بے مثل موسیقار او پی نیئر جو ’لاہور چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے‘

اردو نیوز  |  Jan 28, 2025

وہ بمبئی جانے کے لیے ٹرین کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہا تھا۔ راستے میں ایک خاندان نے اُسے کھانے کی پیشکش کی، بھوک تو لگی تھی چناںچہ انکار نہ کر سکا۔ کھانا تناول کرنے کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر ایک کاغذ پر اپنا نام ’اوم کار پرساد نیئر‘ لکھ دیا اور کہا کہ ’چچا، میں بمبئی (اب ممبئی) جا رہا ہوں اور جلد مشہور ہو جاؤں گا۔ آپ کو کبھی میری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی تو مجھے ضرور یاد کیجیے گا۔‘

یہ کہانی ہندی فلمی موسیقی کی روایت کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک اوم کار پرساد نیئر یا او پی نیئر کی ہے۔

یہ وہ او پی نیئر ہیں جو کبھی بالی وڈ میں ’ہٹ مشین‘ کے طور پر جانے جاتے تھے کہ ان کی موسیقی سے سجا ہر گانا ہی کامیاب رہتا تھا۔ 

یہ بے مثل موسیقار کبھی اپنی جنم بھومی واپس نہیں لوٹ سکے۔

انڈیا کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ بھی تو چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہوئے تھے مگر وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھے کہ اُن کے زخم تازہ ہو جاتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ او پی نیئر کے ساتھ بھی تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایک پروڈیوسر نے اوپی نیئر کو لاہور آنے کی دعوت دی تو انہوں نے انکار کر دیا کیوںکہ اس سے اُن کی وہ تکلیف دہ یادیں تازہ ہو جاتیں جن کا انہوں اور اُن کے خاندان نے تقسیم کے دوران سامنا کیا تھا۔

انہوں نے اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں زبردستی ملک سے نکال دیا گیا جبکہ ہم اپنا گھربار نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ سیاست دانوں نے قوم کو تقسیم کر دیا۔ میں اسی لیے یہ کہا کرتا ہوں کہ انسانیت ہی میرا مذہب ہے۔‘

انہوں نے ایک اور انٹرویو میں لاہور میں بیتے دنوں کا ذکر، اپنے فنی سفر کی ابتدا اور لاہور میں گزرے ماہ و سال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے کبھی موسیقی کو کیریئر بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ لوگ مجھ سے کہا کرتے کہ میری آواز اچھی ہے کیوں کہ میں اپنی جنم بھومی میں ہونے والی تقریبات میں گیت گایا کرتا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں سال 1926 میں پیدا ہوا اور جب ٹین ایجر تھا تو آل انڈیا ریڈیو نے لاہور میں اپنا سٹوڈیو قائم کیا۔ مجھے یہاں کچھ پروگراموں میں گیت گانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ پڑھنے میں دل تو لگتا نہیں تھا تو اپنا جیب خرچ حتیٰ کہ کالج کی فیس بھی موسیقی کے ریکارڈز خریدنے پر خرچ کر دیا کرتا۔

مجھے آل انڈیا ریڈیو سے ایک پروگرام کے 30 روپے ملا کرتے تھے اور میں ایک ماہ میں چار پروگرام کرتا تھا، یہ اُن دنوں ایک خاصی معقول رقم تھی۔ میں ہمیشہ بہت ضدی رہا ہوں، اسی وجہ سے جب میرا خاندان تقسیم کے وقت انڈیا جا رہا تھا تو میں نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔‘

او پی نیئر نے تقسیم کے دنوں کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم ایک مسلمان محلے میں رہتے تھے۔ شہر میں ہنگامے شروع ہوئے تو میرے ایک مسلمان پڑوسی نے مجھے پناہ دی۔ لیکن ایک روز گھر پر بلوائی آ گئے اور انہوں نے گھر میں چھپائے گئے ہندو لڑکے یعنی مجھے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ مجھے پناہ دینے والے خاندان نے ٹانگے کا بندوبست کیا اور گھر کے عقبی دروازے سے فرار کروا دیا۔ میں کسی طرح مہاجر کیمپ پہنچنے میں کامیاب رہا جہاں سے نومبر 1947 میں تقسیم کے تین ماہ بعد امرتسر پہنچا۔‘

او پی نیئر نے اپنے ابتدائی دور میں زیادہ کام گیتا دَت، شمشاد بیگم اور محمد رفیع  کے ساتھ کیا۔ فوٹو: بالی ڈاٹ کام

او پی نیئر نے اپنا ڈیبیو سال 1949 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کنیز‘ کے ذریعے کیا۔ اس فلم کے پروڈیوسر دل سکھ ایم پنچولی تھے۔ ان کی فلم ’گل بکاؤلی‘ کے ذریعے ہی ملکہ ترنم نور جہاں کو بطور گلوکارہ پہچان ملی تھی۔

پنچولی کے ساتھ بھی او پی نیئر والا معاملہ ہی ہوا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ انہوں نے لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن میں فلم سٹوڈیو قائم کیا مگر اُن دنوں ہی فسادات شروع ہو گئے جس کے باعث فلم سٹوڈیو کے افتتاح کے لیے دل سکھ پنچولی کبھی لاہور واپس نہیں لوٹ سکے۔ یہ فلم سٹوڈیو اب ماضی کی گرد میں کھو چکا ہے۔

او پی نیئر کو بالی وُڈ میں اپنی پہچان بنانے کے لیے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ سال 1954 میں لیجنڈری ہدایت کار گُرو دَت کی فلم ’آر پار‘ کے ذریعے موسیقار کو وہ بریک مل گیا جس کے وہ منتظر تھے۔ اس فلم کے نغمہ نگار مجروح سلطان پوری تھے۔

اس فلم سے قبل اگرچہ او پی نیئر ہدایت کار کی فلم ’باز‘ میں موسیقار کے طور پر کام کر چکے تھے مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم، ’باز‘ ہی وہ فلم تھی جس کے بعد او پی نیئر نے گرو دَت کی فلموں ’آر پار‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ اور ’سی آئی ڈی‘ کی موسیقی ترتیب دی۔

فلم ’آر پار‘ سے قبل تو موسیقار اس قدر مایوس ہو چکے تھے کہ وہ بمبئی سے ہمیشہ کے لیے واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’امرتسر جانے سے قبل او پی نیئر گرو دَت کے پاس اپنا اُدھار واپس لینے کے لیے گئے۔  گرو دَت بھی چوں کہ فلم کی ناکامی کی وجہ سے ٹوٹ چکے تھے تو انہوں نے اپنی اگلی فلم ’آر پار‘ کی موسیقی کے لیے او پی نیئر کو موسیقی دینے کی پیشکش کی۔ لیکن نیئر کو صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں تھا کہ وہ فلم کا حصہ ہیں، چناں چہ انہوں نے فلم کے لیے کچھ فنڈز جمع کیے اور موسیقار کو دو ہزار روپے ایڈوانس کی مد میں ادا کیے۔‘

اس فلم کا ہر گیت کامیاب رہا۔ چاہے وہ ’کبھی آر کبھی پار‘ ہو (یہ گیت شمشاد بیگم نے گایا تھا جسے ری مکسنگ کے نام پر بار بار خراب کیا جاتا رہا ہے)، یا ’بابو جی دھیرے چلنا‘ (گیتا دَت) تو یہ تمام گیت ایور گرین قرار پائے۔

دیو آنند کی فلم ’سی آئی ڈی‘ کا ذکر ہو اور اس کی موسیقی کا ذکر نہ ہو تو یہ ممکن نہیں۔ ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ اور ’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ آج دہائیاں گزر جانے کے بعد سامعین کے کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔ اس فلم کے ذریعے آشا بھوسلے اور او پی نیئر کے درمیان وہ تخلیقی رشتہ قائم ہوا جس نے بالی وُڈ کو ایک کے بعد ایک ہٹ گیت دیا۔

مانک پریم چند کی او پی نیئر کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔ فائل فوٹو

او پی نیئر نے اپنے ابتدائی دور میں زیادہ کام گیتا دَت، شمشاد بیگم اور محمد رفیع  کے ساتھ کیا۔ ’سی آئی ڈی‘ کی ریلیز کے بعد اس فہرست میں آشا بھوسلے کے نام کا بھی اضافہ ہو گیا مگر موسیقار نے کبھی لتا جی کے ساتھ کام نہیں کیا۔ اپنے عہد کے نمایاں کمپوزرز میں واحد او پی نیئر تھے جنہوں نے لتا جی کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا۔

انڈیا کے انگریزی ٹیلی ویژن چینل ’ٹائمز ناؤ‘ کی ویب سائٹ کے لیے سبھاش کے جھا لکھتے ہیں کہ ’سال 1952 میں او پی نیئر فلم ’آسمان‘ کے لیے لتا جی سے گیت گنوانا چاہتے تھے۔ دھن بن چکی تھی، ریکارڈنگ کے لیے تاریخ اور وقت بھی طے کیا جا چکا تھا۔ تاہم، لتا جی ریکارڈنگ پر نہیں پہنچیں۔‘

مضمون میں لکھا گیا کہ اس پورے معاملے کے بارے میں جاننے کے لیے جب لتا جی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ مجھے نیئر جی کے لیے گیت ریکارڈ کروانا تھا لیکن یہ ہو نہیں سکا۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ کیوں۔ لیکن میں ریکارڈ نہیں کروا سکی۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے غالباً بُرا محسوس کیا اور ہم نے پھر کبھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ یہ اچھے کے لیے ہی تھا۔ وہ ایک زبردست موسیقار تھے لیکن ان کا انداز میرے لیے موزوں نہیں تھا۔ انہوں نے ہی مجھ سے یہ کہا تھا اور میں نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے اعلانیہ طور پر یہ کہا تھا کہ میں ایک خاص گلوکارہ ہوں۔ میرا اُن کے ساتھ ایک پُرجوش تعلق قائم رہا۔‘

یہ وہ کہانی تھی جو بالی وُڈ میں بہت سی افواہوں کو جنم دینے کی وجہ بنتی رہی ہے۔

فلم ’آسمان‘ کا ذکر ہوا تو یہ بتاتے چلیں کہ اسی فلم کے ذریعے او پی نیئر اور گیتا دَت میں وہ تخلیقی رشتہ استوار ہوا جو اگلے کئی برسوں تک قائم رہا۔ یہ گیتا دَت ہی تھیں جنہوں نے ازاَں بعد گرو دَت کو او پی نیئر کا نام تجویز کیا تھا۔

اس زمانے میں ہی سال 1957 میں ہدایت کار اور پروڈیوسر بی آر چوپڑا کی فلم ’نیا دور‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور وجنتی مالا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم اور موسیقی سپرہٹ رہی۔

انڈین آن لائن اخبار ’دی پرنٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، پچاس کی دہائی کے اوآخر میں شنکر جے کشن کے لیے نیئر سب سے بڑا خطرہ تصور کیے جا رہے تھے، جن کی فلم ’سی آئی ڈی‘ سپرہٹ رہی تھی۔

سال 1957 میں ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے ’نیا دور‘ کے بلاک بسٹر ہونے کی وجہ موسیقار کو قرار دیا تھا۔

’دی پرنٹ‘ مزید لکھتا ہے کہ ’کہا جاتا ہے کہ اگرچہ فلم کا ہر گیت کامیاب رہا تھا مگر ’خودپسندی‘ کی وجہ سے بی آر چوپڑا نے کبھی نیئر کے ساتھ دوبارہ کام نہیں کیا۔‘

یہ فلم آشا بھوسلے کے کیریئر کے لیے تو بڑی بریک ثابت ہوئی ہی جنہوں نے وجنتی مالا پر فلمائے گئے تمام گیت گائے تھے بلکہ اسی سال ناصر حسین نے نو آموز اداکاروں شمی کپور اور امیتا کے ساتھ فلم ’تم سا نہیں دیکھا‘ کے لیے او پی نیئر کو بطور موسیقار کاسٹ کیا جس کے محمد رفیع اور آشا بھوسلے کے گائے دوگانے ’سر پر ٹوپی لال، ہاتھ میں ریشم کا رومال‘ اور’دیکھو قسم سے کہتے ہیں تم سے ہاں‘ ایورگرین قرار پائے اور یوں شمی کپور کو وہ بریک مل گئی جس کا انہوں نے کئی برس انتظار کیا تھا۔

شمی کپور نے ایک بار کہا تھا کہ ’وہ او پی نیئر کی موسیقی پر پرجوش انداز میں ڈانس کیا کرتے تھے۔‘

1957 میں ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے ’نیا دور‘ کے بلاک بسٹر ہونے کی وجہ او پی نیئر کو قرار دیا تھا۔ فائل فوٹو

آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ او پی نیئر نے رفیع کی آواز کے اتار چڑھاؤ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسی موسیقی ترتیب دی جس میں جوش تھا، جنون تھا اور یہ رومانی طور پر متنوع تھی۔ اس قسم کے گیت گانے میں رفیع کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سال 1954-56 کے بعد اگلے کئی برس تک محمد رفیع غیرمتنازع طور پر بالی وُڈ کے صفِ اول کے پسِ پردہ گلوکار رہے۔ چناں چہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ او پی نیئر ہی تھے جنہوں نے رفیع جی کو نوشاد کے کلاسیکی اثر سے باہر نکالا۔

موسیقار نوشاد اور ثریا یا مدن موہن اور لتا کی طرح او پی نیئر کا آشا بھوسلے سے ایک طویل تخلیقی تعلق قائم رہا۔

اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق، موسیقار او پی نیئر اور آشا بھوسلے کا تعلق تاریخ ساز تھا۔ انہوں نے بالی وُڈ کے لیے کچھ یادگار ترین گیت تخلیق کیے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیئر ہی تھے جنہوں نے آشا بھوسلے کو ان کا منفرد طرزِ گائیکی اختیار کرنے میں ان کی مدد کی، جو اُن کی بڑی بہن سے بہت مختلف تھا جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں نمایاں تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب سال 1972 میں او پی نیئر اور آشا بھوسلے کی راہیں جدا ہو گئیں اور اُن دونوں نے دوبارہ کبھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ یہ افواہیں بھی زیرِگردش رہیں کہ آشا اور او پی نیئر میں محبت کا رشتہ استوار ہو گیا تھا۔

سال 1974 میں آشا بھوسلے کو جس گیت پر بہترین پلے بیک گلوکارہ کا ایوارڈ ملا، وہ کسی فلم میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہ گیت ’چین سے ہم کو کبھی آپ نے جانے نہ دیا‘ تھا جو اُن کا موسیقار او پی نیئر کے ساتھ آخری گیت تھا جسے فلم ’پران جائے پر وچن نہ جائے‘ میں شامل کیا جانا تھا مگر یہ گیت آخری وقت پر فلم سے نکال دیا گیا تھا۔

بالی وُڈ کو لازوال دھنیں دینے والے اس موسیقار نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ یہ تو لاہور میں انہوں نے اپنی بیوی سروج کا لکھا گیت ’پریتم آن ملو‘ کمپوز کیا تھا۔ یہ گیت پروڈیوسرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا جسے بعدازاں گیتا دَت نے فلم ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ کے لیے گایا تھا۔

او پی نیئر اور سروج کی ملاقات لاہور ریڈیو سٹیشن پر ہوئی تھی۔ دونوں میں محبت پروان چڑھی تو وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

او پی نیئر 28 جنوری 2007 کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔ فوٹو: بشکریہ اجے منکوتیہ

 پچاس اور ساٹھ کی دہائی بلاشبہ او پی نیئر کے نام رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایس ڈی برمن، شنکر جے کشن، روشن اور نوشاد جیسے موسیقار بالی وُڈ پر راج کر رہے تھے مگر او پی نیئر کی موسیقی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی جنہوں نے کبھی کسی میوزک ڈائریکٹر کے معاون کے طور پر کام نہیں کیا اور وہ بالی وُڈ کے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے ایک فلم کا ایک لاکھ روپے معاوضہ وصول کرنا شروع کیا۔

او پی نیئر کی موسیقی کی طرح اُن کی زندگی بھی نغمیت سے بھرپور تھی جیسا کہ وہ ہمیشہ بے داغ سفید شرٹ، سیاہ جوتوں، ہیٹ اور بلیزر میں ہی دکھائی دیتے تھے جب کہ اُس زمانے میں مغربی اور پنچابی موسیقی کا سحر طاری کر دینے والا فیوژن تخلیق کرنا نیئر کا ہی خاصہ تھا۔

او پی نیئر بلاشبہ اپنی مرضی سے، اپنی شرائط کے مطابق زندگی جیے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں تو وہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے اور مریضوں کا بلامعاوضہ معائنہ کیا کرتے۔

انہوں نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’وہ بیتے دنوں میں موسیقی کے ذریعے روح کی غذا دیا کرتے تھے اور وہ اب انسانی جسم کے لیے دوا دے رہے ہیں۔‘

یہ بے مثل موسیقار آج ہی کے روز 28 جنوری 2007 کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ اُس وقت اُن کی عمر 81 برس تھی۔ اُن کی آخری رسومات تھانے میں ادا کی گئیں جن میں ان کی خواہش کے مطابق اُن کے عزیز و اقارب یا بالی وُڈ کی کوئی شخصیت شریک نہیں ہوئی کیوں کہ انہوں نے ہی ایسا کہا تھا اور اُن کے اپنے الفاظ میں وہ  ضدی تھے تو وہ اپنی یہ ’ضد‘ بھی منوا کر ہی رہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More