Getty Images
جس وقت چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت کے افق پر چھا گئی تو اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ امریکہ کے ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب بڑے حریف چین کے لیے بھی درد سر بنے گی۔
دو برس میں چین کے مصنوعی ذہانت کے ایک نئے ماڈل نے اس سوال کا رخ موڑ دیا: کیا امریکہ چینی ایجادات کو روک سکتا ہے؟
ایک لمحے کے لیے تو جیسے چیٹ جی پی ٹی کے سامنے بیجنگ لڑکھڑا سا گیا کیونکہ یہ ایپ تو چین میں دستیاب ہی نہیں۔
صارفین نے سرچ انجن کی دنیا میں بڑے نام ’بیدو‘ کی چیٹ بوٹ ’ایرنی‘ کا مذاق اڑایا۔ اس کے بعد ٹیکنالوجی فرم ٹینسٹ اور بائیٹ ڈانس کے ورژن آئے لیکن ان کو چیٹ جی پی ٹی جیسے قرار دے کر رد کر دیا گیا۔ یہ کارکردگی میں بھی چیٹ جی پی ٹی کے برابر نہیں تھے۔
واشنگٹن پراعتماد تھا کہ وہ (چین سے) آگے ہے اور وہ اس سبقت کو برقرار بھی رکھنا چاہتا تھا۔ پھر بائیڈن انتظامیہ نے چین کو ہر طرح کی ’چِپس‘ اور ٹیکنالوجی کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی۔
یہی وجہ ہے کہ ڈیپ سیک کی ایجاد نے سیلیکون ویلی اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے طاقتور ماڈل امریکی کمپنیوں کی طرف سے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار کیے جانے والے مصنوعی ذہانت سے کہیں زیادہ سستے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ایک غیرمعروف کمپنی، جس کے مالک کی چین کے سوشل میڈیا پر ایک ’اے آئی ہیرو‘ کے طور پر تعریف کی جا رہی ہے، نے یہ سب کیسے ممکن بنایا۔
چیلنج
جب امریکہ نے چپ بنانے والی کمپنیوں جیسے نویڈیا پر چین کو جدید ٹیکنالوجی فروخت کرنے سے روک دیا تو یہ یقیناً چین کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔
یہ چپس طاقتور اے آئی ماڈل کے لیے لازمی درکار ہوتی ہیں جو متعدد انسانی ٹاسک سرانجام دے سکتی ہیں جس میں بنیادی سوالات کے جوابات سے لے کر ریاضی کے پیچیدہ سوالات کے جواب تک شامل ہیں۔
میڈیا کو دیے جانے والے انٹرویوز میں ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وینفینگ نے چپ پر پابندی کو ایک خاص چیلنج کے طور پر بیان کیا۔
اس پابندی سے بہت عرصہ قبل ڈیپ سیک کو نویڈیا کمپنی کے A100 چپس کی بڑی تعداد میں ضرورت ہے۔ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ریویو کے مطابق اندازاً دس ہزار سے لے کر 50 ہزار چپس کی ضرورت۔
اندازے کے مطابق مغربی ممالک میں اے آئی ماڈلز کے لیے 16000 تخصیص والی چپس استعمال کی جا رہی ہیں۔ مگر ڈیپ سیک کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اے آئی ماڈل کو دو ہزار چپس کو استعمال کرتے ہوئے تربیت دی اور اس عمل میں ہزاروں کم درجے والی چپس بھی استعمال ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس کمپنی کی اشیا سستی دستیاب ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑے نام جیسے ایلون مسک اس دعوے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کمپنی اتنی بڑی تعداد میں جدید چپس کے استعمال کی تعداد نہیں بتا سکتی۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے عائد پابندی چین کی اے آئی انڈسٹری کے لیے چیلنجز اور مواقع دونوں کا سبب بنی۔
سڈنی کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مارینا زینگ کا کہنا ہے کہ اس پابندی نے چین کی ڈیپ سیک جیسی کمپنیوں کو نئی ایجاد کی طرف مائل کیا تاکہ وہ کم خرچ میں کچھ زیادہ کر سکیں۔
Getty Images
’یہ پابندیاں چیلنجز کا باعث بنتی ہیں تاہم ان کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتوں کو بھی فروغ ملا، جو چین کے تکنیکی آزادی کے حصول کے وسیع تر پالیسی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔‘
الیکٹرک کاروں کی بیٹریوں اور سولر پینلز سے لے کر مصنوعی ذہانت تک، دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
چین کو ٹیکنالوجی کی سپر پاور بنانا ایک طویل عرصے سے صدر شی جن پنگ کی خواہش تھی، لہذا واشنگٹن کی جانب سے عائد پابندیاں بھی ایک چیلنج تھا، جس کا سامنا بیجنگ نے کیا۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ مصنوعی ذہانت کے ماہرگریگوری سی ایلن کے مطابق چین نے 20 جنوری کو ڈیپ سیک کے نئے ماڈل کی ریلیز جان بوجھ کر اس دن کی، جب امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
امریکی محکمہ دفاع میں ’جوائنٹ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سینٹر‘ کے سابق پالیسی ڈائریکٹر گریگوری ایلن کہتے ہیں کہ ’جس وقت پر اور جس طرح سے یہ پیغام دیا گیا، وہ بالکل ویسے ہی ہے، جیسے چینی حکومت چاہتی ہے کہ ہر کوئی اس کے بارے میس سوچے۔‘
حالیہ کچھ برسوں میں چینی حکومت نے مصنوعی ذہانت پر کام کرتے ہوئے اس حوالے سے ٹیلنٹ کو فروغ دیا، اس حوالے سے کام کرنے والوں کو سکالر شپ اورتحقیق کے لیے گرانٹس دی گئی ہیں جبکہ یونیورسٹیوں اور اس صنعت کے درمیان شراکت داری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
پروفیسر مارینا زینگ کے مطابق اس حوالے سے چین کی نیشنل انجینیئرنگ لیبارٹری‘ اور ریاست کے حمایت یافتہ دیگر اقدامات نے مصنوعی ذہانت کے ہزاروں ماہرین کو تربیت دینے میں مدد کی۔
اور چین کے پاس اس صنعت میں بھرتی اور کام کرنے کے لیے بہت سے انجینیئر موجود تھے۔
ڈیپ سیک: امریکہ میں کھلبلی مچانے والی چینی اے آئی ایپ جسے ’سائبر حملوں‘ کا سامنا ہےدنیا کے امیر ترین شخص، مقبول یوٹیوبر یا کوئی اور، امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟اوپن اے آئی کی سربراہ اور سیلیکون ویلی کی سب سے بااثر خواتین میں شامل میرا مورتی کون ہیں؟ٹِک ٹاک سے دُنیا کو تین بڑے خطرات کیا ہیں؟ہنر
مثال کے طور پر ڈیپ سیک کی ٹیم: چینی میڈیا کے مطابق اس میں 140 افراد شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر کے بارے میں بہت فخر سے یہ دعویٰ کا جا رہا ہے کہ وہ ’مقامی ٹیلنٹ‘ ہیں اور چین کی اعلی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
پروفیسر مارینا زینگ کہتی ہیں کہ مغربی مبصرین ’انٹرپرینیورز کی ایک ایسی نئی نسل سے محروم رہے جو فوری منافع پر بنیادی تحقیق اور طویل مدتی تکنیکی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
چین کی بہترین یونیورسٹیاں تیزی سے ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے شعبے کی ماہر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر مینیجرز کی تعداد 35 برس سے بھی کم ہے۔
پروفیسر زینگ مزید کہتی ہیں کہ ’چین کے تیز رفتار تکنیکی عروج کے دوران بڑی ہونے والی یہ نسل جدت اور خود انحصاری کی تحریک سے بہت متاثر ہوئی۔‘
Reuters
ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وینفینگ اس کی ایک مثال ہیں۔ 40 سالہ لیانگ نے ژجیانگ یونیورسٹی سے مصنوعی ذہانت میں تعلیم حاصل کی۔
ٹیکنالوجی کے آؤٹ لیٹ ’36 کے آر‘ میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق جو لوگ لیانگ وینفینگ کو جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ لیانگ ایک باس سے زیادہ مصنوعی ذہانت کے شوقین ہیں۔
چینی میڈیا لیانگ کو ’تکنیکی اصول پسند‘ شخصیت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ وہ ڈیپ سیک کو اوپن سورس پلیٹ فارم کے طور پر رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ درحقیقت ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس اوپن سورس کلچر نے ہی نئے سٹارٹ اپس کو وسائل جمع کرنے اور تیزی سے آگے بڑھنے کی اجازت دی۔
چین کی بڑی ٹیک فرمز کے برعکس ڈیپ سیک نے تحقیق کو ترجیح دی، ماہرین اور کمپنی میں کام کرنے والے لوگوں کے مطابق اس سے انھیں مزید تجربات کرنے کی آزادی ملی۔
’36 کے آر‘ کو ایک انٹرویو کے دوران لیانگ وینفینگ نے کہا کہ اس صنعت کے 50 ٹاپ افراد شاید چین میں نہیں لیکن ہم یہاں ایسے لوگ تیار کر سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین اس بارے میں حیران ہیں کہ ڈیپ سیک اور کتنا آگے جا سکتی ہے۔ پروفیسر زینگ کہتی ہیں کہ ’نئی امریکی پابندیوں سے امریکی صارف کے ڈیٹا تک رسائی کو محدود کر سکتی ہیں، جس سے ممکنہ طور پر اس بات پر اثر پڑے گا کہ ڈیپ سیک جیسے چینی ماڈلز عالمی سطح پر کیسے جا سکتے ہیں۔‘
کچھ ماہرین کے مطابق امریکہ ابھی بھی بڑے فائدے میں ہے۔ جیسے کہ گریگوری سی ایلن کے الفاظ میں کہ ’ان کے کمپیوٹنگ وسائل بہت زیادہ ہیں‘ اور ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ڈیپ سیک اپنے ماڈل کو بہتر بنانے کے لیے ایڈوانس چپس کا استعمال کیسے جاری رکھے گی۔
لیکن ابھی ڈیپ سیک اس لمحے سے لطف اندوز ہو رہی ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ چین میں زیادہ تر لوگوں کو ویک اینڈ تک اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا۔
Getty Imagesنئے قمری سال سے کچھ دن قبل ڈیپ سیک کی ریلیز نے چینی انٹرنیٹ کو خوشی سے بھر دیانئے ’اے آئی ہیرو‘
اس اچانک شہرت نے لیانگ وینفینگ کو چین کے سوشل میڈیا پر مشہور کر دیا اور لوگ انھیں ہانگ کانگ کی سرحد سے متصل جنوبی گوانگڈونگ صوبے کے ’تین اے آئی ہیروز‘ میں سے ایک کے طور پر سراہ رہے ہیں۔
باقی دو افراد میں زیلین یانگ اور کیمنگ ہی شامل ہیں۔ زیلین چینہوا یونیورسٹی سے منسلک ماہر ہیں جبکہ کیمنگ امریکہ میں ایم آئی ٹی میں پڑھاتے ہیں۔
نئے قمری سال سے کچھ دن قبل ڈیپ سیک کی ریلیز نے چینی انٹرنیٹ کو خوشی سے بھر دیا۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی انڈسٹری کے لیے بہت اچھی خبر ہے جو مزید محصولات اور ٹک ٹاک کے امریکہ میں کاروبار کی ممکنہ فروخت کے لیے تیار ہے۔
ویبو پر ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ نئے سال کا بہترین تحفہ ہے۔ ہمارا وطن مضبوط اور خوشحال ہو۔‘
کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ میں اے آئی ماہر وی سن ڈیپ سیک کی ریلیز پر چین میں ردعمل کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’حیرت اور جوش کا امتزاج، خاص طور پر اوپن سورس کمیونٹی میں۔‘
چین کے جنوبی شہر شینزین میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی فیونا زو کا کہنا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا ’اچانک ڈیپ سیک سے متعلق پوسٹس سے بھر گیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ اسے ’میڈ ان چائنا کی عظمت‘ کہہ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے سیلیکون ویلی کو چونکا دیا تو میں نے یہ چیک کرنے کے لیے کہ یہ ایپ کتنی اچھی ہے، اسے ڈاؤن لوڈ کیا۔‘
فیونا نے اپنی پیدائش کی تاریخ اور وقت کی مدد سے ڈیپ سیک سے اپنا زائچہ بنوانے کی کوشش کی تاہم انھیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ڈیپ سیک کے نتائج درست نہیں تھے۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اب اپنے کام کے لیے دوبارہ اس سے مدد لیں گی کیونکہ یہ ایپ شاید اس طرح کے کاموں کے لیے زیادہ مفید ہو گی۔
ڈیپ سیک: امریکہ میں کھلبلی مچانے والی چینی اے آئی ایپ جسے ’سائبر حملوں‘ کا سامنا ہےاوپن اے آئی کی سربراہ اور سیلیکون ویلی کی سب سے بااثر خواتین میں شامل میرا مورتی کون ہیں؟دنیا کے امیر ترین شخص، مقبول یوٹیوبر یا کوئی اور، امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟ٹِک ٹاک سے دُنیا کو تین بڑے خطرات کیا ہیں؟ڈائٹ کوک بٹن، فائلوں کا ڈھیر اور ایئر فورس ون: ٹرمپ 2.0 کا ’بے خوف رویہ اور تاریخ میں امر ہونے کی خواہش‘’تعاون کرو ورنہ‘: ٹرمپ کا پہلا بین الاقوامی تنازع، دھمکی کا ہتھیار اور عالمی رہنماؤں کے لیے پیغام