سبھاش چندر بوس کی ’آزاد ہند فوج‘ کے افسران کا کورٹ مارشل جو انگریز حکومت کو بہت مہنگا پڑا

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2025

Getty Imagesآزاد ہند فوج (انڈین نیشنل آرمی، آئی این اے) ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے

چھ جولائی 1943 کو سبھاش چندر بوس نے جاپانی وزیرِ اعظم ہیدیکی توجوکے ہمراہ ’آزاد ہند فوج‘ کے دستوں کا معائنہ کیا جس کے دوران انھوں نے ’ہندوستان چلو‘ کا نعرہ دیا۔

آزاد ہند فوج (انڈین نیشنل آرمی، آئی این اے) ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔ اس فوج کا قیام دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں جرمنی، اٹلی اور جاپان کے زیر اثر برما میں ہوا۔ اس فوج کے روح و رواں سبھاش چندر بوس تھے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دی ٹرائل دیٹ شوک دی بریٹن‘ کے مصنف آشیش رائے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بوس نے آئی این اے کے سپاہیوں کی حالت بہتر بنانے کی غرض سے ان کی تنخواہوں اور راشن میں اضافہ کیا۔ ’وہ پہلے سے کسی کو خبر کیے بغیر سپاہیوں کے ساتھ کھانا کھانے چلے جاتے تھے۔‘

’آزاد فوج کے سپاہیوں کے لیے ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے تھے۔ وہ انھیں اپنے ساتھ بیڈ منٹن کھیلنے بلاتے اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے۔‘

جب بوس کی جاپان کی جنوبی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل ہیسائچی تراوچی سے ملاقات ہوئی تو انھیں بتایا گیا کہ جلد ہی جاپانی فوج ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کے بعد ملک کا اقتدار ہندوستان کی عوام کے ہاتھوں میں دے دیا جائے گا۔

آشیش رائے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’بوس نے تراوچی کو صاف بتا دیا کہ ہندوستان پر حملے کی قیادت آئی این اے کرے گی۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے بہنے والا پہلا خون آئی این اے کے سپاہی کا ہونا چاہیے۔‘

Getty Imagesسبھاش چندر بوس اور جاپانی جاپانی وزیرِ اعظم ہیدیکی توجوہندوستانی جنگی قیدیوں کا آئی این اے میں شامل ہونے کا فیصلہ

جب جاپانی فوج نے سنگاپور پر قبضہ کیا تو ہندوستانی فوج کے 60 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ ان میں سے تقریباً 40 ہزار فوجیوں نے کپتان موہن سنگھ کی قیادت میں آئی این اے میں شامل ہو کر برطانوی راج کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا۔

تارک برکاوی اپنی کتاب ’سولجرز آف ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے کی ایک وجہ فوجیوں میں برطانیہ کے خلاف لڑنے کی خواہش تھی۔ تاہم اس فیصلے کی ایک اور وجہ بھی تھی: جاپانی جیلوں میں جنگی قیدیوں کی حالتِ زار۔

اس وقت جاپانی جیلوں میں جنگی قیدیوں کی اموات کی شرح 27 فیصد تھی۔ اس کے مقابلے میں برطانوی اور فرانسیسی جیلوں میں قید جرمن اور جاپانی جنگی قیدیوں کی اموات کی شرح محض چار فیصد تھی۔

جان کونیل ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل کلاڈ آکن لیک کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ سبھاش چندر بو کی آمد کے بعد آئی این اے کے فوجیوں کی تعداد 45 ہزار ہو گئی۔‘

ان میں 18 ہزار کو براہ راست جنوبی ایشیا کی ہندوستانی کمیونٹی سے بھرتی کیا گیا تھا۔

سنگاپور میں عبوری ہندوستانی حکومت کا قیام

21 اکتوبر 1943 کو سبھاش چندر بوس نے سنگاپور میں آزاد ہندوستان کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ جاپان، جرمنی، کروشیا، اٹلی، فلیپائن، تھائی لینڈ اور برما نے اس نئی ہدوستانی حکومت کو تسلیم کر لیا۔

سبھاش چندر بوس اس حکومت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے وزیر جنگ اور وزیر خارجہ امور بھی تھے۔

آئر لینڈ کے صدر ایمون ڈی ویلیرا نے سبھاش بوس کو مبارکباد کا پیغام بھیجا۔

دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیا میں رہنے والے ہندوستانی نژاد افراد اس نئی حکومت کی مدد کے لیے سامنے آئے اور انھوں نے بوس کی حکومت کو رقم اور زیورات دیے۔

آشیش رائے لکھتے ہیں کہ ’برما سے تعلق رکھنے والے عبدالحبیب نے اپنی ساری جائیداد سبھاش چندر بوس کی مہم کے نام کر دی۔ تین روز کے بعد آزاد ہندوستان کی حکومت نے برطانیہ اور امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ایسٹ ایشیا کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا گیا کہ برطانیہ کے قبضے سے لیے گئے اندمان اور نکوبار جزائر کو آزاد ہندوستان کی عبوری حکومت کو دیا جا رہا ہے۔‘

آئی این اے نے اپنے جھنڈے کے لیے کانگریس کے جھنڈے کے ہی رنگ منتخب کیے۔ تاہم آئی این اے کے جھنڈے پر تیندوا بنا ہوا تھا۔ یہ 18ویں صدی کے میسور کے بادشاہ ٹیپو سلطان سے متاثر تھا جنھیں انگریزوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔

آئی این اے کا نعرہ تھا: ’اعتماد، اتفاق اور قربانی۔‘

Getty Imagesایسٹ ایشیا کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا گیا کہ برطانیہ کے قبضے سے لیے گئے اندمان اور نکوبار جزائر کو آزاد ہندوستان کی عبوری حکومت کو دیا جا رہا ہےآزاد ہند فوج کے سربراہ جن کی موت کا ہندوستانیوں نے یقین کرنے سے انکار کر دیاسبھاش چندر بوس ’محمد ضیا الدین‘ بن کر کیسے انڈیا سے جرمنی پہنچے؟متحدہ ہندوستان کی وہ آخری رات جو گاندھی نے مستقبل کے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ گزاریکالا پانی: ہندوستان کی جنگ آزادی کی وہ ’قربان گاہ‘ جہاں ہر قیدی موت کی خواہش کرتا تھاکلکتہ پر بمباری کی مخالفت

سیاسی طور پر اگر سبھاش چندر بوس کی آئی این اے کو اگر بنگال کے راستے داخل کیا جاتا تو بہتر رہتا کیوں کہ وہاں آئی این اے کافی مقبول تھی اور لوگ اس کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آتے۔

لیکن اس وقت تک جاپانی بحریہ کافی کمزور ہو چکی تھی اور جاپان کا برما پر فضائی کنٹرول بھی کم ہونا شروع ہو گیا تھا۔

ہوزے لیبرا اپنی کتاب ’انڈین نیشنل آرمی اینڈ جاپان‘ میں لکھتے ہیں فروری 1944 میں سبھاش چندر بوس نے شمالی برما میں جاپانی فوج کے کمنڈر جنرل رینیا موٹاگوچی سے کہا کہ اگر جاپانی فوج ایمفال پر اپنے حملے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور آئی این اے کے سپاہی آسام میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہاں کی عوام اور برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی سپاہیوں کا ردِ عمل کافی مثبت ہوگا۔

’رفتہ رفتہ یہ تحریک پورے ہندوستان میں پھیل جائے گی خاص طور پر میری آبائی ریاست بنگال میں۔‘

لیبرا لکھتے ہیں کہ جب جنوری 1944 میں جاپانی جنرل تاداشی کاکاکورا نے کلکتہ اور چٹا گونگ پر بمباری کا منصوبہ بنایا تو اس پر سبھاش چندر بوس کی جانب سے کافی مخالفت سامنے آئی۔

اس سے قبل بھی 1942 میں جاپانی فضائی نے ان علاقوں پر بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔

Getty Imagesسبھاش چندر بوس آئی این اے اور جاپانی فوج کے اختلافات

1944 کے وسط تک عالمی جنگ کا پانسہ بدلنا شروع ہو چکا تھا۔

ریمنڈ کیلاہان اپنی کتاب ’برما 45-1942‘ میں لکھتے ہیں امریکی مدد سے ایمفال-کوہیما کی جنگ بھی کم بیش روس میں سٹالین گریڈ جیسی صورتحال پیش کر رہی تھی۔

دوسری جانب جاپانی فوج اور آئی این اے کے درمیان تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔

’جاپانی فوج نہیں چاہتی تھی کہ آئی این اے کا بڑا دستہ آگے بڑھے۔ انھوں نے ان کو مشکل اہداف دینے شروع کر دیے۔ ان کا مقصد آئی این اے کے سپاہیوں کا مورال کم کرنا تھا۔‘

’رسد کے لیے آئی این اے کی گوریلا یونٹ کا مکمل دارومدار جاپانیوں پر تھا۔ رسد نہ ملنے کی وجہ سے آئی این اے کے سپاہیوں کو چاول کو ناگا قبیلے سے ملنے والی گھاس کے ساتھ کھانا پڑا۔ ان کے لیے راحت کا واحد لمحہ وہ تھا جب وہ آسام میں داخل ہو کر ہندوستان کی سرزمین پر کھڑے ہو سکے۔

کوہیما سے واپسیGetty Images

22 جون 1944 کو جاپانیوں کی جانب سے آئی این اے کے جنرل شاہنواز خان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی فوجوں کو واپس بلالیں۔

کسی بھی فوج کے لیے کوہیما سے ایسے واپس نکلنا بہت مشکل تھا کیونکہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے واپسی کے راستوں کی ساری نشانیاں بہہ چکی تھیں۔

آئی این اے کے سپاہیوں کو گھٹنوں گھٹنوں کیچر میں راستے بنانے پڑے۔ اس دوران تقریباً تمام ہی سپاہی ہیضہ اور ملیریا کا شکار ہو گئے۔

شاہنواز خان اپنی کتاب ’مائی میموری آف آئی این اے اینڈ نیتا جی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’واپسی پر دیکھا کہ میرے سپاہی چار روز پہلے مرنے والے گھوڑے کا گوشت کھا رہے ہیں۔ سڑک کے دونوں جانب سینکڑوں جاپانی اور آئی این اے کے فوجیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو تھکاوٹ، بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ وہ کسی بھی صورت برطانوی فوج کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتے تھے۔‘

ہیو ٹوئے اپنی کتاب ’دی سپرنگنگ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ جب آئی این اے کے فوجیوں نے امفالا کی جانب پیش قدمی شروع کی تو ان کی تعداد چھ ہزار تھی لیکن ان میں سے صرف دو ہزار لوٹے۔ 715 سپاہی جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے، 400 لڑائی میں مارے گئے اور 800 نے ہتھیار ڈال دیے۔ تقریباً 1500 فوجی بھوک اور بیماری کی وجہ سے مارے گئے۔‘

لال قلعے میں بغاوت کا مقدمہ

13 مئی کو شاہنواز خان، جی ایس ڈھلوں اور آئی این اے کے 50 فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ انھیں دہلی کے لال قلعے میں رکھا گیا جہاں ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔

تفتیش مکمل ہونے کے بعد انھیں قریب ہی واقع سلیم گڑھ کے قلعے بھجوا دیا گیا۔

27 اگست 1945 کو برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ آئی این اے کے افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے گا تاکہ پوری دنیا ان کے جرائم کے بارے میں جان سکے۔

پیٹر فے اپنی کتاب ’دی فارگوٹین آرمی‘ میں لکھتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد ہونے والی کابینہ کی ایک میٹنگ میں برطانوی وزیرِ اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے وضاحت دی کہ ان کی حکومت آئی این اے کے سپاہیوں کو معافی دینے کی کیوں مخالف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کرتے ہیں تو اس سے برطانوی عوام کو یہ پیغام جائے گا کہ بغاوت بہت آسان ہے اور اس کے سنگین نتائج بھی نہیں ہوتے۔

Getty Imagesکانگریس رہنماؤں اور عوام کی حمایت

دوسری عالمی جنگ کے بعد سنسرشپ پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی این اے کی کارروائیوں کو عوام سے مزید نہیں چھپایا جا سکا اور اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

آشیش رائے لکھتے ہیں کہ ’اکتوبر 1945 کے بعد جواہر لعل نہرو نے لوگوں سے جے ہند اور دہلی چلو کے نعرے لگوانے شروع کر دیے۔ اس سے قبل وہ آئی این اے کے بارے میں ملی جلی رائے رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے دوست کرشنا مینن کو کو لکھا کہ آئی این اے والے بہادر اور قابل لوگ ہیں جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘

سب سے پہلے شاہنواز خان، پریم سہگل اور گربخش ڈھلوں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

مہاتما گاندھی کا وائسرائے کو خط

کانگریس کی جانب سے ان افراد کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے 17 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس میں جواہر لعل نہرو، سر تیج بہادر سپرو، بھولا بھائی ڈیسائی، کیلاش ناتھ کاٹجو، بدری داس ،آصف علی، کنور سر دلیپ سنگھ، بخشی سر ٹیک چند اور پی کے این شامل تھے۔

مقدمہ کے آغاز سے چھ سن قبل مہاتما گاندھی نے وائسرے کے پرائیوٹ سیکرٹری سر ایون جینکنز کو خط لکھا تھا کہ’میں نے کبھی ان لوگوں کی حمایت نہیں کی لیکن ان کی بہادری اور حب الوطنی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیا حکومت عوام کی متفقہ رائے کے خلاف جا سکتی ہے؟ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے پاس بے پناہ طاقت ہے لیکن اگر حکومت اس بارے میں کوئی فیصلہ لیتی ہے تو یہ طاقت کا بے جا استعمال ہے۔‘

Getty Imagesوائسرائے کا جواب

مقدمہ شروع ہونے کے ایک روز بعد وائسرائے کے سیکنڈ پروئیوٹ سیکرٹری جارج ایبل نے گاندھی کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا خط اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین پر مبنی ہے جس میں حقائق ہمیشہ صحیح سے نہیں بتائے جاتے۔ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے اس لیے وائسرائے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘

اس کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ بنایا گیا جن کے سربراہ میجر جنرل ایلن بلیکس لینڈ کو مقرر تھے۔

سماعت کی آغاز سے دو روز قبل جواہر لعل نہرو وائسرائے اے پی ویول سے بھی ملے۔

Getty Imagesوائسرائے اے پی ویولجناح کا کردار

اسی دوران اس سارے معاملے میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب محمد علی جناح نے اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی۔

درگا داس اپنی کتاب ’انڈیا فرام کرزن ٹو نہرو اینڈ آفٹر‘ میں لکھتی ہیں کہ ’جناح نے شاہنواز خان کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ خود کو دوسرے ملزموں سے الگ کر لیں تو وہ ان کی وکالت کے لیے تیار ہیں۔ شاہنواز نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے اس جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ یا تو ہم ساتھ کھڑے ہوں گے یا اس جنگ میں مر جائیں گے۔‘

مقدمے کی سماعت پانچ نومبر کو لال قلعہ کی دوسری منزل پر ایک بڑے کمرے میں شروع ہوئی۔ تمام ملزمان خاکی کپڑے پہن کر آئے تھے لیکن ان پر کوئی رینک کا نشان نہیں تھا۔ مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے انھوں نے نہرو کو ہوشیاری سے سلام کیا۔

پنڈت نہرو نے 25 سال بعد بیرسٹر کا گاؤن پہنا۔ مقدمے کی کارروائی پہلے دن ساڑھے پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔

اس دوران استغاثہ نے تین افسران کیپٹن شاہنواز خان، پریم سہگل اور لیفٹیننٹ ڈھلوں پر برطانوی شہنشاہ کے خلاف بغاوت کا الزام لگایا۔

تینوں آئی این اے افسران نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔

AFPسزا کے بعد معافی

31 دسمبر 1945 کو ججوں نے تینوں ملزمان کو برطانوی شہنشاہ کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مجرم قرار دیا۔ ان سب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

لیکن تین جنوری 1946 کو کمانڈر ان چیف آچن لیک نے ان سب کو معاف کر دیا۔

پیٹر فے اپنی کتاب ’دی فارگاٹن آرمی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک برطانوی افسر نے خان، سہگل اور ڈھلوں کو فون کیا اور انھیں حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ یہ سن کر وہ سب خاموش کھڑے ہو گئے۔ افسران سے پوچھا، ’اب ہم کیا کریں؟' ایک افسر نے کہا 'آپ جا سکتے ہیں'، اگر آپ کے رشتہ دار دہلی میں ہیں تو وہاں جائیں ورنہ لاہور کے لیے ٹرین بک کروائیں گے۔‘

اسی شام تینوں کو لال قلعہ کی جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ان سبھی کو کانگریس لیڈر آصف علی کے گھر لے جایا گیا۔ ایک دن بعد تینوں نے ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک ریلی سے خطاب کیا۔

شاہنواز خان نے کہا کہ ہم اپنی رہائی پر اپنے ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں، پہلی بار برطانوی حکومت کی طاقت ہندوستانی عوام کی مرضی کے سامنے جھک گئی ہے۔ ہماری بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہمارے ہم وطنوں کو ان کی آزادی ملنی چاہیے۔ ’ہمیں لڑنے کا حق ہے۔‘

’ہر سپاہی کی شہادت کا بدلہ 20 انگریزوں کے خون سے لیا جائے گا‘

آشیش رے لکھتے ہیں کہ ’ہندوستانی فوج کے تین افسروں کا کورٹ مارشل کرنے کا برطانوی فیصلہ بہت بڑی غلطی نکلا۔ ایک مسلمان، ایک ہندو اور ایک سکھ ایک طرح سے ہندوستان کی تین بڑی برادریوں ان کے مقدمات کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ اس کیس نے ان تینوں برادریوں کو ایک مختصر وقت کے لیے متحد کرنے کا کام کیا اور انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی چنگاری ایک بڑی آگ بن گئی۔‘

ملک بھر میں مظاہرین نے ہڑتال کر دی۔ ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے جن پر لکھا تھا ’آئی این اے کے محب وطنوں کو بچاؤ۔‘ الہ آباد، بامرولی اور کانپور کے ایئر مین نے آئی این اے کے دفاعی فنڈ میں عطیہ کیا۔ ان تینوں کے اعزاز میں اس سال لاہور میں دیوالی نہیں منائی گئی۔

بچے سڑکوں پر یہ نعرے لگاتے نظر آئے ’آزاد فوج چھوڑ دو، لال قلعہ گراؤ۔‘ 21 نومبر کو ان تینوں کی حمایت میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں 11 لوگ مارے گئے۔ ہجوم نے 15 برطانوی فوجی گاڑیوں کو آگ لگا دی اور پولیس کو ان پر قابو پانے کے لیے دو بار فائر کرنا پڑا۔

راتوں رات دہلی میں اشتہارات لگائے گئے جس میں لکھا تھا کہ 'آئی این اے کے ہر سپاہی کی شہادت کا بدلہ 20 انگریزوں کے خون سے لیا جائے گا۔‘

Getty Imagesملک کا ماحول بدل گیا

اس کیس نے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف ایک مخصوص ماحول پیدا کر دیا۔ آئی این اے کے دستوں کو کانگریس مخالف عناصر جیسے مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، یونینسٹ پارٹی، اکالی دل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہاسبھا کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔

شمال مغربی سرحد کے گورنر نے خبردار کیا کہ اس کیس کی وجہ سے ہندوستانی عوام میں انگریز مخالف جذبات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

بپن چندر اپنی کتاب 'انڈیاز سٹرگل فار انڈیپنڈنس' میں لکھتے ہیں کہ 'توقعات کے برعکس آئی این اے کے لوگوں کو بھی ہندوستانی فوج کی حمایت حاصل تھی۔ برطانوی حکومت کی انھیں غدار ظاہر کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔'

مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے چند روز بعد خاموشی سے ہندوستان کے عوام کو اقتدار سونپنے کی مہم پر کام شروع ہو گیا تھا۔

اس کا پہلا اشارہ اس وقت سامنے آیا جب برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ ’مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے لوگ برطانوی دولت مشترکہ میں رہنے کو ترجیح دیں گے لیکن اگر وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ فیصلہ لینے کا حق ہے۔‘

کیا ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ ایک مسلمان نے لگایا تھا؟1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھا3 جون 1947: کیا انڈیا اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ کا اچانک فیصلہ کیا گیا؟پاکستان اپنا یومِ آزادی انڈیا سے ایک دن پہلے کیوں مناتا ہے؟بہادر شاہ ظفر: آخری مغل بادشاہ جن کی قبر کا سو برس تک کسی کو پتہ نہیں چلاانگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More