طیارہ ہیلی کاپٹر تصادم: واشنگٹن کی پیچیدہ فضائی حدود پر پائلٹس کا اظہار تشویش

اردو نیوز  |  Jan 31, 2025

امریکہ میں ماہرین دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی فضائی حدود کے پیچیدہ ہونے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ کبھی بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بدھ کی شب وہ خدشہ حقیقت میں بدل گیا جب امریکی ایئر لائنز کا طیارہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں 67 افراد کی جانیں چلی گئیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے ارگرد کی فضائی حدود تجربہ کار پائلٹس کے لیے بھی چیلنج بن سکتی ہیں جنہیں فضا میں موجود سینکڑوں دیگر کمرشل طیاروں اور فوجی طیاروں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

یونائیٹڈ ایئرلائنز کے ریٹائرڈ کپتان اور ایرو کنسلٹنگ ایکسپرٹس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر راس ایمر کا کہنا ہے کہ ’یہ سانحہ ہونا ہی تھا۔ ہم میں سے جو لوگ طویل عرصے سے اس شعبے سے وابستہ ہیں، ہم مسلسل چیخ چیخ کر یہ کہتے آئے ہیں کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے فضائی نظام پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔‘

ہیلی کاپٹر اور طیارے میں تصادم کی وجہ کے بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا گیا، تاہم حکام نے بتایا ہے کہ پروازوں کے لیے صورتحال سازگار تھی اور کینساس سے مسافر طیارہ واشنگٹن میں داخل ہو رہا تھا۔

تفتیش کاروں نے حادثے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ جن میں یہ سوال بھی شامل ہیں کہ آرمی کا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اپنی بلندی سے 100 فٹ کیوں اوپر تھا اور آیا ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور میں عملہ مکمل تعداد میں موجود تھا یا نہیں۔

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی رپورٹ جو ایسوسی ایٹڈ پریس نے حاصل کی، میں کہا گیا ہے کہ عملے کی تعداد دن کے وقت اور ٹریفک حجم کے حساب سے معمول کے مطابق نہیں تھی۔

ماہرین اور کچھ قانون سازوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ کانگریس کے گزشتہ سال پابندیوں کو کم کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں فضائی حدود مزید گنجان ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے کے تحت کچھ کو استثنیٰ دینے کے علاوہ واشنگٹن کے ہوائی اڈے کو 1250 میل (2012 کلومیٹر) کے اندر نان سٹاپ پروازوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔

قانون سازوں نے ایئرلائنز کو سیئٹل اور سان فرانسسکو کے لیے نئی پروازیں شروع کرنے کی اجازت دی، اس منصوبے پر سخت بحث ہوئی تھی۔ بعض قانون ساز اس بات پر خوش تھے، کہ ان کے ریاستوں میں پروازیں شروع ہوں گی جبکہ کچھ ایسے قانون ساز بھی تھے جو ممکنہ سانحے کے بارے میں خبردار کر رہے تھے۔

مسافر طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی قریب قریب پرواز

ریگن نیشنل ایئرپورٹ سے کمرشل طیاروں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ایک ہی فضائی راستے پر پرواز کرنی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے دونوں بعض اوقات بہت قریب آ جاتے ہیں۔

امریکی ایئرفورس کے سابق نیویگیٹر اور ایوی ایشن کے وکیل جِم براؤچل کا کہنا ہے کہ ’ایئرپورٹ پر اترنے والے طیاروں اور اسی راستے پر اڑنے والے ہیلی کاپٹروں کے درمیان صرف چند سو فُٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس دوران غلطی کا بہت کم موقع بچتا ہے۔‘

ریٹائرڈ امریکی نیشنل گارڈ کے پائلٹ ڈیرل فیلر نے کہا کہ اس واقعے نے انہیں ایک ایسے حادثے کے یاد دلا دی جو ان کے ساتھ دس سال قبل ہوا تھا۔

اس وقت وہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر اڑاتے ہوئے پوٹومک دریا کے کنارے ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب جا رہے تھے اور اس دوران ان کا ہیلی کاپٹر ایک اور طیارے کے قریب آ گیا تھا۔

طیارے کو آتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا

ڈیرل فیلر کو شہر کی روشنیوں اور قریب کے پُل پر چلتی گاڑیوں کے درمیان آنے والی جیٹ لائنر کو دیکھنے میں مشکل پیش آئی تھی۔ انہوں نے فوراً اپنے ہیلی کاپٹر کی بلندی کم کی، اور پانی سے صرف 50 فٹ اوپر پرواز کی تاکہ یہ یقینی بنائیں کہ جیٹ لائنر ان کے اوپر سے گزر جائے۔

فیلر جو 2014 میں فوج سے ریٹائرڈ ہوئے تھے، نے کہا کہ ’میں شہر کی روشنیوں کی وجہ سے اس کو نہیں دیکھ سکا، یہ واقعہ مجھے ڈرا دیتا ہے۔‘

فیلر کا تجربہ بدھ کے واقعے کی طرح تھا جو آرمی ہیلی کاپٹر کے عملے کے ساتھ پیش آیا، جب وہ پوٹومک دریا پر پرواز کر رہے تھے۔

بدھ کو کم از کم 30 سیکنڈ پہلے ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر نے آرمی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے پوچھا کہ کیا انہیں طیارہ نظر آرہا ہے؟ جس کے جواب میں فوجی پائلٹ نے کہا کہ جی ہاں، نظر آ رہا ہے۔ پھر کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو کہا کہ وہ طیارے کے پیچھے جائے۔ اس آخری بات چیت کے چند سیکنڈ بعد دونوں طیارے آپس میں ٹکرا گئے، اور فضا میں آگ کے گولے کی طرح پھٹ گئے۔

پہلا ہولناک حادثہ نہیں

بدھ کے روز پیش آنے والا حادثہ 1949 کے ایک ہولناک تصادم کی یاد دلاتا ہے، جب واشنگٹن کی فضائی حدود اتنی گنجان نہیں تھی۔ اس وقت ایک مسافر طیارہ ریگن ایئرپورٹ کے قریب لینڈنگ کے لیے آ رہا تھا جب ایک فوجی طیارے سے ٹکرا گیا۔ دونوں طیارے پوٹومک دریا میں گر کر تباہ ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں 55 افراد جان سے گئے۔ اُس وقت یہ امریکہ کا سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا۔

لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ پائلٹ جیل شونلی نے بتایا کہ وہ واشنگٹن ڈی سی کے سفر پر جا چکے ہیں اور انہیں ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا، کہ پائلٹ کے لیے یہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔

روبرٹ کلیفورڈف جو ایوی ایشن کے وکیل ہیں، نے کہا کہ امریکی حکومت کو ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب کمرشل ایئرلائنز کے استعمال کردہ فضائی حدود میں فوجی ہیلی کاپٹروں کی پروازوں کو عارضی طور پر روک دینا چاہیے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More