چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر جوابی ٹیکس عائد کر دیا: ٹرمپ کی جانب سے پیدا کی گئی غیریقینی صورتحال کا چین کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 04, 2025

Getty Images

امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف یا ٹیکس عائد کیے جانے کے ردعمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 10 سے 15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جوابی اقدام کے تحت چین نے امریکہ سے کوئلے اور مائع قدرتی گیس کی درآمد پر 15 فیصد ٹیکس جبکہ خام تیل، زرعی مشینری، پک اپ ٹرک اور بڑے انجن والی گاڑیوں پر 10 فیصد تک ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جبکہ دوسری جانب میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ الگ الگ معاہدوں کے بعد صدر ٹرمپ نے ان ممالک پر ٹیرف کا نفاذ عارضی طور پر روک کر دیا ہے تاہم چینی مصنوعات پر لگایا گیا 10 فیصد ٹیرف یا ٹیکس منگل (آج) سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔

اس سے قبل سنہ 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران جب ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر محصولات عاٰئد کی تھیں تو چین کا کہنا تھا کہ وہ ’تجارتی جنگ سے نہیں ڈرتا۔‘

تاہم اب کی دفعہ چین نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔ اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہو سکتا ہے۔

مگر اس سب کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ اضافی ٹیرف کی وجہ سے چین کی مشکلات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ یہ 10 فیصد ٹیکس اُس ٹیرف کے علاوہ ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں اربوں ڈالرز کی چینی مصنوعات پر عائد کیا تھا۔

تاہم یہ بھی واضح ہے کہ اب چین کی معیشت امریکی مارکیٹ پر اتنا انحصار نہیں کرتی جتنا پہلے کرتی تھی۔ ماضی قریب میں چین نے افریقہ، جنوبی امریکہ کے ممالک اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے اپنے تجارتی روابط مضبوط کیے ہیں۔ چین اب دنیا بھر کے 120 ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

ریسرچ سینٹر ’کارنیگی چائنہ‘ سے منسلک تجزیہ کار چونگ جا ایان کے مطابق امریکہ کی جانب سے عائد کردہ 10 فیصد اضافی ٹیکس سے شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنا فائدہ حاصل نہ ہو جتنا وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’چین شاید سوچ رہا ہے کہ وہ اس نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ اس ہی لیے میرے خیال میں بیجنگ ایسے برتاؤ کر رہا ہے جیسے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید یہ اتنی بڑی بات ہے بھی نہیں، چین کے پاس ٹرمپ انتظامیہ سے جھگڑا مول لینے کی کوئی وجہ نہیں، حتیٰ کہ بیجنگ کو اس سے واقعتاً کوئی فائدہ ہو۔‘

امریکی پسپائی اور شی کی جیت

صدر شی جن پنگ کے پاس شاید پریشان نہ ہونے اور غصہ نہ کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہے: انھیں یہاں ایک موقع نظر آ رہا ہے۔۔

ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے سے بہت عرصہ پہلے سے اپنے ہی اتحادیوں میں تقسیم کے بیج بو رہے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ روز یورپی یونین پر بھی اضافی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے بعد دیگر امریکی اتحادی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آگے اُن کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟

اس کے برخلاف، چین چاہے گا کہ وہ ایک پُرسکون، مستحکم اور پُرکشش تجارتی پارٹنر کے طور پر ان ممالک کے سامنے آئے۔

سٹمسن سنٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سَن کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی سے تمام ممالک کو مشکلات اور خطرات لاحق ہوں گے۔

’اگر چین اور امریکہ کے سٹرٹیجک مقابلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی قیادت اور ساکھ کو عالمی سطح پر پہنچنے والے نقصان کا چین فائدہ ہو گا۔ چین کے دو طرفہ تعلقات پر شاید اس کا کوئی مثبت اثر نہ ہو لیکن چین اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرے گا۔۔۔‘

دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے سربراہ کے طور پر شی جن پنگ نے اس بات کو کبھی بھی چھپانے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی ہے کہ وہ چین کو ایک متبادل عالمی نظام کی قیادت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

کورونا کی وبا کے اختتام کے بعد سے انھوں نے متواتر عالمی دارالحکومتوں کے دورے کیے ہیں اور ورلڈ بینک جیسے بڑے اداروں اور پیرس ماحولیاتی معاہدے جیسے بڑے بین الاقوامی معاہدوں کی حمایت کی ہے۔

چین کا سرکاری میڈیا اس کو چین کی جانب سے اسے دنیا بھر کے ممالک کو اپنانے اور سفارتی روابط گہرا کرنے کی کوششوں کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

اس سے قبل جب 2020 میں ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کو دی جانے والی امریکی امداد کو روکا تھا تو چین نے عالمی ادارہ صحت کے لیے اضافی فنڈز کا اعلان کیا تھا۔ ایسی امید کی جا رہی ہے کہ اب امریکہ کے عالمی ادارہ صحت سے انخلا کے بعد چین شاید ایک بار پھر امریکہ کی جانب سے پیدا کیے جانے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا۔

اپنی معاشی مشکلات کے باوجود چین شاید امریکی امداد روکے جانے سے متاثر عالمی تنظیموں کی مدد کے لیے بھی آگے بڑھے۔

نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟’عمران خان سے متعلق ٹرمپ کے تاثرات نہیں جانتا‘:پاکستان میں اپنے بیانات سے ہلچل مچانے والے امریکی جینٹری بیچ کون ہیں؟’تعاون کرو ورنہ‘: ٹرمپ کا پہلا بین الاقوامی تنازع، دھمکی کا ہتھیار اور عالمی رہنماؤں کے لیے پیغام

اپنی دوسری دورِ صدارت کے پہلے ہی روز ڈونلد ٹرمپ نے امریکہ کی جانب سے مہیا کی جانے والی تمام وفاقی امداد روک دی تھیں۔ اس کے نتیجے میں یو ایس ایڈ کی مدد سے چلنے والے سینکڑوں غیر ملکی امدادی پروگرام بند ہو گئے ہیں۔

جان ڈیلری جدید چین کے ایک مؤرخ اور جنوبی کوریا کی یونسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی عالمی رہنما کے طور پر واشنگٹن کی پوزیشن کو مزید کمزور بنا سکتی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کے بڑے تجارتی پارٹنرز پر ٹیرف کا اطلاق اور امداد کی بندش سے بین الاقوامی برادری کو پیغام جا رہا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی شراکت داری اور تعاون میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

اُن کا کہنا ہے ایک طرف جہاں امریکہ عالمی منظرنامے سے خود کو علیحدہ کر رہا ہے وہیں صدر شی کا ’سب کی جیت‘ کا پیغام ایک نئے معنی اختیار کر رہا ہے۔

ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال شاید چین کو بالآخرعالمی منظر نامے پر امریکہ کی جگہ لینے کا وہ موقع فراہم کر ہی دے جس کی تلاش میں وہ پچھلے 50 برسوں سے ہے۔

نئے عالمی اتحاد

چونگ جا ایان اس بارے میں زیادہ پراعتماد نہیں کہ اس سے چین کو واقعی کوئی بڑا فائدہ ہو گا۔

’بہت سے امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے پاس خاص طور پر پیسیفک میں موجود اتحادیوں کے پاس بیجنگ کے ساتھ اگر تعاون کرنے کی وجہ ہے تو ان کے پاس چین سے محتاط رہنے کی بھی وجوہات ہیں۔ اسی لیے ہم جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن اور آسٹریلیا کو ایک دوسرے کے قریب جاتے دیکھ رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ ان کے چین کو لے کر مشترکہ خدشات ہیں۔‘

آسٹریلوی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری دورِ صدارت کے ممکنہ اثرات کے باعث آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان ممکنہ سہ فریقی تعلقات میں تیزی آ رہی ہے۔

ان تینوں ممالک اور فلپائن کو بحیرہ جنوبی چین میں چین کی جارحیت پر کافی تشویش ہے۔ یہ ممالک تائیوان پر ممکنہ چینی حملے کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ بیجنگ تائیوان کو ایک الگ صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جو اس کے مطابق بالآخر چین کا حصہ بنے گا اور چین نے اس کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔

تائیوان ایک طویل عرصے سے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک رہا ہے۔ چین تائی پے کے لیے واشنگٹن کی کسی بھی قسم کی حمایت کی مذمت کرتا آیا ہے۔

ایسے میں جب صدر ٹرمپ کی جانب سے بارہا کینیڈا کا الحاق کرنے یا گرین لینڈ پر قبضے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، واشنگٹن کے لیے تائیوان پر چینی جارحیت کا جواب دینا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔

خطے کے بیشر ممالک چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات میں توازن پیدا کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ اپنے فوجی اتحاد کو استعمال کرتے آئے ہیں۔

تاہم اب چین کی جانب سے لاحق خدشات اور امریکہ کی طرف سے غیر یقینی کی صورتحال کے پیشِ نظر یہ ایک نیا اتحاد قائم کر سکتے ہین جس میں دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو۔

’چین عالمی برادری کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرے گا‘

گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے اس وقت چین پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جب چین کی عوام نئے سال کا تہوار منا رہے تھے۔

زیادہ تر مزدور سال کا سب سے بڑا تہوار منانے اپنے آبائی گھروں کو گئے ہوئے تھے اور بیجنگ کی خالی سڑکوں پر شوخ لال رنگ کے قمقمے جگمگا رہے ہیں۔

میکسیکو اور کینیڈا کے مقابلے میں اب تک چین کا ردِعمل کافی ٹھنڈا ہے۔ چین کی وزارتِ تجارت نے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس بارے میں عالمی ادارہ تجارت سے رجوع کریں گے۔

لیکن واشنگٹن کو اس سے کوئی خاص خطرہ نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورے صدارت کے دوران سنہ 2019 میں عالمی ادارہ تجارت میں ان ججوں کی تعیناتی بلاک کر دی تھی جو تنازعات کے بارے میں اپیلیں سنتے ہیں۔ تب سے ڈبلیو ٹی او کا تنازعات حل کرنے کا نظام تعطل کا شکار ہے۔

اب چین میں چھٹیاں میں ختم ہو رہی ہیں اور سرکاری حکام دفاتر کو لوٹنا شروع ہو رہے ہیں تو بیجنگ کو فیصلے کرنے پڑیں گے۔

حالیہ دنوں میں حکام کو ایسے حوصلہ افزا اشارے ملے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ شاید چین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھنا چاہتی ہے خاص طور پر گذشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر شی کے درمیان ہونے والے ٹیلیفونک رابطے کے بعد جسے صدر ٹرمپ نے ’ایک زبردست فون کال‘ قرار دیا تھا۔

لیکن کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ صورتحال کافی دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں ہی چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑے خارجہ اور اقتصادی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

فوڈان یونیورسٹی میں سینٹر فار امریکن سٹڈیز کے پروفیسر اور ڈائریکٹر وو زنبو کہتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع، جذباتی اور لاپرواہ شخصیت لامحالہ دو طرفہ تعلقات میں دراڑ کا باعث بنے گی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم میں ایسے بہت سے افراد ہیں جو چین کے بارے میں منفی رجحان رکھتے ہیں۔ ’یہ ناگزیر ہے کہ اگلے چار سالوں کے دوران دو طرفہ تعلقات میں شدید مشکلات پیش نہ آئیں۔‘

چین یقینی طور پر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور تجارتی جنگ سے اپنی کمزور ہوتی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں فکر مند ہے۔

لیکن اس کے باوجود چین کی کوشش ہو گی کہ وہ موجودہ سیاسی غیر یقینی کو بین الاقوامی برادری کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔

اربوں ڈالر کی تجارت اور ’پُرامن‘ ایٹمی پروگرام: ٹرمپ اور محمد بن سلمان ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں؟سٹیفن ملر: امریکہ میں ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں؟چائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟’نایاب معدنیات کا خزانہ‘ اور ٹرمپ کی دھمکی: امریکہ کے نئے صدر گرین لینڈ کو پانے کے لیے عسکری طاقت استعمال کر سکتے ہیں؟ڈیپ سیک اور چین کے ’ہیرو‘: ایک غیر معروف کمپنی نے پابندیوں کے باوجود اے آئی پر امریکی بالادستی کو کیسے ختم کیاٹرمپ 2.0 کے عالمی معیشت پر ممکنہ اثرات: گاڑیوں سمیت چینی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More