’دیو‘ کی جنگ جس میں شکست سے مسلمانوں کی ’سونے سے قیمتی‘ مسالوں کی تجارت یورپ کے ہاتھ چلی گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 04, 2025

Getty Imagesسمندر پر اجارہ داری نے پرتگالیوں کو ہندوستان میں سبقت دی

وہ تین فروری 1509 کی صبح تھی۔

ہندوستان کے ساحلی شہر ’دیو‘ کی گلیوں میں چندن، لونگ اور کالی مرچ کی خوشبو بسی تھی اور اُس صبح گجراتی، عرب اور مملوک تاجروں کو ایسے بہت سے مسالوں کےسودے طے کر نا تھے۔ لیکن گجرات کی مظفرشاہیسلطنتکی یہ مصروف بندرگاہ آج مسالوں کیتجارت نہیں بلکہ خون ریزی کا مرکز بننے والی تھی۔

یہ مسالے یورپ میں سونے سے زیادہ قیمتی سمجھے جاتے تھے۔

جارج کراؤلی اپنی کتاب ’سپائس‘ میں بتاتے ہیں کہ دواؤں اور کھانے پینے کی اشیا میں استعمال ہونے والے مسالے جب مختلف ہاتھوں سے گزر کر یورپ پہنچتے، تو اُن کی قیمت میں اکثر اوقات دس گنا اضافہ ہو چکا ہوتا تھا۔ یوں اُن کی قیمت سونے کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی۔

اپنی گراں قیمت کے باوجود یہ مسالے بڑی مقدار میں استعمال کیے جاتے تھے۔

تاریخ دان مارک کارٹرائٹ کے مطابق اگرچہ اِن میں سے زیادہ تر مسالے صرف امرا کے دستر خوانوںتک محدود تھے لیکن غریب طبقہ بھی جب موقع ملتا کالی مرچتو استعمال کر ہی لیتا تھا۔

اپنے ایک مضمون میں کارٹرائٹ لکھتے ہیں کہ ’شاہی ضیافتوں اور شادیوں میں مسالوں کی بڑی مقدار میںضرورت پڑتی تھی۔ 15ویں صدی میں انگلینڈ کے ڈیوک آف بکنگھم کے ہاں زیادہ تر کالی مرچ اور ادرک سمیت روزانہ تقریباً دو پاؤنڈ (900 گرام) مسالے استعمال ہوتے تھے۔‘

کراؤلینے لکھا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مسالوں کی تجارت مسلم تاجروں کے ہاتھ میں تھی اور اُن کی ادائیگی کے عوض انھیں سونا اور چاندی ملتا تھا۔

یہ بات یورپ کو بہت کھٹکتی تھی مگر کارٹرائٹ کے مطابق اس کا حل ایشیا تک سمندری راستے کی تلاش میں تھا۔

Getty Imagesبادشاہ مینوئل اول کے دور میں پرتگالیوں نے دیو میں اپنی حکومت قائم کی جو 1961 تک قائم رہی

کارٹرائٹ لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1492 میں اطالوی سیاح کرسٹوفر کولمبس نے مغرب کی طرف بحرِ اوقیانوس عبور کر کے ایشیا تک پہنچنے کی کوشش کی، مگر وہ ایک نئی سرزمین، امریکہ، تلاش کر بیٹھے۔ دوسری جانب پرتگالیوں کا ماننا تھا کہ وہ افریقی براعظم کو عبور کر کے ایشیا تک پہنچ سکتے ہیں۔

’سنہ 1488 میں بارٹولومیو ڈیاز پہلی بار کیپ آف گڈ ہوپ (موجودہ جنوبی افریقہ) کے گرد چکر لگا کر افریقہ کے جنوبی کنارے کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے دس سال بعد واسکو ڈی گاما نے بھی یہی راستہ اپنایا، مگر وہ مشرقی افریقہ کے ساحل اور پھر بحرِ ہند کو عبور کر کے جنوبی ہندوستان کے مالابار ساحل پر واقع کالی کٹ (موجودہ کوزی کوڈ) پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

’یوں، یورپی اقوام نے بالآخر مشرق کی دولت تک براہِ راست سمندری راستہ دریافت کر لیا تھا۔‘

سمندری راستہ دریافت کرنے کے بعد پرتگالیوں نے بحر ہند میں اپنی طاقت قائم کرنے کی کوشش شروع کی۔

سنہ 1505 میں پرتگالی بادشاہ مینوئل اول نے فرانسیسکو ڈی المیڈا کو ہندوستان میں پرتگالی وائسرائے مقرر کیا، جس کا مقصد بحر ہند میں پرتگالی بالادستی کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم، عرب اور گجراتی مسلمان تاجروں کو یہ مداخلت قبول نہ تھی کیونکہ اس سے ان کی صدیوں پرانی تجارتی اجارہ داری خطرے میں پڑ گئی تھی۔

مصنف جولیا دژاک لکھتی ہیں کہ پرتگال کی بحری توسیع کے خلاف شمال مغربی ہندوستان میں ایک طاقتور اتحاد تشکیل پایا۔ اس اتحاد کو گجرات کی مظفر شاہی سلطنت، طاقتور مملوک سلطنت، کالی کٹ (موجودہ کوزی کوڈ) کے راجا سامودری (زمورین)، عثمانی سلطنت کے افسران اور یہاں تک کہتجارتی سفر کے آخری حصے کے نگہبانوینس نے بھی مدد فراہم کی تھی۔

پرتگالیوں اور مقامی طاقتوں کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک میں المیڈا کے بیٹے، لورینسو ڈی المیڈا کی 1508 میں چَول بندرگاہ (موجودہ ممبئی کے قریب)پر ہلاکت ہوئی۔ تاہمسب سے بڑی جنگ 1509 میں دیو میں لڑی گئی۔

Getty Imagesپرتگالیوں نے دیو میں قلعے تعمیر کیے

جنگ میں سلطنتِ گجرات کے حکمران محمود بیگڑا کی نمائندگی ملک ایاز کر رہے تھے۔

مؤرخ کے ایس سمتھ نے اپنی کتاب ’پرتگیز اینڈ دی سلطنت آف گجرات‘ میں تاریخی کتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایاز ایک جارجیائی غلام تھے۔ ایک بار سلطان نے اپنے سر پر بیٹ کرنے والے بازکو تیر سے مار گرانے پرانھیں آزاد کر کے اپنے امرا میں شامل کر لیا تھا اور چمپانیر قلعے کی فتح میں اہم کردار ادا کرنے پر دیو سمیت بہت سے علاقوں کا گورنربنا دیا تھا۔

کالی کٹ کے طاقتور ہندو حکمران مالابار کے ساحل پر زمورین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی ذاتی محافظ فوج اور زیادہ تر اشرافیہ نائر اور نسطوری مسیحیوں پر مشتمل تھی، لیکن تمام تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔

یہ مسلمان تاجر ’موپلا‘ کہلاتے تھے جو عرب تاجروں کی نسل سے تھے اور طویل عرصے سے مالابار کے ساحل پر آباد تھے۔ انھوں نے جلد ہی یہ بھانپ لیا کہ پرتگالیوں کے آنے سے بحیرہ احمر یا خلیج فارس کے راستے یورپ کے ساتھ ہندوستانی تجارت پر اُن کی منافع بخش اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔

اور پھر دیو کے ساحل پر پرتگالیوں کو گجراتی اتحاد کا سامنا ہوا۔

وژاک لکھتی ہیں کہ ’اتحاد کی بحری طاقت 12 بڑی جنگی کشتیوں اور 80 چھوٹی تیز رفتار کشتیوں پر مشتمل تھی۔ پرتگالیوںنے دیو کے جنوب مشرق میں، کوچین بندرگاہ پر ایک بڑی بحری طاقت لنگر انداز کی ہوئی تھی۔ ان کے 18 مضبوط جہازوں پ رتقریباً 1700 تجربہ کار ملاح تھے جو اعلی معیار کے ہتھیاروں اور بکتر سے لیس تھے۔

’یوں پرتگالی نہ صرف تعداد بلکہ معیار میں بھی برتر تھے۔ ان کے لوگ بحری جنگ میں تربیت یافتہ اور تجربہ کار تھے۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’اتحاد نے فیصلہ کیا کہ وہ دیو کے قلعے کی دیواروں کے پیچھے پناہ لیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ شہر کی توپوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ پرتگال کے بیڑے کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن پرتگالی توپیں زیادہ دور مار کرنے والی تھیں، جن کے جواب میںاتحادبے بس تھا۔‘

جب انڈین فوج نے گوا کو پرتگالیوں سے آزاد کرایاجب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دیمحمود غزنوی کے سومناتھ مندر پر حملے میں کتنے ہندو مارے گئے اور وہاں سے کتنی دولت لوٹی گئی؟عبدالمطلب کی دعا، ابابیل کا حملہ اور ’عذاب کا مقام‘: کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا قصہGetty Imagesپرتگالیوں کا تعمیر کردہ سینٹ تھامس چرچ جو اب میوزیم میں تبدیل کر دیا گيا ہےپرتگالیوں نے شاندار فتح حاصل کی

راجر کراؤلی اپنی کتاب ’کنکررز‘ میں لکھتے ہیں کہ المیڈا نے ان مسلمان تاجروں سے بھاری تاوان طلب کیا جنھوں نے دیو میں بحری بیڑے کی مالی معاونت کی تھی، وہ انھیں مل گیا۔

کراؤلی کے مطابق اپنے بیٹے لورینسو کی موت کے بعد وائسرائے نے ہر طرح کی معقولیت کھو دی تھی۔

’قیدیوں میں سے بعض کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں زندہ جلا دیا گیا، کچھ کو توپوں کے دہانوں سے باندھ کر اڑا دیا گیا، جبکہ کچھ کو زنجیروں میں جکڑ کر پکڑے گئے جہازوں میں ڈال دیا گیا، جو توپوں کی گولہ باری سے غرق کر دیے گئے۔ کچھ کو ایک دوسرے کو قتل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ شہر کے دروازے کٹے پھٹے انسانی اعضا کی مالاؤں سے سجائے گئے کیونکہ انھی دروازوں سے وہلوگ گزرے تھے جنہوں نے ان کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔‘

اب کارٹرائٹ کے مطابق پرتگالیوں نے طاقت کے ذریعے تجارتی نیٹ ورک پر قبضہ اور مسالوں کی تجارت پر مکمل اجارہ داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا، نہ صرف ایشیا سے یورپ تک بلکہ ایشیا کے اندر بھی۔

’مسالے ان کی پیداوار کرنے والوں سے انتہائی کم قیمت پر خریدے جاتے، مثلاً کپڑے، خشک غذائیں اور تانبا جیسی کم قیمت اشیا کے بدلے، اور پھر انھیں یورپ میں مہنگے داموں بیچا جاتا۔ ایشیا میں بھی ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک مسالے لے جا کر انھیں قیمتی اشیا جیسے سونے، چاندی، جواہرات، موتی اور نفیس کپڑوں کے عوض بیچا جانے لگا۔‘

’اسی حکمتِ عملی کے تحت، قلعے تعمیر کیے گئے۔ مخالف جہازوں کو تباہ کیا گیا، تعاون نہ کرنے والے شہروں پر بمباری کی گئی، تاجروں کی اشیا ضبط کر لی گئیں اور انھیں من مانی شرائط پر تجارت کرنے پر مجبور کیا گیا۔‘

بہرحال سنہ 1510 میں پرتگالیوں نے گوا پر قبضہ کر لیا، جو اگلے 20 سالوں میں پرتگالی ہندوستان کا دارالحکومت بن گیا۔ سنہ1511 میں ملائشیا کے ملاکا اور سنہ 1515 میں خلیج فارس کے دہانے پر ہرمز پر قبضہ کر لیا گیا۔ سنہ 1518 میں سری لنکا کے علاقےکولمبو میں ایک قلعہ قائم کیا گیا۔

Getty Imagesپرتگالیوں کی توپ دور تک مار کرتی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے انڈین اتحاد کو شکست دی

اجارہ داری کو نافذ کرنے کے لیے انتظامی اقدامات بھی کیے گئے۔

کوئی بھی نجی تاجر، چاہے یورپی ہو یا غیر یورپی، اگر مسالے جات لے جاتے ہوئے پکڑا جاتا تواسے گرفتار کر لیا جاتا، اس کی اشیا اور جہاز ضبط کر لیے جاتے۔

مسلم تاجروں کے ساتھ سختی برتی گئی اور اکثر انھیں سزائے موت دے دی جاتی۔

جب یہ پالیسی ہر جگہ لاگو کرنا ناممکن محسوس ہوئی، تو کچھ مقامی تاجروں کو محدود مقدار میں تجارت کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن عام طور پر صرف ایک مسالے یعنی کالی مرچ کی۔

یورپی جہازوں کے عملے کو تنخواہ کے متبادل کے طور پر مسالے رکھنے کی اجازت دی گئی۔ ایک چھوٹے بورے سے بھی کوئی ملاح اپنے وطن میں ایک گھر خرید سکتا تھا۔

مسالوں کی تجارت کو کنٹرول کرنے کا ایک اور طریقہ تجارتی جہازوں کے لیے شاہی لائسنس کا اجرا تھا۔

ان اقدامات کے ذریعے پورے مشرق میں پرتگالی آمدنی کا 60 فیصد محصولات سے حاصل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مسالوں کی فروخت سے زبردست منافع حاصل ہوا۔

سنہ 1535میں گجرات کے سلطان بہادر شاہ نے مغل بادشاہ ہمایوں کے خلاف پرتگالیوں کے ساتھ ایک دفاعی اتحاد کیا اور پرتگالیوں کو دیو قلعہ بنانے اور جزیرے پر ایک چھاؤنی قائم کرنے کی اجازت دی۔ لیکن یہ اتحاد جلد ہی ٹوٹ گیا اور 1537 سے 1546 کے درمیان سلطان کی پرتگالیوں کو دیو سے نکالنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور انھی کے ہاتھوں شکست کھا کر مارے گئے ۔

طاقت، دھوکے، بحری جنگوں، تجارتی اجارہ داری اور محصولات کے ذریعے، پرتگالیوں نے مشرق میں اپنی موجودگی کو 16ویں صدی کے اختتام تک انتہائی مستحکم کر لیا تھا۔ لیکن پھر دیگر یورپی کمپنیوں کے ہاتھوں ان کی موجودگی کمزورپڑتی گئی۔

دیو 1961 تک پرتگالیوں کے قبضے میں رہا۔

ولیم ویئر اپنی کتاب ’ففٹی بیٹلز دیٹ چینجڈ دا ورلڈ‘ میں اسے ’تاریخ کی چھٹی سب سے اہم جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔

ماہرِ تاریخ داں مائیکل ایڈس کے مطابق یہ جنگ بحر ہند میں یورپی بحری برتری کو صدیوں تک قائم رکھنے کا سبب بنی۔

یہ اسی ساحلی علاقے پر 16ویں صدی کی ابتدا میں ہونے والی جنگ تھی کہ جس نے اگلی کئی صدیوں تک عالمی معیشت کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا۔

عبدالمطلب کی دعا، ابابیل کا حملہ اور ’عذاب کا مقام‘: کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا قصہسقوط غرناطہ: جب مسلمان حکمران نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں’کپڑوں کے ساتھ شرم اتار پھینکو‘: زمانہ قدیم میں سیکس کے بارے میں خواتین کی سوچ کیا تھیاسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟محمود غزنوی کے سومناتھ مندر پر حملے میں کتنے ہندو مارے گئے اور وہاں سے کتنی دولت لوٹی گئی؟جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More