ریگن ایئرپورٹ حادثہ: امریکہ کا وہ مصروف رن وے جہاں طیارے کئی مرتبہ تصادم سے ’بال بال بچے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 02, 2025

Getty Imagesفضائی تصادم میں 67 افراد کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن کے ایئرپورٹ پر حفاظتی اقدامات پر ازِ سرنو توجہ دینے کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں

دو دہائیوں قبل پائلٹ مائیک سلیک جہاز کے کاکپٹ میں بیٹھے تھے اور واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ پر اُترنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک انھیں رن وے پر کچھ نظر آیا۔

سلیک ایک لائسنس یافتہ پائلٹ ہیں اور آج کل بطور ایوی ایشن اٹارنی کام کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے جہاز کے کاکپٹ میں دائیں جانب پائلٹ کی نشست پر بیٹھے تھے اور ان کا جہاز رن وے 33 پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا۔

یہ وہی رن وے ہے جہاں رواں ہفتے ہیلی کاپٹر کے ساتھ ٹکرا کر تباہ ہونے والا مسافر طیارہ اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔

دو دہائیوں قبل اس رن وے پر سلیک نے اپنا طیارہ اُتارنے کی کوشش کی تو انھیں اچانک وہاں ایک سیسنا طیارہ اُڑان بھرتا ہوا نظر آیا۔ جہاز میں موجود پائلٹس نے سیسنا طیارے کی موجودگی کو بھانپتے ہوئے فوراً اپنے جہاز کو لینڈ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس ہوا میں ایئرپورٹ کے گرد چکر کاٹنے لگا۔

سلیک اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: 'یہ ایسے لمحات تھے کہ جب آپ سوچتے ہیں کہ ہم بال، بال بچ گئے۔'

امریکہ میں ایسے واقعات بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں اور بدھ کو جو حادثہ ہوا ویسے واقعات تو اور بھی کم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فضائی تصادم میں 67 افراد کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن کے ایئرپورٹ پر حفاظتی اقدامات پر ازِ سرنو توجہ دینے کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔

ریٹائرڈ ایئر ٹریفک کنٹرولر رون بازمین امریکن ایئرلائنز کو پیش آنے والے حادثے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی حفاظتی پروٹوکول فراموش کیے گئے ہوں گے۔'

بدھ کو مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان ہونے والے تصادم کی وجہ جاننے کے لیے تاحال تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن میڈیا اور وائٹ ہاؤس تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر اور ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔

بدھ کو ہونے والے واقعہ سنہ 1980 کی دہائی کے بعد امریکہ میں پیش آنے والا سب سے خوفناک فضائی حادثہ تھا۔

Getty Imagesبدھ کو مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان ہونے والے تصادم کی وجہ جاننے کے لیے تاحال تحقیقات کی جا رہی ہیں

ایم آئی ٹی سے منسلک ایروناٹکس سے منسلک پروفیسر آر جان ہانسمین کہتے ہیں کہ ایسے اقدمات کے پیشِ نظر حفاظتی اقدامات لینا اہم ہے لیکن یہ تسلیم کرنے بھی ضروری ہے کہ امریکہ کا ایوی ایشن سسٹم دنیا کا محفوظ ترین ہوائی نظام ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ: 'یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا' لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ سنہ 2009 کے بعد سے امریکہ میں کسی بھی کمرشل جہاز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ہے۔

'ایسا نہیں کہ سسٹم خراب ہو چکا ہے۔'

پروفیسر ہانمسمین کے اس بیان کے بعد جمعے کی شام کو فلاڈیلفیا میں ایک چھوٹا میڈیکل طیارہ بھی کچھ عمارتوں سے ٹکرا گیا تھا۔

جیٹ ریسکیو ایئر ایمبولینس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طیارے میں چار عملے کے اراکین، ایک بیمار بچہ اور ایک اٹینڈنٹ موجود تھے۔

دنیا کی ’سب سے کنٹرولڈ فضائی حدود‘ میں مسافر طیارے کی فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکر کا معمہواشنگٹن حادثے میں ہلاک ہونے والی اسریٰ حسین: ’گھر پر کھانا تیار تھا‘واشنگٹن میں طیارے اور ہیلی کاپٹر میں تصادم: ’مسافر طیارہ سب کچھ ٹھیک کر رہا تھا۔۔۔ ہیلی کاپٹر غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھا‘فضا میں طیارے آپس میں تصادم سے کیسے بچتے ہیں اور یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟

نیشنل ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی اس حادثے کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'فلاڈیلفیا میں جہاز کے گِرنے پر افسوس ہوا، مزید معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں۔'

ریگن نیشنل ایئرپورٹ پر کیا ہوا تھا؟

بدھ کو کنساس کے شہر ویچیتا سے اُڑان بھرنے والا امریکن ایئرلائنز کا طیارہ لینڈنگ سے قبل واشنگٹن ڈی سی میں ایچ 60 بلیک ہاک فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا تھا۔

انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی آڈیو ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے ہیلی کاپٹر کو جہاز کی فضا میں موجودگی کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے تصدیق بھی کی تھی کہ انھیں مسافر جہاز کی موجودگی کے بارے میں علم ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد فضا میں تصادم ہو گیا۔

ریگن ایئرپورٹ پر روزانہ 400 جبکہ سالانہ 22 ہزار مسافر جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرنے والے پائلٹس کا کہنا ہے کہ امریکی دارالحکومت کے کنارے واقع ایئرپورٹ پر آنا جانا ایک پریشان کر دینے والا تجربہ ہوتا ہے۔

پائلٹ مو خمجی کہتے ہیں کہ 'ایسا بہت بار ہوتا ہے کہ ہم جہازوں کو لینڈ کرتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اوہ! یہ تو بہت ہی قریب سے گزر رہے ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ اگر پائلٹ احتیاط نہ برتے تو اکثر تیز ہوائیں جہاز کو ممنوع ایئر سپیش میں لے جاتی ہیں۔

اس ایئر سپیس میں صدر کے لیے مختص ایئر فورس ون، کمرشل فلائٹس اور فوجی ہیلی کاپٹر سب ہی موجود ہوتے ہیں۔ جب رات ہو جاتی ہے تو پوٹومیک دریا میں روشنیوں کا عکس نظر آتا ہے اور ایسے میں کسی پائلٹ کے لیے کسی دوسرے جہاز کو دیکھنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔

سلیک کہتے ہیں کہ ریگن ایئرپورٹ دیگر ہوائی اڈوں کے مقابلے میں چھوٹا ہے۔

Getty Imagesبدھ کو کنساس کے شہر ویچیتا سے اُڑان بھرنے والا امریکن ایئرلائنز کا طیارہ لینڈنگ سے قبل واشنگٹن ڈی سی میں ایچ 60 بلیک ہاک فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا تھا

وہ کہتے ہیں کہ 'یہاں اُترنا اور یہاں سے اڑنا بھرنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ آپ کے اطراف، نیچے، اوپر اور ہر طرف ایئر ٹریفک ہوتا ہے۔'

کیا ریگن ایئرپورٹ پر مزید حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے؟

دو دہائیوں قبل سلیک کا جہاز حادثے کا شکار ہوتے ہوتے رہ گیا تھا لیکن یہ کوئی ایسا تنہا واقعہ نہیں تھا۔

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) بدھ کو ہونے والے والے حادثے سے تقریباً 24 گھنٹے قبل بھی ایک فوجی ہیلی کاپٹر بھی ایک طیارے کے بہت قریب سے گزرا تھا۔

سنہ 2023 میں ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئیں تھیں جس کے بعد ایف اے اے نے وارننگ بھی جاری کی تھی کہ ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔

فضا میں ہونے والے ان واقعات کی تحقیقات کے بعد کہا گیا تھا کہ 'ناکافی فنڈز'، ملازمین کی کمی کے سبب حفاظتی معیار کم ہو رہا ہے۔

سنہ 2023 میں کی گئی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ایئر ٹریفک کنٹرول پر کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی کم ہے۔

گذشتہ برس ایف اے اے نے 18 ہزار کنٹرولرز کو ملازمتوں پر رکھنا تھا اور بشمکل اپنے ہدف سے صرف 11 زیادہ ملازمین بھرتی کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

پروفیسر ہانسمین کہتے ہیں کہ ملازمین کی کمی کا معاملہ اہم ہے کیونکہ ان کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہو چکی ہے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی تھی۔

ایئر ٹریفک کنٹرول پر خدمات سرانجام دینے سے پہلے ملازمین کو خاص تربیت سے گزرنا پڑتا ہے جس میں تقریباً تین برس لگ جاتے ہیں۔

تاہم پروفیسر ہانسمین کہتے ہیں کہ بدھ کو ہونے والے واقعے کو ملازمین کی کمی سے جوڑنا درست نہیں۔

'یہاں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ یہ واقعہ کسی کنٹرولر کی نااہلی کی سبب ہوا ہے۔'

کیا سیاسی معاملات کا ہوائی امور پر اثر پڑتا ہے؟

ایف اے اے کا بجٹ کانگریس کی جانب سے منظور کیا جاتا ہے، اس کی سربراہ کی تقرری بھی صدر کرتا ہے اور اس کی توثیق سینٹ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اسی سبب اس ادارے پرکیپٹل ہِل پر ہونے والی سیاست کا اثر بھی پڑتا ہے۔

سنہ 2018 میں امریکی حکومت 35 روزہ شٹ ڈاؤن پر تھی جس کے سبب ایئر کنٹرولز کی بھرتیاں بھی تعطل کا شکار ہوگئی تھیں۔

گذشتہ برس امریکی اراکینِ سینیٹ نے ایف اے اے کے ذریعے ریگن ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے مزید سپاٹس بنوانے کی کوشش بھی کی تھی۔

سینیٹر ٹِم کین نے دیگر سینیٹرز کو بتایا تھا کہ: 'امریکہ کے مصروف ترین ایئرپورٹ پر ہمیں دیگر فلائٹس کو جام نہیں کرنا چاہیے۔'

Getty Imagesایئر ٹریفک کنٹرول پر خدمات سرانجام دینے سے پہلے ملازمین کو خاص تربیت سے گزرنا پڑتا ہے جس میں تقریباً تین برس لگ جاتے ہیں

پھر یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ادارے کے سربراہاں جلدی تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ تین برسوں میں ایف اے اے کے تین سربراہان تبدیل ہو چکے ہیں۔

جب بدھ کو امریکن ایئرلائنز کا مسافر طیارہ حادثے کا شکار ہوا اس وقت بھی ایف اے اے کے ایڈمنسٹریٹر کی نشست خالی تھی۔

سابق صدر جو بائیڈن نے پانچ برسوں کے لیے مائیکل وٹیکر کو ایف اے اے کا ایڈمسٹریٹر مقرر کیا تھا لیکن وہ گذشتہ دسمبر میں ملازمت کے ایک برس بعد ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کے مشیر نے مائیکل وٹیکر کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ایف اے اے نے ان کی سپیس ایکس کمپنی پر چھ لاکھ ڈالر کا جُرمانے عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

فی الحال صدر ٹرمپ نے ایف اے اے میں عبوری ایڈمسٹریٹر تعینات کر دیا ہے لیکن مستقل تقرری کے لیے انھیں کانگریس کی منظوری حاصل کرنی ہوگی۔

پروفیسر ہانسمین کہتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹر کی بار بار تبدیلی سے ادارے میں تبدیلی اور بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بُرا اثر پڑتا ہے۔

تاہم جمعے کو فلاڈیلفیا میں میڈیکل طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بعد نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کے سربراہ ٹوڈ امین کا کہنا تھا کہ آنے وقت میں فضائی نظام میں تبدیلیا متوقع ہیں۔

'ہمارا کام حقائق تلاش کرنا ہے۔ سب سے اہم کام یہ یقینی بنانا ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ ہم اب برسوں تک ان تبدیلوں کا مطالبہ کرتے رہیں گے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔'

کریش سے چار منٹ پہلے ریکارڈنگ کیوں بند ہوئی؟: جنوبی کوریا طیارہ حادثے سے متعلق وہ سوال جن کے جواب تاحال نہیں مل سکے’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟’پر میں پھنسا پرندہ۔۔۔‘ جنوبی کوریا کی تاریخ کا سب سے جان لیوا طیارہ حادثہ کیسے پیش آیاجنرل بپن راوت: انڈیا کے سابق آرمی چیف کے ہیلی کاپٹر حادثے کی وجہ ’انسانی غلطی‘ کیوں قرار دی گئیایم ایچ 370: پراسرار حادثے کا شکار ہونے والے اُس طیارے کی تلاش جس کا سراغ 10 سال سے نہیں مل سکاIC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More