیا جائے گا وہ اہم ہوگا۔ ان کے مطابق 28 جنوری کو حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کا ایک دور ہونے کا امکان موجود ہے۔

فرزانہ علی کے مطابق بظاہر مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار نظر آ رہا ہے مگر پس پردہ تو مذاکرات ابھی بھی چل رہے ہیں اور اس کی تصدیق خود پی ٹی آئی کے رہنما بھی کرتے ہیں۔

حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات: ’عمران خان کی رہائی آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے پہلا نہیں‘آرمی چیف اور تحریک انصاف چیئرمین کی ملاقات: ’اس کا نتیجہ آنے والے کچھ ہفتوں میں نظر آئے گا‘190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے سے قبل سزاؤں کی ’بریکنگ نیوز‘: ’یہ بھی المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم صحافیوں کو پہلے ہو جاتا ہے‘فنڈنگ کے مسائل اور خدشات میں گھرے طلبا: بی بی سی نے القادر یونیورسٹی میں کیا دیکھا؟چائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟امریکی صدارتی انتخاب کا پاکستانی سیاست پر ممکنہ اثر: کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ’دوست‘ عمران خان کو رہائی دلوا سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More