BBCمینا (درمیان) کو ایک پیشہ ور کبڈی کھلاڑی بننے کی امید ہے
مینا کی نظریں اپنی مخالف ٹیم کو شکست دینے کا موقع ڈھونڈ رہی ہیں۔ وہ ایک لمحہ اور موقع بھی ضائع نہیں کرنا چاہتیں۔
انڈیا میں مقبول کبڈی کا کھیل اب دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک میں کھیلا جا رہا ہے۔کبڈی کا کھیل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے اور ہر ٹیم میں سات، سات کھلاڑی ہوتے ہیں۔
کبڈی کا میچ شروع ہوتا ہے تو ایک ٹیم گراؤنڈ میں دوسری ٹیم کے لیے متعین کردہ آدھے حصے پر حملہ کرتی ہے۔
حملہ کرنے والے ہر کھلاڑی کا مقصد زیادہ سے زیادہ مخالف کھلاڑیوں کو چھونے کے بعد اپنی پچ پر واپس آنا ہوتا ہے لیکن اگر اس کھلاڑی کو مخالف ٹیم نے میدان میں روک کر ناک آؤٹ کیا تو اسے آؤٹ ہونا پڑتا ہے۔
14 سالہ مینا کے لیے کبڈی صرف ایک کھیل نہیں ہے بلکہ ایک دوسری دنیا ہے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کا ایک بڑا موقع بھی۔
وہ شرماتے ہوئے اس بارے میں بات کرتی ہیں، سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر کہتی ہیں کہ ’جب میں کھیلتی ہوں تو مجھے کچھ مختلف محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت میں وہ مینا نہیں ہوں جو گھر کے کاموں، دباؤ اور دوسروں کی خواہشات میں جکڑی ہوئی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ان لڑکیوں سے زیادہ مضبوط ہیں جو کبڈی نہیں کھیلتیں۔
مینا ممبئی سے 230 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے قبائلی گاؤں کشوڈی کے مضافات میں رہتی ہیں۔
یہاں روایتی طور پر لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھریلو کام کریں، شادی کریں اور پھر بچوں کی پرورش شروع کریں۔
لیکن 15 سال پہلے مضبوط ارادے والے اساتذہ کے ایک گروپ نے لڑکیوں کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔
BBCداجی راج گرو وہ استاد ہیں جنھوں نے دیگر اساتذہ کے ساتھ مل کر لڑکیوں کو مزید مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک کلب شروع کیا
ان اساتذہ میں سے ایک داجی راج گرو ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میری ایک بیٹی ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اچھی زندگی گزارے اور کچھ بنے۔ آخر لڑکیاں کبڈی کھیل کر اسے اپنا کریئر کیوں نہیں بنا سکتیں؟‘
راج گرو اور ان کے دوست جوانی میں کبڈی کھیلا کرتے تھے اور انھوں نے مقامی لڑکیوں کو کبڈی کھیلنا سکھانے کا سوچا۔
انھوں نے اپنی جمع پونجی میں سے پانچ ہزار روپے نکالے اور مقامی سکول کو راضی کیا کہ وہ انھیں اپنا گراؤنڈ استعمال کرنے دیں۔ اس طرح لڑکیوں کے کبڈی کلب کا آغاز ہوا۔
ابتدائی طور پر سکول میں زیرِ تعلیمصرف دو لڑکیاں اس کلب میں آتی تھیں۔
اس بارے میں راج گرو کا کہنا ہے کہ ’والدین اپنی لڑکیوں کو کبڈی کھیلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے، کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ لڑکیوں کو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پڑے گا۔‘
’لڑکیوں کے والدین کو خدشہ تھا کہ کبڈی کھیلنے سے لڑکیوں کی شادیاں متاثر ہوں گی۔ ایک روایتی گھرانے میں لڑکیوں کا باہر جانا اور دیر سے گھر آنا اچھا نہیں سمجھا جاتا اور ایسی صورت حال میں والدین تیار نہیں ہوتے۔‘
اس کے بعد بھی راج گرو اور ان کے ساتھیوں نے گھر گھر جا کر لڑکیوں کے والدین سے بات کی اور انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ لڑکیاں سکول سے پہلے اور بعد میں محفوظ ماحول میں کبڈی کھیلیں گی۔ وہ اس بات کا مناسب خیال رکھیں گے کہ اس دوران لڑکے انھیں پریشان نہ کریں۔
BBCکبڈی ٹیم میں لڑکیاں سکول سے پہلے اور بعد میں ٹریننگ کرتی ہیںایمان خلیف: روٹی اور کچرا بیچنے والی باکسر جن کا اولمپکس میں متنازع سفر طلائی تمغے پر ختم ہواکیرم کی عالمی چیمپیئن بننے والی کاظمہ: ’جیت کے بعد باتیں کرنے والے مبارک دے رہے ہیں‘کینیا میں بھی ’کبڈی کبڈی‘ کی گونجکھیلوں کے وہ مقابلے جہاں خواتین مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں
شروع شروع میں تو ٹیچر لڑکیوں کو گھروں سے پِک کرتے تھے اور پھر انھیں واپس گھر چھوڑنے بھی جاتے تھے، لیکن پھر لڑکیوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اب ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔
اب اس کلب میں کل 30 لڑکیاں ہیں۔
ان کا اندازہ ہے کہ اب تک وہ 300 لڑکیوں کو کوچنگ دے چکے ہیں۔
ان میں راج گرو کی اپنی بیٹی بھی شامل ہیں۔ کچھ لڑکیوں نے تو سات برس کی عمر سے پہلے ہی کھیلنا شروع کر دیا ہے۔
کلب کے دیگر اراکین کی طرح مینا بھی سکول جانے سے پہلے دو گھنٹے اور سکول کے بعد دو گھنٹے ٹریننگ کرتی ہیں۔ اس کے لیے انھیں صبح سویرے گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور شام کو دیر تک ہی گھر واپس آتی ہیں۔
مینا کہتی ہیں کہ ’مجھے اندھیرے میں ہی گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ پہلے مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے، اس وقت میرے گھر والوں نے بھی میرا ساتھ نہیں دیا، خیر وہ اب بھی میرے کھیلوں میں جانے سے خوش نہیں ہیں۔‘
مینا ایک پرعزم لڑکی ہیں اور انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور کلب کے اراکین کی حوصلہ افزائی سے ریاستی ٹیم اور مقامی لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
سدھی چالکے اور سمرین برندکر کلب کے پہلے بیچ کی لڑکیوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے یہاں آٹھ سال تک تربیت حاصل کی۔ اب 25 سال کی عمر میں، وہ ایک پیشہ ور لیگ کھلاڑی ہیں اور مالی طور پر مستحکم بھی۔
شروع میں ان لڑکیوں کے گھر والوں کو لگتا تھا کہ کبڈی ان کی زندگی میں بس ایک وقت گزاری کا طریقہ ہے۔ لیکن جب ان لڑکیوں نے کبڈی کو اپنا کرئیر بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کے والدین زیادہ خوش نہیں تھے۔
ان میں ایسی لڑکیاں بھی ہیں جن پرشادی کا دباؤ مسلسل ہے، لیکن ساتھ ہی ان کے گھر والوں کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی لڑکیاں زندگی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
BBCکبڈی نے ثمرین برندکر کی زندگی بدل دی اور اسے مالی طور پر قابل بننے میں مدد دی۔
ثمرین کہتی ہیں کہ ’میرے خاندان میں کوئی بھی مجھ جیسا نہیں کماتا ہے۔ میں اب ایک بڑے شہر میں رہتی ہوں اور وہ کرتی ہوں جو مجھے پسند ہے۔‘
سدھی اور ثمرین ایک ہی ٹیم کے لیے کھیلتی ہیں۔ ان کی دوستی کبڈی کے ذریعے ہوئی۔ ان دونوں نے ایک ساتھ میچ کھیلنے کے لیے ملک بھر کا سفر کیا ہے اور بہت سے تمغے اور چیمپئن شپ جیتی ہیں۔
سدھی کہتی ہیں کہ ’میں یہ کام صرف کبڈی کی وجہ سے کر پائی، ورنہ میں شادی کے بعد شوہر کے گھر برتن صاف کر رہی ہوتی۔‘
یہ کہہ کر دونوں ہنس پڑیں۔
انڈیا میں کھیل بھی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
ریاستی حکومت کھیلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور تمغے لانے والوں کو ملازمتیں بھی فراہم کرتی ہے۔
بہت سی دیہاتی لڑکیاں اس امید کے ساتھ کھیلوں کی دنیا میں بھی آتی ہیں کہ ان ملازمتوں کے ذریعے وہ خود انحصاری کے قابل ہو جائیں گی اور اپنی ایک الگ پہچان بنائیں گی۔
کلب کے یوتھ کوچ ولاس بیندرے کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے سپورٹس کلب شروع کیا تو ان لڑکیوں کو کسی نے اہمیت نہیں دی، یہ ہمیشہ اپنے گھروں میں دوسرے درجے کی فرد تھیں۔‘
’ہم نے محسوس کیا کہ جب دیہی لڑکیاں کھیلوں کے ذریعے زندگی میں آگے بڑھتی ہیں، تو ان کی زندگی میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں، یہ چیزیں ان کے بات کرنے کے طریقے، ان کے اعتماد، اپنی زندگی گزارنے کے طریقے سے بھی ظاہر ہوتی ہیں۔‘
BBCکبڈی ٹورنامنٹس میں جیتی گئی رقم کلب کو فنڈز فراہم کرتی ہے
کلب ممبران کا کہنا ہے کہ اگر اس کلب کی لڑکیاں پروفیشنل کھلاڑی نہیں بنیں تب بھی انھوں نے ان لڑکیوں میں بڑی تبدیلیاں ہوتی دیکھی ہیں۔
’ہم نے یہاں آنے والی لڑکیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔ یہ لڑکیاں اپنے گھر والوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہی ہیں کہ وہ یونیورسٹی جا سکتی ہیں۔‘
اس طرح وہ بچپن میں شادی سے بھی گریز کرتی ہیں۔
اس کلب کے لیے فنڈز حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ اس کی مالی اعانت کوچز کے ذریعے کی جاتی ہے، مقابلوں میں جیتی گئی نقد رقم اور بعض اوقات عطیات۔
اس کلب میں شامل زیادہ تر لڑکیاں پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور یہاں انھیں کوئی فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کلب گرمیوں کے مہینوں میں سکول میں ایککھیلوں کا کیمپ بھی چلاتا ہے، جہاں انڈے، کیلے اور دودھ جیسی غذائی اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ کلب بعض اوقات اپنے فنڈز سے زخمی کھلاڑیوں کا علاج بھی کرواتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ والدین کا خوف بھی دور ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی اس کلب کے بارے میں اچھی باتیں کہتا ہے۔
راج گرو اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ’لوگ یہاں اور وہاں بہت سی باتیں کہتے ہیں جیسے کہ آپ لڑکوں کو کوچنگ کیوں نہیں دیتے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ لڑکوں کے لیے پہلے ہی کافی مواقع موجود ہیں۔ لڑکیوں کے بارے میں بات کی جائے تو ان کے لیے مواقع کی بہت کمی ہے۔‘
میںا کھیلوں میں دستیاب مواقع سے واقف ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہترین کھلاڑی بننا چاہتی ہوں اور انڈین ٹیم کی کبڈی کپتان بننا چاہتی ہوں۔‘
کینیا میں بھی ’کبڈی کبڈی‘ کی گونج’لڑکے ہوں یا لڑکیاں، پاکستانی کرکٹرز دنیا کی کسی بھی ٹیم کو پچھاڑ سکتے ہیں‘ایمان خلیف: روٹی اور کچرا بیچنے والی باکسر جن کا اولمپکس میں متنازع سفر طلائی تمغے پر ختم ہواکیرم کی عالمی چیمپیئن بننے والی کاظمہ: ’جیت کے بعد باتیں کرنے والے مبارک دے رہے ہیں‘