سیٹھ ناؤمل ہوت چند جن کی مدد سے انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا

بی بی سی اردو  |  Feb 23, 2025

Getty Images

182 سال پہلے لگ بھگ یہی دن تھے جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سندھ کی حاکم بنی اور سیٹھ ناؤمل ہوت چند کو تمغوں کے علاوہ 5000 ایکڑ اول درجے کی جاگیر انعام میں دی۔

محقق ڈیوڈ چیسمَن کے مطابق انعام کا سبب یہ تھا کہ ناؤمل نے 1837 سے 1843 تک کے عرصے میں انگریزوں کو ان کے سندھ پر قبضے سے پہلے، اس کے دوران میں اور بعد میں کھانا، سواری اور دیگر ضروریات اور معلومات فراہم کیں اور شکست کھائے بلوچ جاگیرداروں کی انگریزوں سے صلح میں مدد کی۔

سولھویں صدی کے آخر سے 18ویں صدی کی ابتدا تک زیریں سندھپر مغلوں اور بعد میں زیادہ تر سندھ اور کَچھ کے کچھ حصوں پر کلہوڑا خاندان کی حکومت تھی۔

ان کے بعد تالپور خاندان کی چار شاخوں نے نچلے سندھ پر حیدر آباد سے، بالائی سندھ پر خیرپور سے، مشرقی شہر میرپور خاص کے گردونواح میں اور ٹنڈو محمد خان سے حکومت کی۔

سندھ کی سیاسی صورتِ حال

ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان اپنی کتاب ’ٹالپرز اِن سندھ (1843-1783) ‘میں بتاتے ہیں کہ کس طرح میر فتح علی خان کی منصوبہ بندی سے 1783 میں کلہوڑا حکومت کا خاتمہ اور تالپور حکومت کا قیام ہوا۔

اسے پہلی چَویاری یا چار دوستوں، میر فتح اور ان کے بھائی میر غلام، میر کرم اور میر مراد، کی حکومت بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد علی شیخ لکھتے ہیں کہ تالپوروں نے سندھ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جن کے دارالحکومت حیدرآباد، خیرپور اور میرپور تھے اور ہر حصہ خاندان کی ایک شاخ کے زیر انتظام تھا۔

ممتاز حسین پٹھان کے مطابق ’1789 کے بعد ان بھائیوں نے اپنی حکومت کو موجودہ سندھ، کَچھ، بلوچستان، سبزل کوٹ اور بھنگبرا تک وسعت دی جو ایک لاکھ مربع کلومیٹر اراضی اور تقریباً 40 لاکھ آبادی پر مشتمل علاقہ تھا۔

بعد میں انھوں نے اب کراچی کے نام سے جانے جانے والے علاقے کو بھی فتح کرلیا۔

وہ نسلی طور پر بلوچ تھے اور اپنی حکمرانی کے بیشتر حصے میں کابل کی درانی سلطنت کے ماتحت رہے جسے وہ باقاعدگی سے خراج ادا کرتے تھے۔

محمد علی شیخ انگریزی روزنامہ ڈان میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1825 میں کمپنی برصغیر کی سب سے بڑی طاقت بن چکی تھی اور اس نے بیشتر علاقوں پر براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کر لیا تھا، صرف سندھ اور پنجاب اس کے تسلط سے باہر تھے۔

’ابتدا میں سندھ اور برطانیہ کے تعلقات خوشگوار رہے اور دونوں کے درمیان مختلف معاہدے بھی ہوئے لیکن بعد میں برطانوی حکومت نے دریائے سندھ کو بحری راستے کے طور پر استعمال کرنے میں دلچسپی لینا شروع کر دی تاکہ اسے بحیرہ عرب سے پنجاب کے بالائی علاقوں اور پھر وسطی ایشیا اور شمالی ہندوستان تک تجارتی راستے کے طور پر بڑھایا جا سکے۔‘

’برطانوی مفادات کی ایک اور بڑی وجہ روس کا ممکنہ حملہ تھا جس کے بارے میں برطانیہ کو شبہ تھا کہ وہ فارس اور افغانستان کے راستے سندھ کی زمین کو استعمال کر کے حملہ کر سکتا ہے۔‘

’لیکن برطانوی حکومت کا ایک بڑا حصہ سندھ پر براہ راست قبضے کے حق میں نہیں تھا۔ تاہم برطانیہ کے نمائندے سر چارلس نیپئر کی ذاتی خواہشات سندھ کی قسمت کے تعین میں فیصلہ کن ثابت ہوئیں۔‘

ڈاکٹر پٹھان ہی کی کتاب میں نیپیئر کے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’ہمیں سندھ پر قبضے کا حق نہیں، مگر پھر بھی ہم کریں گے اور یہ ایک انتہائی شرمناک مگر فائدہ مند اور کارآمد حرکت ہو گی۔‘

Getty Imagesحیدرآباد سندھ میں تالپور میروں کے مقبرےہندووں کی مالیات پر گرفت اور سیٹھ ناؤمَل کا مقام

یہ تو تھا انگریزوں کا منصوبہ لیکن کیا ناؤمل اتنے مال دار تھے کہ انگریزوں کی سندھ میں تالپورحکمرانوں کے خلاف مدد کرسکتے۔ اگر کر سکتے تو کیوں کر کرتے۔

اپنی کتاب ’لینڈلارڈ پاور اینڈ رورل انڈیٹڈنیس‘ میں چیسمَن لکھتے ہیں کہ 1843 میں چارلس جیمزنیپئر کی قیادت میں برطانوی قبضے سے پہلے مسلم اکثریتی سندھ میں بڑے ہندو تاجروں اور سرکاری افسروں کو غیر مسلم رعایا پر تحفظ کے بدلے میں لاگو ہونے والا ٹیکس ’جزیہ‘ نہیں دینا پڑتا تھا۔

چھوٹے تاجروں کو البتہ فی فرد پانچ سے دس روپے سالانہ رقم ’پیش کش‘ دینا ہوتی۔

سیٹھ ناؤمل سندھ کے بڑے تاجروں میں سے ایک تھے۔

محقق گل حسن کلہوڑو سندھی زبان میں اپنی کتاب ’کراچی جو لافانی کردار‘ میں لکھتے ہیں کہ ناؤمل، بھوجو مل کے پڑپوتے تھے جنھوں نے 1729 میں کراچی میں ایک قلعہ تعمیر کیا ۔

اپنی کتاب ’کراچی ڈیورنگ دی برٹش ایرا: ٹو ہسٹریز آف اے ماڈرن سٹی‘ میں بہرام سہراب ایچ جے رستم جی اور سہراب کے ایچ کتراک لکھتے ہیں کہ ’ کراچی کی دریافت کا سہرا ان ہی کو جاتا ہے۔ درحقیقت، وہ پرانے شہر اور بندر کراچی کے بانی تھے۔‘

چیسمَن کے مطابق ’جیمز برنز نے1827 میں سندھ کے اپنے دورے کے بعد بتایا تھا کہ ہندووں کا میروں (تالپورحکمرانوں) کے دربارمیں کافی اثرو رسوخ تھا۔ ان کے بھائی الیگزینڈرنے کچھ عرصہ بعد زیادہ یقین سے تصدیق کی تھی کہ ہندو سندھ میں طاقت میں تھے۔

دھرمیندرتولانی نے اپنے ایک ناول ’ییٹ این ادر ڈریم‘ کے ایک ضمیمے میں لکھا ہے کہ کراچی میں تمام کاروبار عملی طور پر ہندووں کے پاس تھا۔

کلاڈ مارکووِٹز، اپنی کتاب ’دی گلوبل ورلڈآف انڈین مرچنٹس: ٹریڈرزآف سندھ فرام بخارا ٹو پاناما‘ میں لکھتے ہیں کہ (سیٹھ بھوجومل کے پوتے اور ناؤمل کے والد) ہوت چند شاید تب سندھ کے امیر ترین تاجر تھے۔

تولانی کے مطابق ’سیٹھ ہوت چند اور ان کا گھرانا برصغیر اور اس سے باہر تجارت کے باعث کراچی بلکہ سندھ بھر میں جانے مانے تھے اور حیدرآباد کے میر، کرم علی، کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے۔

’میرکرم علی نے ہوت چند کے رشتہ داروں میں ایک جھگڑے میں ثالثی بھی کی تھی۔ اورجب بھی ہوت چندان کے پاس جاتے وہ انھیں نیچے قالین ،جہاں دیگر لوگ بیٹھے ہوتے، کی بجائے اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے۔‘

ڈاکٹر پٹھان کے مطابق ہندو تاجروں کے ہاتھ میں تمام کاروباری معاملات تھے، وہی ٹیکس اکٹھا کرتے اور ریاست کے مشیروں اور سفیروں میں شامل ہوتے۔

’غیر مسلم صرافوں اور ساہوکاروں کا سندھ میں اس قدر اثر و رسوخ تھا کہ وہ اپنے گوداموں اور دیگر جائیداد کو پہنچنے والے نقصان کے لیے ہرجانے کا مطالبہ بھی کرسکتے تھے۔‘

تاہم چیسمَن لکھتے ہیں کہ اس اہمیت کے باوجود ہندووں کو اکثریت کے ساتھ بنا کر رکھنا پڑتی۔

’اندرونی علاقوں سے محفوظ طورپر گزرنے کے لیے انھیں مقامی وڈیروں کو کچھ رقم دینا پڑتی۔ دیہات کی بجائے ان کی زمینیں قصبوں کے اردگرد ہوتیں یا طاقت ور خاندانوں کی جاگیروں کا انتظام کرتے۔ کسی مسلمان کو مالی دھوکا دیتے تو 10 گنا جرمانہ دینا پڑتا۔ جیمز برنز حیران تھے کہ وہ ایسے حالات میں وہاں رہتے کیوں ہیں۔‘

منافع کے آگے نقصانات کچھ نہیں تھے

چیسمن کے مطابق برطانوی قبضے سے پہلے سندھ کا سفر کرنے والےطامس پوستانز اور چارلس میسن کے مطابق ان کے اس علاقے کو نہ چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا منافع ایسے نقصانات کی تلافی کردیتا تھا۔

’بھاری شرح سودپر ان سے قرض لینا آسان تھا۔ کاشت کاراور زمین دار کبھی مالیہ دینے، کبھی شادی بیاہ، اور کبھی قرض اتارنے کے لیے مزید قرض میں پھنستے جاتے۔ عدالت کا رخ کرتے تو قرض کی سہولت سے بھی جاتے اور قرض کے بدلے کوئی نہ کوئی زمین کا ٹکڑا اونے پونے بیچ کر قرض چکانا پڑتا۔‘

محمود انجم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ریاست سندھ پر مسلمان حکمرانی کے باوجود تعلیم اور معیشت، تجارتی لین دین اور غیر رسمی بینکاری پر ہندو برادری کی مضبوط گرفت تھی۔

’سود پر رقم کی فراہمی ہندووں کے کاروبار کا اہم جزو تھا، سود پر قرض کے عوض فصل گروی رکھنا اور عدم ادائیگی کی صورت میں فصل کی اصل قیمت سے کم لگا کر فصل قبضے میں لے کر اونچے دام مارکیٹ میں فروخت معمول تھا۔‘

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘وہ شہر جہاں محمد بن قاسم نے سندھیوں سے ’آخری‘ لڑائی لڑیاورنگزیب کی رقاصہ سے محبت جس نے انھیں ’نمازیں بُھلا دیں‘مالیاتی تلخیاں مذہبی فساد کا باعث بنتیں

محمود انجم کے مطابق سندھ کی ہندو اور مسلمان آبادی کے بیچ یہ معاشی ناہمواری مذہبی تفریق میں شدت پیدا کرتی جو دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں تصادم کی صورت میں ظاہر ہوتا رہا۔

چیسمن لکھتے ہیں کہ ’ہندووں کو کبھی حسد اور کبھی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ ایسی فضا میں الزامات اور جوابی الزامات مذہبی فساد کی شکل اختیارکرلیتے۔‘

سیٹھ ناؤمل کی سندھ کی تالپورحکومت سے رنجش کی ابتدا بھی ان کے مطابق 1832 میں ہوئے ایک ایسے ہی مذہبی فساد کے بعد ہوئی تھی۔

تولانی نے لکھا ہے کہ ایک چھوٹے سے جھگڑے کے بعد ہوت چند کے بیٹے پرسرام پر توہینِ مذہب کا الزام لگا۔

’حیدرآباد کے میروں کو علم ہوا تو انھوں نے پرسرام کو طلب کیا لیکن چونکہ انھیں حفاظت کی غرض سے قریبی ہندوریاست جیسلمیر بھیج دیا گیا تھا، اس لیے ہوت چند ان کی بجائے خود حاضر ہو گئے لیکن اس بار میر کرم علی کے ساتھ ان کی دوستی کچھکام نہ آ سکی۔‘

ہجوم کا ہوت چند کو زبردستی نصرپور لے جانا اور تشدد کرنا

تولانی نے لکھا ہے انھیں تبدیلی مذہب پر مجبورکیا گیا لیکن ڈیوڈ چیسمَن کی تحقیق ہے کہ انھیں گرفتار کیا گیا اور(مذہب کی تبدیلی کے لیے) ختنوں کی دھمکی دی گئی۔

کلاڈ مارکووِٹزلکھتے ہیں کہ ختنوں کی افواہ تھی لیکن یہ درست نہیں تھی۔

تولانی کے مطابق کراچی کے ان تاجروں کی دولت یا ان کی تجارت سے حاصل ہونے والے محصولات ہی ان کے تحفظ کی ضمانت تھے۔

’لیکن اس بار میروں نے اس واقعے پرچشم پوشی اختیارکیا۔‘

البتہ مارکووِٹز لکھتے ہیں کہ بالآخر سندھ کے ایک اور میر مرادعلی نے مداخلت کرتے ہوئے ہوت چند کو چھڑوا لیا تھا۔ لیکن اس تلخ تجربے کے بعد انھوں نے راؤ آف کچَھ کے علاقے میں جلا وطنی اختیار کرلی۔

تولانی لکھتے ہیں کہ ’ہوت چند کے بیٹے ناؤمل نے (باپ پر تشدد کا) بدلہ لینے کی ٹھانی۔‘

ہنری پوٹنگر وہ پہلے برطانوی افسر تھے جن سے ناؤمل ہوت چند سندھ میں ملے۔

Getty Imagesناؤمل نے انگریزوں کی مدد کیسے کی

اپنی کتاب ’ہسٹری آف کراچی: 1839-1900‘ میں عظیم الشان حیدر لکھتے ہیں کہ نومبر 1838 کے آخر میں بمبئی فوج کے کمانڈر انچیف جوان کین کی قیادت میں ایک برطانوی بحری فوج افغانستان کی طرف روانگی کے دوران سندھ کے ساحل پر پہنچی ۔

تولانی کے مطابق ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کار ساحل پر آئے تو ناؤمل کے بڑے بھائی پریتم داس نے ان کا استقبال کیا اور مفرحات (ریفریشمنٹس) کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ قصبے اور رام باغ کے درمیان میدان میں انگریزوں نے شروع میں اپنے خیمے لگائے۔ البتہ کراچی کے لوگ غیرمتعلق، متحارب اور غیرمعاون رہے۔‘

سنہ 1839 میں انگریزوں نے کراچی پر حملہ کیا تو تالپور حکمرانوں کے مقامی نمائندوں نے پریتم داس ہی کو انگریزوں سے مذاکرات کے لیے بھیجا تب کہیں جا کر گولا باری رکی اور شہر کے باشندوں نے سکھ کا سانس لیا۔

بے کسی اور کسم پرسی کی حالت میں تالپور افسر خیر محمد نے سات فروری 1839 کو کراچی شہر کی چابیاں انگریزوں کے حوالے کردیں۔

عظیم الشان حیدر لکھتے ہیں کہ ’سیٹھ ناؤمل نے برطانوی فوج کی مدد کے لیے 800 اونٹوں کی نقل و حمل اور دیگر ضروری سامان کا انتظام کیا۔‘

ڈاکٹر پٹھان کے مطابق زبردست اثر و رسوخ رکھنے والے سیٹھ ناؤمل نے زیریں سندھ میں غیر بلوچ قبیلوں میں غداری (تالپوروں کی مخالفت )کا بیج بویا۔ یہ قبیلے کراچی، مکران، کچھ اور دیگر خطوں تک جانے والے تجارتی راستوں کو کنٹرول کرتے تھے ۔

محمد علی شیخ لکھتے ہیں کہ تالپوروں کی جانب سے جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود نیپئر نے جنگ کو یقینی بنا لیا۔

سترہ فروری 1843 کو میانی کے مقام پرحیدرآباد اور مٹیاری کے قریب جنگ کا میدان گرم ہوا۔ برطانوی افواج کی عددی برتری، سندھ کی فوجی کمزوریوں، باہمی اختلافات، مرکزی قیادت کی کمی اور فرسودہ ہتھیاروں نے تالپوروں کی شکست کو یقینی بنا دیا۔

22 مارچ 1843 کو حیدرآباد کے قریب تالپوروں نے آخری مزاحمت کی لیکن یہاں بھی وہ ناکام رہے اور نیپئر کی قیادت میں برطانوی فوج نے سندھ پر مکمل قبضہ کر لیا۔ یوں تالپوروں کی 60 سالہ حکمرانی کا اختتام ہو گیا۔

تاہم تالپور خاندان کی شمالی شاخ خیرپور، جس نے انگریزوں کی طرف داری کی تھی، برطانوی راج کے دوران میں ایک حد تک خودمختار رہی اور بطور ’ریاست خیرپور‘ اپنا وجود برقرار رکھا۔

اس ریاست کے حکمران نے اکتوبر 1947 میں نئی مملکت پاکستان میں شمولیت اختیار کی جسے بعد میں 1955 میں مکمل طور پر مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔

سندھ اب پاکستان کا جنوب مشرقی صوبہ ہے اور کراچی اس کا دارالحکومت۔

مائیکل بویوِن نے اپنی کتاب ’دی صوفی پیراڈائم اینڈ دی میکنگزآف ورنیکولرنالج ان کولونیل انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ سندھ پر قبضے کے پہلے مرحلے میں ایک شخص جس نے کمال مگر متنازع کرداراداکیا، سیٹھ ناؤمل ہوت چند تھے۔ انگریزوں اور سندھیوں کے مابین تعلق کے بعد کے ارتقا نے اسی اشتراک سے جنم لیا۔

رچرڈ ایم ایٹن، مونس ڈی فاروقی، ڈیوڈ گل مارٹن، اور سنیل کمار کی مرتب کردہ کتاب ’ایکسپینڈنگ فرنٹیئرزان ساؤتھ ایشین اینڈ ورلڈ ہسٹری‘ ہمیں بتاتی ہے کہ سندھ کے کچھ بڑے تاجروں، خصوصاً کراچی کے معروف بنیے سیٹھ ناؤمل ہوت چند نے 1839 سے 1843 کے دوران میں برطانوی قبضے میں ان کی مدد کی۔

’پاکستانی امریکی تاریخ دان‘ منان احمد کے مطابق سیٹھ ناؤمل ہوتچند غدار نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی عظیم تنازعے کی تقدیر ان کے کندھوں پر نہیں تھی۔

انگریزی اخبار ڈان میں اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ’وہ ایک تاجر، سوداگر، بروکر اور ’اطلاعاتی نظام‘ کے شریک تھے اور اس حیثیت سے، اگرچہ ان کی زندگی ان واقعات سے جُڑی ہوئی تھی جو نوآبادیاتی یا مقامی اقتدار کے بڑے مراکز کے طور پر نمایاں ہوئے لیکن انھوں نے ان کے نتائج کا تعین نہیں کیا۔‘

ناؤمل نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’میرا خاندان میروں کی مذہبی جوش میں کی گئی زیادتیوں پر بہت رنجیدہ تھا اوربرطانوی حکومت کے مفاد میں کام کرنے سے میرا بنیادی مقصد اپنے خاندان کے مفادات اور مستقبل کا تحفظ تھا۔‘

لگتا ہے سیٹھ ناؤمل نے ہوا کے بدلتے رخ کو بھانپ لیا تھا اورچیسمن کے مطابق اب انھیں اکثریت کو خوش رکھنے کی ضرورت نہیں تھی ’برطانوی حکم رانی میں تجارت اور نوکرشاہی کو وسعت ملی اورپہلے کی طرح ان شعبوں پر ناؤمل اور ان کے بھائی بندوں کا راج تھا۔‘

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟وہ شہر جہاں محمد بن قاسم نے سندھیوں سے ’آخری‘ لڑائی لڑیدس رمضان: یوم باب الاسلام اور محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے نقطۂ آغاز کی کہانیآزاد ہند فوج کے سربراہ جن کی موت کا ہندوستانیوں نے یقین کرنے سے انکار کر دیاسلطنت فارس کی 2500 سالہ تاریخ اور ایران کی آخری ملکہ کی سالگرہ کے جشن کے دوران یحییٰ خان کی ’بے چینی‘ماہ بیگم: 50 برس تک سندھ کی تقدیر کے فیصلے کرنے والی ملکہ، جن کا آخری فیصلہ ان کی جان لے گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More