امریکی صدر کی فلسطینیوں کی عرب ممالک میں ’آبادکاری‘ کی تجویز: ’یہ بندہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار کو سمجھتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 05, 2025

Getty Imagesبین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی آبادی کو زبردستی کسی اور جگہ پر منتقل کرنا ممنوع ہے

جب 10 روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو منہدم شدہ مقام قرار دیا اور کہا کہ اسے ’صاف کرنے‘ کی ضرورت ہے تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔

لیکن اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے اور ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں سامنے آنے والے بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ امریکی صدر غزہ کے حوالے سے اپنی تجویز پر انتہائی سنجیدہ ہیں۔

صدر ٹرمپ کے بیان کو حالیہ تاریخ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع پر امریکی مؤقف میں آنے والی بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے، جو بین الاقوامی قانون سے تضاد کھاتی نظر آتی ہے۔

امریکی صدر کے اعلان کو عام لوگ کس طرح سے سمجھتے ہیں اور اس پر کیسے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں اس کا اثر غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر بھی پڑے گا۔

صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے حکام لوگوں کی غزہ سے باہر ’دوبارہ آبادکاری‘ کی تجویز کو انسانی ہمدردی کے اقدام کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں کیونکہ غزہ ایک ’منہدم شدہ‘ مقام ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی آبادی کو زبردستی کسی اور جگہ پر منتقل کرنا ممنوع ہے اور فلسطینی اور عرب ممالک اس تجویز کو فلسطینیوں کی دربدری اور نسل کشی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھیں گے۔

یہی سبب ہے کہ عرب رہنماؤں نے امریکی صدر کی تجویز کو دو ٹوک انداز میں مسترد کر دیا ہے۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مصر اور اردن، غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں جگہ دے دیں۔

سنیچر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے کہا تھا کہ ایسا اقدام ’پورے خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈال دے گا، تنازع کے بڑھنے کا سبب بنے گا اور لوگوں کے امن سے رہنے کے امکانات کو بھی نقصان پہنچائے گا۔‘

ایک طویل عرصے سے اسرائیل میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں کی خواہش رہی ہے کہ فلسطینیوں کو مقبوضہ مقامات سے نکالا جائے اور وہاں یہودی آبادیاں بنائی جائیں۔

Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو منہدم شدہ مقام قرار دیا

اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد ایسے تمام گروہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ حماس کے خلاف غیر معینہ مدت کے لیے جنگ لڑی جائے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی آبادیاں بنائی جائیں۔ ان گروہوں کے سربراہان وزیر اعظم نتن یاہو کی اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔

انھوں نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی بھی مخالفت کی تھی۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں ’دوبارہ آباد‘ کیا جائے اور اس کے امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال کر اسے دوبارہ تعمیر کرے گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ کی ازسرِنو تعمیر کے بعد فلسطینیوں کو وہاں واپس آنے کی اجازت ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے لوگ‘ وہاں رہیں گے، وہ ایک ’بین الاقوامی اور ناقابلِ یقین جگہ‘ بن جائے گی اور وہاں ’فلسطینیوں کو بھی‘ رہنے کی اجازت ہوگی۔

وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیںاسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘غزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘

ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وِٹکوف امریکی صدر کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ بندہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار کو سمجھتا ہے۔‘

جب دورانِ پریس کانفرنس صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے اقدام میں امریکی فوج بھی حصہ لے گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وہ سب کریں گے جس کی ضرورت ہوگی۔‘

سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام اور 1967 کی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اس تنازع پر امریکی مؤقف میں تبدیلی آئی ہے۔ سنہ 1967 کی جنگ کے بعد ہی اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین بشمول غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔

اسرائیل کے قیام کے وقت ہونے والی جنگ کے وقت بھی ان مقامات پر فلسطینی ہی آباد تھے۔ وہ لوگ اور ان کی آنے والی نسل ہی غزہ کی آبادی کی موجودہ اکثریت ہیں۔

اگر صدر ٹرمپ کی تجویز پر عملدرآمد ہوتا ہے تو غزہ سے تقریباً 22 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو دیگر عرب ممالک میں بھیجا جائے گا۔

Getty Imagesاگر صدر ٹرمپ کی تجویز پر عملدرآمد ہوتا ہے تو غزہ سے تقریباً 22 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو دیگر عرب ممالک میں بھیجا جائے گا

اس تجویز پر عمل کرنے سے حقیقی طور پر دو ریاستی حل کے معاملے کا خاتمہ ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی لوگ اور عرب دنیا امریکی صدر کی تجویز کو مسترد کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے سیاسی حامی اور قوم پرست اسرائیلی گروہ صدر ٹرمپ کے بیانات کی حمایت کریں گے۔

تاہم فلسطینیوں کے لیے یہ تجویز ایسی ہو گی جیسے تمام افراد کو مجموعی طور پر سزا دینا۔

انڈیا کے غیرقانونی تارکین وطن کی امریکہ بدری: ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا ہے‘اسرائیلی وزیراعظم کا دورۂ امریکہ: غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے سے پہلے ٹرمپ اور نتن یاہو کی ملاقات اہم کیوں ہے؟چین کا امریکی مصنوعات کی درآمد پر جوابی ٹیکس: ٹرمپ کی جانب سے پیدا کی گئی غیریقینی صورتحال کا چین کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟’خدا کے پسندیدہ لوگ‘: صدیوں پرانا امریکی نظریہ جس نے اسے عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More