ہندوستان کے وائسرائے کرزن کی بیٹیاں: والد سے دوری، شادی شدہ مردوں سے تعلقات اور سماجی خدمت کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Feb 02, 2025

اپنی بیوی سِمی کو یقین دلانے کی کوشش میں کہ ان کا ایک کے بعد دوسرا معاشقہ صرف وقتی دلچسپیاں تھیں، ٹام نے ایک شام تمام راز کھولنے کا فیصلہ کیا۔

سِمی نے روتے ہوئے کہا ’لیکن یہ سب میری بہترین دوست ہیں۔‘ وہ ان انکشافات سے ٹوٹ گئی تھیں۔

وہ اتنی پریشان تھیں کہ انھوں نے کھانے کی دعوت میں جانے کے بجائے گھر پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دعوت میں ٹام اپنے دوست باب بوتھبی سے ملے اور ان سے کہا کہ وہ جا کر سِمی کو تسلی دیں۔

’اب تم نے اس کے ساتھ کیا کردیا، ٹام؟‘ بوتھبی نے کہا جو سِمی سے محبت کرتے تھے اور وینس میں ڈیانا کے ساتھ ٹام کا معاشقہ دیکھ چکے تھے۔

ٹام نے جواب دیا کہ ’میں نے اسے ان تمام خواتین کے بارے میں بتا دیا جن کے ساتھ میرا جسمانی تعلق رہا ہے۔‘

’تمام، ٹام؟‘ بوتھبی نے حیرت سے پوچھا۔

ٹام نے جواب دیا: 'ہاں، تمام۔ سوائے، ظاہر ہے، اس کی بہن اور سوتیلی ماں کے۔‘

یہ اشارہ تھا ان کے آئرین اور گریس کے ساتھ ابتدائی معاشقوں کی طرف۔

سِمی کا اصل نام سنتھیا بلانش تھا۔ خود بھی پارلیمان کی رکن رہیں۔ دوستوں، رشتے داروں میں ٹام کہلائے جانے والے سیاست دان اوسولڈ موزلے سے بیاہی تھیں جنھوں نے مرکزی دھارے کی سیاست سے مایوس ہو کر فسطائیت کا رخ کیا۔ برٹش یونین آف فاشسٹس کی بنیاد رکھی اور 1940 میں ان کے جبراً تحلیل کیے جانے تک اس کی قیادت کی۔

آئرین، میری آئرین تھیں۔ انھیں ’نینا‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا۔ سنہ 1896 میں پیدا ہونے والی آئرین سِمی سے دو سال بڑی تھیں لیکن شادی نہیں کی تھی۔

ایک کردار جو اوپر بیان کیے گئے واقعے میں نہیں ہے، وہ ہے ان کی تیسری بہن الیگزینڈرا جو ’بابا‘ کہلاتی تھیں۔ موزلے کے ان سے بھی تعلقات تھے، سِمی کی زندگی میں بھی اور تب بھی جب وہ تین بچوں کو چھوڑ کر فوت ہوئیں۔

لیکن موزلے نے شادی کی تو اپنی محبوبہ ڈیانا گنیس (اصل نام مِٹفرڈ) سے، نازی جرمنی میں وزیر برائے عوامی روشن خیالی اور پروپیگنڈا جوزف گوئبلز کے برلن والے گھر میں خفیہ طور پر۔

ایڈولف ہٹلر اس شادی میں مہمان خصوصی تھے۔

ان ہی ڈیانا کے ساتھ سِمی کی زندگی میں تعلقات کا موزلے کے دوست بوتھبی کو علم تھا۔

Getty Imagesالیگزینڈرا اپنے سوتیلے بھائی الفریڈ ڈگن کے ہمراہ جو مورخ اور ناولسٹ تھےوائسرائے کرزن جنھوں نے بیٹیوں سے دوری اختیار کی

جین ڈیلی، ڈیانا کی سوانح عمری میں ان کی موزلے کے لیے محبت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتی ہیں کہ ’موزلے بھی ان کے اتنے ہی دیوانے تھے، حالانکہ ان کا اپنی بیوی کو چھوڑنے یا معاشرتی حلقے کی بوریت زدہ نوجوان خواتین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس مشہور عیاش اور (اطالوی اداکار) روڈولف ویلنٹینو جیسے دِکھتے شخص کا نعرہ تھا کہ: ’لیبر کو ووٹ دو، ٹوری کے ساتھ سوؤ۔‘

سیباسٹین مرفی-بیٹس نے برطانوی اخبار ’دی میل‘ میں لکھا ہے کہ ڈیانا مِٹفرڈ کے پہلے کبھی شائع نہ ہونے والے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ موزلے نے نہ صرف اپنی پہلی بیوی کے ساتھ بے وفائی کی بلکہ ان کی دونوں بہنوں اور سوتیلی ماں کے ساتھ بھی تعلقات رکھے۔ یہ خطوط سکاٹ لینڈ کی نیشنل لائبریری میں محفوظ ہیں۔

ان تینوں کے والد تھے جارج نتھانیل کرزن جو چھ جنوری 1899 سے 18 نومبر 1905 تک برطانوی ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل رہے۔ اور والدہ تھیں میری لائٹر جو امریکہ کی سب سے امیر اور خوبصورت نوجوان خواتین میں سے ایک تھیں۔

ان کی غیر معمولی محبت اور فرمانبرداری ویسی ہی تھی جیسی کرزن چاہتے تھے۔

این ڈی کورسی نے اپنی کتاب ’دی وائسرائز ڈاٹرز‘ میں لکھا ہے کہ کرزن محسوس کرتے تھے کہ عورتیں شوہر کے کیریئر کی دلکش ساتھی ہونی چاہییں، ان کی نجی زندگی کے لمحات میں سکون اور آرام فراہم کرنے والی، نہ کہ اپنے طور پر ایک آزاد شخصیت۔

’اگرچہ کرزن اپنا فارغ وقت مردوں کے بجائے خواتین کے ساتھ گزارنا پسند کرتے تھے لیکن ان کا رویہ خواتین کے بارے میں ایسا تھا جیسا کہ ان کی محبوبہ ایلینور گلِن نے لکھا: ’وہ انھیں اسی جذبے سے پسند کرتے تھے جیسے دوسرے مرد عمدہ گھوڑوں، بہترین شراب یا خوبصورت چیزوں کو۔ لیکن انھیں برابر کی روحیں نہیں سمجھتے تھے جنھیں سنجیدگی سے لیا جائے یا جن کے ساتھ وہ ویسے ہی عزت اور وقار سے پیش آئیں جیسے وہ ایک مرد کے ساتھ پیش آتے۔‘

یہ وہی گلِن ہیں جنھوں نے خواتین قارئین کے لیے بولڈ اور بعض اوقات جذباتی رومانوی افسانوں کا آغاز کیا۔

اپنے ناول ’دی مین اینڈ دی مومنٹ‘ میں انھوں نے انگریزی لفظ ’اِٹ‘ کے ایک نئے استعمال کی بنیاد رکھی، جس کا مطلب ایک ایسی خصوصیت ہے جو ’دوسروں کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘

گلِن نے لکھا کہ ’اِٹ‘ ذہن کی ایک خوبی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی کشش بھی۔

گلِن کے ساتھ کرزن کے تعلقات کا آغاز میری لائیٹر کی وفات کے چند ماہ بعد شروع ہوگیا تھا۔

محقق جو کیس بورن لکھتی ہیں: ’اپنی بیٹیوں کے لیے لارڈ کرزن کے بے شمار محبت بھرے خطوط اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کس قدر محبت کرنے والے والد تھے۔ لیکن اپنی بیوی کی موت کے بعد انھوں نے اپنی بیٹیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، ان کی جائز وراثتیں چھین لیں اور عملی طور پر انھیں عاق کر دیا۔‘

’اس رویے نے ان کی زندگی کو یقیناً مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہوگا۔‘

مِرانڈا کارٹر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ آئرین، سمِی اور بابا کے والد نے ان کا بچپن آیاؤں اور غفلت کے حوالے کر دیا۔ جب وہ جوانی کو پہنچیں، کرزن سخت گیر اور غیر معقول ثابت ہوئے، خاص طور پر ان کی والدہ کی چھوڑی ہوئی دولت کے معاملے میں، جسے وہ اپنے شوق، گھروں کی تزئین و آرائش پر خرچ کرنا چاہتے تھے۔

اپنے ایک مضمون میں سوفیا موزلے لکھتی ہیں کہ 1915 کی خزاں میں کرزن نے سمرسیٹ میں مونٹاکیوٹ ہاؤس کرائے پر لے لیا تاکہ گلِن وہاں رہ سکیں۔

وہاں حرارت کا کوئی انتظام نہیں تھا اور تنہا جگہ تھی لیکن کرزن کی محبت میں انھوں نے اس کی تزئین و آرائش کا بیڑا اٹھایا۔ اس گھر میں کرزن کی طرف سے ہندوستان سے لائی گئی تین شیر کی کھالیں بھی رکھی گئیں۔

Getty Imagesجارج نتھانیل کرزنجو چھ جنوری 1899 سے 18 نومبر 1905 تک برطانوی ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل رہے اپنی حسین و جمیل اہلیہ میری لائٹرکے ہمراہ ’ایسے شوہر کی خواہش جو اپنی بیوی کو چھوڑنے سے انکار کرے‘

لیکن کرزن امریکی دولت مند بیوہ گریس ڈگن کے ساتھ اپنی نئی کہانی شروع کر چکے تھے۔ اخبار سے پتا چلا تو غصے میں گلِن نے ان کے 500 محبت بھرے خطوط اپنے بیڈروم کے آتش دان میں جلا دیے۔

گریس کے پہلی شادی سے تین بچے تھے، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ کرزن کو وارث کی شدید خواہش تھی۔ لیکن ان سے گریس کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کئی زچگی کے آپریشن اور کئی اسقاط حمل کے بعد ان کی علیحدگی ہوگئی لیکن طلاق نہیں۔

سنہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں کرزن کے گریس کو لکھے گئے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ وفادار رہے۔ تاہم موزلے نے نجی طور پر اعتراف کیا کہ ان کے لیڈی کرزن کے ساتھ تعلقات تھے اور ان کی سوتیلی بیٹیوں، آئرین اور الیگزینڈرا کے ساتھ بھی۔

کارٹر نے ان بہنوں کی ڈائریوں اور خطوط پر مبنی ڈی کورسی کی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ آئرین نے لیسٹر شائر کے میلٹن موبرے میں اپنا گھر آباد کیا جو 1920 کی دہائی تک ایک مالدار شکاری طبقے کا مرکز بن گیا، جن کے دیگر پسندیدہ مشاغل میں ’میلٹن کا عام کھیل، رات دیر سے مختلف بستروں میں جانا‘ شامل تھا۔

’وہ ایک پرجوش شکاری، برج کھلاڑی، پارٹیوں میں شرکت کرنے والی، شراب نوش اور محبت کے معاملات میں مشغول رہنے والی خاتون تھیں۔ ان کے عشاق میں مشہور پیانسٹ آرتھر روبنسٹائن بھی شامل تھے جن کے ساتھ وہ ان کی شادی کے دن سوئیں۔ شادی کی کئی پیشکشوں کے باوجود، جن میں نیویل ہینڈرسن (جو بعد میں ہٹلر کے برلن میں برطانوی سفیر بنے) شامل تھے، وہ غیر شادی شدہ رہیں۔

آئرین کو، درست طور پر، یہ فکر تھی کہ انھیں اور ان کی دولت کو کوئی اپنے سیاسی کیریئر کی سیڑھی بنا سکتا ہے۔

’ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ شادی کریں جو اپنی بیوی کو چھوڑنے سے انکار کرے۔‘

زیب النسا: مغل شہزادی جن کی ’خفیہ محبت‘ کے چرچے رہے مگر انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کیجب انڈونیشیا میں برطانوی فوج کے ساتھ لڑنے والے 600 انڈین فوجیوں نے بغاوت کیعلامہ اقبال اور ایما کا تعلق، عشق یا سادگی کی انتہا؟’مجھ سے پہلی سی محبت۔۔۔‘: فیض نے یہ نظم کس کی یاد میں لکھی تھی’ایلفا گرل‘

کارٹر کے مطابق کرزن کی منجھلی بیٹی سِمی 21 سال کی عمر میں اوسولڈ (ٹام) موزلے سے شادی کے بعد ان سے وفادار رہیں، باوجود اس کے کہ وہ شدید بے وفا تھے اور سیاسی موقع پرست کہ پہلے کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمان بنے اورپھر لیبر پارٹی کے اور پھر برٹش یونین آف فاشسٹس کے بانی۔

سنہ 1929 کے عام انتخابات میں سِمی نے حیران کن طور پر ایک لیبر امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی۔ ڈی کورسی اس کامیابی کو ان کی ’ہر لحاظ سے اچھی طبیعت‘ کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔

ان کی کتاب سے پتا چلتا ہے کہ سِمی کا لیبر دور محض موزلے کے لیے ان کی اندھی وفاداری تھا۔ 1932 تک وہ فاشزم کی حمایت میں بھی اسی جوش و خروش سے نظر آئیں۔ ڈی کورسی انھیں ’نرم مزاج‘ کہتی ہیں۔ کارٹر کے مطابق ایک اور مصنف نے انھیں موزلے پر ’انحصار کرنے والی‘ قرار دیا ہے۔

وہ 1933 میں 34 سال کی عمر میں ان کی بے وفائیوں سے متاثر ہو کر ایک آپریشن کے بعد وفات پا گئیں۔

کرزن کی سب سے چھوٹی بیٹی، بابا، کارٹر کے مطابق ’ایلفا گرل‘ تھیں۔ یہ ترکیب پراعتماد اور رہنما طبیعت کو ظاہر کرتی ہے۔

1922 کے سیزن کی ’سب سے خوبصورت ڈیبیو ٹانٹ‘ کہلائی جانے والی اور پُراعتماد بابا جنھیں ان کے دوست ’بگڑی ہوئی، ناقابل برداشت خود اعتمادی کی حامل اور حکم دینے والی‘ کہتے تھے، 21 سال کی عمر میں ایڈورڈ ڈڈلی (فروٹی) میٹکاف سے شادی کر لیتی ہیں، جو عمر میں ان سے کافی بڑے تھے۔

فروٹی خوش اخلاق تھے اور زیادہ ذہین نہیں تھے، اور وہ ان کے فیشن اور پارٹیوں کے شوق میں شریک تھے۔ وہ ویلز کے شہزادے، مستقبل کے ایڈورڈ ہشتم، کے بہترین دوست بھی تھے، جس سے انھیں تخت سے دستبرداری کے بحران اور ونڈسرز کی بعد کی تاریخ کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جب وہ فروٹی سے بیزار ہو گئیں، تو انھوں نے کئی معاشقے شروع کی، جن میں پہلا موزلے کے ساتھ تھا۔

یہ بات بابا نے اس بنیاد پر جائز قرار دی کہ وہ انھیں ان کی معشوقہ، خوفناک ڈیانا سے ’بچانے‘ کی کوشش کر رہی تھیں تاہم موزلے نے ڈیانا سے شادی کر لی اور دو سال تک یہ راز بابا سے چھپائے رکھا۔

دونوں بہنیں موزلے کی دنیا میں دھیرے دھیرے جڑ گئیں، بابا اس کی معشوقہ کے طور پر اور آئرین اکثر ان کے تمام بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اور ان کی سیاست کی پُرجوش حمایتی بن گئیں۔

آئرین نے ایک ’فاشسٹ بال‘ کا اہتمام کیا اور 1936 میں نیورمبرگ میں نازی پارٹی کانگریس میں ’عظیم شخص کی تقریر‘ سننے گئیں۔

موزلے کے ساتھ تعلق کی بنا پر،بابا نے ’بابا بلیک شرٹ‘ کا خطاب حاصل کیا اور کچھ عرصے کے لیے موزلے اور اپنے دوسرے عاشق ڈینو گراندی (جو مسولینی کے لندن میں سفیر تھے) کے درمیان نیم شعوری رابطہ کار کے طور پر مشکوک کردار ادا کیا۔

جب جنگ کا خطرہ بڑھا تو دونوں بہنوں نے اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بابا کے جنگی دور کے مداحوں میں، ایوریل ہیری مین اور والٹر مانکٹن اورسخت اخلاقی مزاج رکھنے والے برطانوی وزیر خارجہ لارڈ ہیلی فیکس بھی شامل تھے۔

آئرین، اپنی بڑھتی عمر، شراب نوشی کے مسائل اور اپنےکنوارے پن سے مایوس ہو کر اپنی چھوٹی بہن کے لیے شدید حسد اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگیں جبکہ بابا آئرین کو ’پریشان کن اور قدرے مضحکہ خیز‘ سمجھتی تھیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران میں آئرین نے فلاحی کاموں میں حصہ لیا۔ آئرین کو 1958 میں یوتھ کلبز کے ساتھ ان کے کام کے اعتراف میں پہلی لائف پیئرز میں سے ایک بنایا گیا۔

الیگزینڈرا نے ’سیو دی چلڈرن فنڈ‘ کے ساتھ 40 سے زائد سال کام کیا، اور 1974 میں اس تنظیم کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔

1925 میں اپنی موت تک کرزن نے اپنی تینوں بیٹیوں سے دوری اختیار کیے رکھی۔ آئرین کو تو ان کے بستر مرگ پر آنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

علامہ اقبال اور ایما کا تعلق، عشق یا سادگی کی انتہا؟’مجھ سے پہلی سی محبت۔۔۔‘: فیض نے یہ نظم کس کی یاد میں لکھی تھیزیب النسا: مغل شہزادی جن کی ’خفیہ محبت‘ کے چرچے رہے مگر انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کیجب لندن کی سڑکوں پر شراب کا جان لیوا سیلاب آیاسلطنت فارس کی 2500 سالہ تاریخ اور ایران کی آخری ملکہ کی سالگرہ کے جشن کے دوران یحییٰ خان کی ’بے چینی‘جب شاہ ایران نے 1971 میں ’کراچی کے دفاع‘ کا وعدہ پورا نہ کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More