بریتھوٹ کے ’بائیسیپ‘ پاکستان کے لیے بھی کافی تھے

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2025

سال بھر پہلے جب برسبین میں اَن فٹ شیمار جوزف کے ’الیکٹرک‘ سپیل نے ویسٹ انڈیز کو آسٹریلیا پر سات وکٹوں کی غیرمتوقع فتح دلائی تھی تو بعد از میچ تقریب میں کپتان کریگ بریتھوٹ نے انکشاف کیا کہ اپنی اس یادگار جیت کا کریڈٹ وہ روڈنی ہاگ کو دینا چاہیں گے۔

اس دورہِ آسٹریلیا کے پہلے ٹیسٹ میچ میں جب ویسٹ انڈیز کو دس وکٹوں سے شکست ہوئی تو سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر روڈنی ہاگ نے بریتھوٹ کی ویسٹ انڈین ٹیم کو ’قابلِ رحم اور مایوس کُن‘ قرار دیا تھا۔

سو برسبین میں سنسنی خیز فتح کے بعد کپتان بریتھوٹ نے اپنے بازو اکڑائے اور اپنے ’بائیسیپ‘ مسلز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روڈنی ہاگ کو لائیو مخاطب کیا اور پوچھا ’کیا یہ مسلز آپ کے لیے کافی ہیں؟‘

بریتھوٹ نے بتایا کہ وہ دنیا پہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نہ تو وہ قابلِ رحم تھے اور نہ ہی مایوس کن۔

بدقسمتی سے جو عروج اس فتح کے بعد ویسٹ انڈینٹیم سے متوقع تھا، وہ تو دیکھنے کو نہ مل سکا مگر جب یہی ٹیم حالیہ دورہِ پاکستان پر آئی تو اس کے پس منظر میں ایک مسلسل گونج سی تھی کہ وہ پچھلے 35 برسوں میں یہاں کوئی ایک بھی ٹیسٹ میچ جیت نہیں پائے تھے۔

اور جو کنڈیشنز یہاں مہمان ٹیم کو درپیش تھیں، وہ اگرچہ ان کے لیے بالکل نامانوس نہ تھیں مگر ان حالات کے تو یکسر برعکس ہی تھیں جو پچھلے سال برسبین میں شیمار جوزف کے اس جادوئی سپیل کی تائید کا سبب بنی تھیں۔

Getty Images

اگرچہ سیریز کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز نے اپنی کم مائیگی اور خدشات میں گنوا دیا مگر دوسرے میچ میں بریتھوٹ نے ایک بار پھر دنیا کو یہی بتانے کی کوشش کی کہ نہ تو وہ قابلِ رحم تھے اور نہ ہی مایوس کن تھے بلکہ ان کے ’بائی سیپ‘ پاکستان کے لیے بھی کافی تھے۔

بطور قائد بریتھوٹ نے پہلی ذمہ داری خود پر ڈالی اور اس پُرخطر پچ کے بھوتوں کا مقابلہ اپنے قدموں کے بے دھڑک استعمال سے کیا۔ دوسری اننگز میں جو بوجھ بریتھوٹ کے قدموں نے اٹھایا، پہلی اننگز میں ان کا وہی کام گداکیش موتی اور جومیل واریکن نے کیا۔

گو کیمار روچ کی انجری یہاں ویسٹ انڈین امکانات کے لیے امید افزا نہ تھی مگر ستم ظریفی کہیے کہ انھی کی انجری کی بدولت پاکستان کو وہ پیس کے ابتدائی چند اوورز بھی میسر نہ ہو پائے جہاں رنز بنانا قدرے آسان رہتا اور ٹاپ آرڈر بھی اپنے قدم ٹکا پاتا۔

الٹا دونوں کناروں سے نئی گیند سپنرز کے ہاتھ میں آ گئی۔ کیون سنکلیئر اور گداکیش موتی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کے قدم یوں اکھاڑے کہ پھر پانی مڈل آرڈر کے سر سے بھی گزرنے لگا اور ایک پہاڑ ہدف کی ابتدائی سیڑھیوں پہ ہی ان کی سانس پھولنے لگی۔

کیا اس شکست کا دوش پاکستانی بلے بازوں کی تکنیک پر دھرا جا سکتا ہے؟

’پاکستان اپنی ہی جارحیت کے جال میں پھنس گیا‘دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایامحمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےسعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھے

وہ بلے باز کہ جنھوں نے اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی کبھی ایسی سست پچز نہیں دیکھیں، جنھیں اکتوبر کے پہلے ہفتے تک بالکل مختلف پچز دستیاب تھیں اور اگلے ہی ہفتے انھیں ان پچز پہ اتار دیا گیا جہاں بلے بازی ایک مشقت بنی، جنھیں دو میچز ایسی سست ترین پچز پہ کھیلنے کے فوری بعد دو ماہ کے لیے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی بالکل الگ باؤنسی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا پڑا؟

کیا اس شکست کی ذمہ داری پاکستانی بولنگ پہ ڈالی جا سکتی ہے؟

جس بولنگ اٹیک نے انھی پچز پہ پاکستان کو چار میں سے تین میچز جتوا دیے، کیا اسی کو یہاں کٹہرے میں لا کھڑا کرنا حماقت نہیں ہو گی؟

Getty Images

اگرچہ کپتان شان مسعود بھی حریف لوئر آرڈر کے فیصلہ کن رنز پہ نالاں، اپنے بولرز کی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیے۔ مگر ذمہ دار یہاں نہ تو یہ بولنگ تھی اور نہ ہی کوئی قائدانہ کوتاہی، یہاں قصور فقط اس اپروچ کا تھا جو میچ کی پہلی سہہ پہر پاکستانی بلے بازوں نے اپنائی جب وہ اپنی اننگز کو تحمل سے بڑھانے کی بجائے بے سبب جارحیت پہ مائل ہوئے۔

پہلی اننگز میں ویسٹ انڈیز کو مختصر مجموعے تک محدود کر چھوڑنے کے بعد پاکستانی ڈریسنگ روم یہ بھول بیٹھا کہ دوغلے باؤنس اور نامعقول ٹرن کی ان کنڈیشنز میں چوتھی اننگز کی دھول بالآخر انہی کے سر پڑے گی۔

اس دھول سے بچنے کو پہلی اننگز ہی وہ موقع تھا جہاں پاکستانی بلے باز اپنے کھاتے اتنے بھر جاتے کہ چوتھی اننگز میں درکار ہدف بہر طور 150 سے بھی کم رہتا کہ اس پچ پہ اتنا ہی ہدف قابلِ حصول تھا۔

مگر نہ صرف وہاں پاکستانی بلے بازوں نے کوتاہ بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر ضروری جارحیت سے وکٹیں گنوا دیں بلکہ دوسری اننگز کی بولنگ میں بھی سارے قواعد بھلا کر ویسی ہی غیر ضروری جارحیت پہ اصرار کیا جو بریتھوٹ کے قدموں کی جرات میں بدل گئی۔

پاکستان کے لیے یہ نتیجہ کن مضمرات کا حامل ہو گا؟

اس بارے کوئی قیاس کرنا ممکن نہیں کہ پاکستان اپنا اگلا ٹیسٹ میچ ہی کہیں اکتوبر میں کھیلے گا۔ مگر ویسٹ انڈین کرکٹ کے لیے یہ لمحہ بہر صورت یاد گار ہے کہ 1980/90 کی مائٹی ویسٹ انڈیز کے بعد بالآخر یہ بریتھوٹ کی ٹیم ہی نکلی جس نے پاکستانی میدانوں میں وہ جیت کھوج نکالی جو ساڑھے تین دہائیوں سے مل کے نہ دے رہی تھی۔

ویسٹ انڈیز کی پاکستان میں 34 برس بعد پہلی ٹیسٹ فتح: ’ناتجربہ کار ٹیم نے سپن کھیلنا سکھا دیا‘’پاکستان اپنی ہی جارحیت کے جال میں پھنس گیا‘’پی سی بی اب دو قدم پیچھے بھی لے لے‘محمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےسعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےپاکستان ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز: میلکم مارشل کی 13 گیندیں اور 35 برس کا انتظار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More